تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     28-07-2013

کیا ہمارا ڈی این اے کرپٹ ہے؟

کیا ہمارے ڈی این اے میں کرپشن زیادہ اور اخلاقیات کم ہوگئی ہے اور ہم تباہ ہورہے ہیں؟ بینظیر بھٹو نے لندن میں 7جولائی 2007ء کو نواز شریف کی زیرصدارت ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں اتنا کہہ دیا تھا کہ یہ بات اعلامیہ میں نہیں لکھی جانی چاہیے کہ آئندہ پاکستانی سیاست میں ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر کوئی حکومت نہیں بنائی جائے گی۔اس پر اتنا شور مچا جیسے بینظیر بھٹو غداری کر بیٹھی ہیں۔ نواز شریف اس وقت صدارت فرما رہے تھے اور بینظیر بھٹو خود تو شریک نہ ہوئیں لیکن وہ فون پر امین فہیم سے رابطے میں تھیں۔ کافی دیر تک مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہوسکا کیونکہ نواز شریف چاہتے تھے کہ ہر صورت میں یہ شق اعلامیہ میں شامل کی جائے کہ ایم کیو ایم نے 12مئی 2007ء کو کراچی میں ہنگامہ آرائی کی تھی لہٰذا اس کے ساتھ پاکستان میں کوئی حکومت نہیں بنائے گا۔ آج وہی نواز لیگ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پہنچ چکی ہے۔ جو کچھ لاہوریوں کے بارے میں ایم کیو ایم کے ایک ارکان نے کہا تھا وہ سب کچھ ختم۔ اسی طرح جو باتیں جواباً چوہدری نثار علی خان نے الطاف حسین کے بارے میں کہی تھیں اور جوخطابت کے مظاہرے قومی اسمبلی میں حیدر عباس رضوی اور نثار علی خان کے درمیان دیکھنے میں آئے وہ سب بھی بھلا دیے گئے۔ جنرل مشرف کی بغاوت کے بعد جو مسلسل ٹکرائو کی کیفیت ان دو جماعتوں کے درمیان چلتی رہی ہے وہ اپنی جگہ ایک عبرت ناک مثال ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ قابل احترام کالم نگار نذیر ناجی اور حسن نثار اکثر یہ بات اپنے کالموں میں لکھتے رہے ہیں کہ ایم کیوایم کے ساتھ یہ سلوک روا نہ رکھا جائے۔ انہیں سیاسی تنہائی کا شکار نہ ہونے دیں‘ انہیں دیوار کے ساتھ مت لگائیں۔ اس پر نواز شریف کے حمایتی ان پر تنقید کرتے تھے اور طرح طرح کے الزامات لگتے تھے۔ آج نذیرناجی اور حسن نثار کی بات برسوں بعد انہیں سمجھ آئی ہے جب صدارت کے لیے ووٹوں کی ضرورت پڑگئی ہے۔ جب لندن کی آل پارٹیز کانفرنس میں ایم کیو ایم کے ساتھ حکومت نہ بنانے کی شرط رکھی گئی تھی تو بھی ان دونوں کالم نگاروں نے شور مچایا تھا کہ ایسا مت کریں۔ نقار خانے میں یہ مشورہ ضائع گیا تھا۔ جو کچھ پاکستانی سیاستدان کرتے ہیں اس کے بعد ہم کیا توقع رکھیں کہ قوم کیا کرے گی ؟ کردار کہاں سے لائیں، کس کو رول ماڈل بنائیں ۔ اپنے بچوں کو کیا سکھائیں کہ انہیں کیا بننا چاہیے؟ کیا سیاست اس چیز کا نام ہے کہ جو کچھ لوٹ سکتے ہو لوٹ لو، جتنی بداخلاقی کر سکتے ہو کرلو، جتنے جھوٹے وعدے کر سکتے ہو کرو‘ تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا ؟ یہ رویہ صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں ہے۔ ’نماز میرا ایمان اور چوری میرا پیشہ‘ والا معاملہ پورے معاشرے پر پورا اترتا ہے۔جتنی ہمارے یہاں کرپشن اور اخلاقی گراوٹ بڑھتی جارہی ہے اتنی ہمارے اندر مذہب کے لیے دلچسپی بڑھتی جاتی ہے۔ ہم نے سمجھ لیا ہے کہ جو کرنا ہے‘ کر لو‘ ایک عمرہ کرنے سے گناہ دھل جائیں گے۔ کیا انسانی قدریں ختم ہوگئی ہیں؟ پورا معاشرہ اس ڈگر پر چل نکلا ہے کہ ڈنگ ٹپائو کام کرو۔ جہاں قسم قرآن سے کام چلتا ہے‘ چلا لو۔ جہاں زبانی جمع خرچ ہوتا ہے‘ کرو۔ جہاں کچھ لکھ کر دینا پڑے لکھ کر دے دو، جہاں چار بندوں کو گواہ بنانا پڑے‘ بنا لو۔ پھر وقت بدل جائے تو سب سے مکر جائو۔ ایک واقعہ سن لیں۔ ایک سرکاری گھر خالی کرانے کے لیے اسٹیٹ آفس نے اہلکار بھیجے۔ گھر خالی ہوا۔ جب گھر کے نئے الاٹی گھر میں داخل ہوئے تو یوں لگا کہ دشمن کی فوج یہاں سے پھر گئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی بجلی کی تاریں تک وہ سرکاری ملازمین چوری کر کے لے گئے۔ کوئی گیس ہیٹر اٹھا کر لے گیا تو کوئی فینسی لائٹس لے گیا اور کسی کے ہاتھ بلب لگا ۔ متلعقہ افسر سے شکایت کی تو فرمانے لگے جناب وہ صاحب سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں۔ انہیں بتایا گیا کہ قابل اعتماد ہی تو آپ کو بروٹس کی طرح چھری مارتے ہیں۔ دوست کو بتایا کہ اتنا اداس مت ہو۔ جب یہ سرکاری ملازمین دیکھتے ہیں کہ اس ملک کو وزیراعظم تک نہیں بخشتے۔ اور تو اور شوکت عزیز کی طرح وہ تحفے میں ملنے والی پچاس روپے کی چیز بھی نہیں چھوڑتے تو اسٹیٹ آفس کے ملازم گھر سے بلب، ہیٹر اور دیگر اشیاء لے گئے ہیں تو کون سی قیامت آگئی ہے۔ جب ٹاپ سے ہی کرپشن شروع ہے تو پھر نیچے والے کدھر جائیں۔ بڑے اپنے لیول پر ڈاکے مارتے ہیں اور چھوٹے اپنے لیول پر ڈاکو بنے ہوئے ہیں۔ یہ ملازم پیشہ ڈاکو نفع میں چل رہے ہیں۔ گھر بھی لوٹ لیتے ہیں اور سرکار سے تنخواہ بھی لے رہے ہیں۔ عام ڈاکو کی طرح پولیس تھانے کا کوئی بھی ڈر نہیں۔ انگلیاں گھی میں اور سر کڑاھی میں۔ مجھے تو اب کوئی شک نہیں رہا کہ ہمارا ڈی این اے ہی کرپٹ ہے۔ آپ کچھ بھی کر کے دیکھ لیں، ہم کرپشن کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ایماندار وہ نہیں ہے جسے پیسے کمانے کا موقع نہیں ملا۔ بلکہ ایماندار وہ ہے جسے موقع ملتا ہے اور وہ نہیں لیتا۔ ایسے کتنے ہوں گے؟ یقینا ہوں گے۔ ٹاپ کے اداکار سہیل احمد کے کالم میں ایک بزرگ کا خط پڑھ کر یوں لگا کہ کیسے اس معاشرے نے انہیں بہتر سال کی عمر میں پچھتانے پر مجبور کر دیا ہے کہ بہتر ہوتا کہ وہ بھی سرکاری نوکری کے دنوں میں کچھ کما لیتے۔ ایک دفعہ میرے دوست اسحاق خاکوانی نے کہا چلو تمہیں فلاں آدمی سے ملواتا ہوں۔ میں نے انکار کیا تو بولے کیوں؟ میں نے کہا وہ بندہ ٹھیک نہیں ہے۔ اسحاق خان نے خوبصورت بات کی کہ جناب اب آپ لندن نہیں رہتے۔ پاکستان میں تو سب اسی طرح کے ہیں۔ یہی مال یہاں بکتا ہے‘ اسی سے کام چلائیں۔ اب آپ کے لیے ایماندار لوگ کہاں سے امپورٹ کر ائیں۔ اگر اس طرح سوچو گے تو پھر کسی سے نہیں مل پائو گے اور گھر میں اکیلے بیٹھے رہو گے۔ مجھے اسحاق خان کی بات سمجھ میں آگئی۔ میں چپ کر کے ان کے ساتھ چل پڑا۔ اخلاقیات لیڈر بناتے ہیں اور اس سے قوم بنتی ہے اور یہاں لیڈروں نے ہمیں ماموں بنانے کا کام پکڑ رکھا ہے۔ جب اقتدار سے باہر ہوں تو اخلاقیات اور جب اندر ہوں تو زمینی حقائق۔ لندن میں ایم کیو ایم ، نواز لیگ کے لیے بارہ مئی کے واقعات کی وجہ سے قاتل تھی اور آج انہی سے ووٹ لیں گے۔ یہ قوم 65 برسوں سے ماموں بنتی آئی ہے اور آئندہ بھی بنتی رہے گی ! میرے ایک جاننے والے فراڈ کرتے تھے۔ ایک دن پوچھا کہ یار تم کیسے کر لیتے ہو۔ وہ مسکرا کر بولا جب تک دنیا میں لالچی لوگ موجود ہیں ہم بھوکے نہیں مریں گے۔ اس لیے میرے جو دوست نواز لیگ اور ایم کیو ایم کے ماضی میں گالی گلوچ کے بعد اب اس پیار پر حیران ہیں، وہ تسلی رکھیں کیونکہ یہ قوم ماموں بن کر خوش رہتی ہے۔ دنیا کا ہر کاروبار ڈیمانڈ اور سپلائی پر چلتا ہے۔ یہ مثال بیوقوف بننے اور بنانے والے دونوں پر صادق آتی ہے۔ جب تک بیوقوف موجود ہیں، بنانے والے بناتے رہیں گے !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved