بھارتی سرکار کی انتہا پسندی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔دبئی میں پاکستانی ٹیم سے کر کٹ میچ ہارنے کاانتقام لینے کے لیے بھارت کے طول و عرض میں متعدد مسلمان کو چھریوں‘ ڈنڈوں اور آگ کے شعلوں پر رکھ لیا گیا۔ سڑکوں ‘بازاروں اور گلیوں میں نظر آنے والی مسلمانوں کی گاڑیاں‘ بسیں‘ سائیکل ‘ موٹر سائیکل اور دکانوں کو مودی کے ہندوتوا ہجوم نے تہس نہس کرنا شروع کر دیا۔سوائے پاکستان کے کہیں سے بھارت کی اس درندگی اور وحشت کے خلاف آواز نہ اٹھی۔ جب مسلمانوں کا قتل عام اور انہیں زندہ جلانے کا طوفان بڑھنے لگا تو بھارت سمیت اس کے ہمدردوں نے اپنے چہروں کی کالک پاکستان پر پینٹ کرنے کے لیے عالمی سطح پر کچھ کرائے کے لوگوں کو متحرک کیا ۔بھارت اپنی میل کچیل اپنے دامن میں چھپا کرپاکستان پر گرانے کے لیے ہر سفارتی حدودکو پامال کیا گیا۔ جب بھارت کی ہر ریا ست سے مسلمانوں کی پراپرٹیز سے اٹھنے والے آگ کے شعلے ہر طرف چکا چوند پیدا کرنے لگے تو ان سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستانی اداروں کو بدنام کرنے کے لیے نو جوانوں کے اغوا جیسے الزامات لگوا دیے اور اپنے حامیوں سے شرمناک قسم کے نعرے لگوانے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی ۔مذہبی آزادی پر تشویش کی امریکی فہرست میں پاکستان کو شامل کر دیا گیا مگر سفارش کے باوجود بھارت کو اس رپورٹ سے باہر رکھا گیا۔
مذہبی آزادی کا جائزہ لینے والے امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھارت کا نام اس فہرست میں شامل کرنے کی تجویز دی تھی لیکن اس کے باوجود بائیڈن انتظامیہ نے بھارت کو فہرست میں شامل نہیں کیا۔انڈین امریکن مسلم کونسل نے بھارت کو سی پی سی کی فہرست میں شامل نہ کرنے پر امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انڈین امریکن مسلم کونسل نے ٹوئٹ کیا تھا کہ کونسل بھارت کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کی سی پی سی کی فہرست سے خارج کرنے کے فیصلے کی مذمت کرتی ہے جبکہ امریکی کمیشن اس فہرست میں بھارت کو شامل کرنے کی سفارش کرتا ہے۔انڈین امریکن مسلم کونسل نے لکھا کہ یہ افسوسناک ہے کہ بائیڈن انتظامیہ بھارت میں مذہبی آزادی پر بڑے پیمانے پر حملوں کے بارے میں خاموش ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نریندر مودی حکومت کو بھارت میں مذہبی اقلیتوں پر حملہ کرنے کی ترغیب دے رہی ہے۔بین الاقوامی سطح پر مذہبی آزاد ی پر نظر رکھنے والے امریکی سرکاری کمیشنUS Commission on International Religious Freedom کی سالانہ رپورٹ2021 میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں مذہبی آزادی کی منظم انداز میں خلاف ورزی ہوئی ہے۔یو ایس سی آئی آر ایف کی رپورٹ میں جن امور پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا گیا ان میں شہریت ترمیمی قانون سب سے اہم ہے۔ اس میں کہا گیا کہ دہلی میں ہونے والے فسادات کے دوران ہندو ہجوم کو کلین چٹ دی گئی اور مسلمانوں پر انتہائی طاقت کا استعمال کیا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ آسام میں تیار کیے گئے بڑے حراستی مراکز آنے والے دنوں میں مزید تباہی پھیلائیں گے۔یو ایس سی آئی آر ایف نے 2021ء کی رپورٹ میں جن امور پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا ان میں گزشتہ برس مارچ میں نئی دہلی میں مسلمانوں کے خلاف مودی سرکار کی کارروائیاں بھی شامل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ کووڈ19 وبا کے آغاز میں بھارتی حکومت کے نمائندوں اور عہدیداروں نے نفرت انگیز بیان بازی کی اور مذہبی اقلیتوں (مسلمانوں) کو نشانہ بنایا گیا۔ بھارت کی مرکزی حکومت اور دہلی انتظامیہ گزشتہ برس کورونا وائرس کی وبا شروع ہونے کے بعد روزانہ متاثرین کی تعداد بتاتے وقت یہ بھی بتاتے تھے کہ تبلیغی جماعت کی وجہ سے کتنے فیصد لوگ کووڈ19 سے متاثر ہوئے ہیں۔ تاہم اس دنوں ہردوار میں کمبھ میلے میں لاکھوں کی تعداد میں ہندوؤں کی موجودگی کے باوجود حکومتیں اس کا کوئی ذکر نہیں کر رہی ہیں۔اس کے باوجود اگر امریکی انتظامیہ کو بھارت مذہبی اقلیتوں کے لیے متوازن دکھائی دیتا ہے تو اس ناانصافی پہ نہ صرف افسوس ہوتا ہے بلکہ امریکی رپورٹوں کے معیار اور اعتبار کی قلعی بھی کھل جاتی ہے۔
برف اور مٹی کے بنائے گئے انسانوں کے اس سمندر میں گزشتہ پندرہ دنوں میں35 کشمیری نوجوانوں کو بھارتی فوج نے شہید کیا۔ بھارتی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کے بد نام زمانہ کیمپ جنہیں گوانتانا موبے یا گولاک کہنا زیا دہ منا سب ہو گا (سٹالن کے دور میں سوویت عقوبت خانوں کو گولاک کہا جاتا تھا) وہاں رات ڈھلتے ہی کشمیری مسلم نوجوانوں کی چیخیں سنائی دینا ایک معمول بن چکا ہے۔ نہ جانے کیوں وہ درد ناک چیخیں انسانی حقوق کے نام پر دنیا میں دندناتی تنظیموں اور یورپی یونین کے سفارت خانوں کو سنائی نہیں دیتیں ؟ ہز ماسٹرزوائس کی طرح انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے قصے کہانیاں سنا کر اپنا پیٹ بھرنے والوں کواپنی مرضی کے لوگ تو مل جاتے ہیں لیکن انہیں مقبوضہ جموں وکشمیر کے80 لاکھ محکوم اور مظلوم کشمیری کیوں نظر نہیں آتے؟ دوسروں کیلئے اخلاقیات‘انسانی حقوق اور آزادی کا پرچار اورعظیم تصورات کے لیے ایک اعلیٰ مثال تو بن سکتا ہے لیکن جنگل کے قانون کی منصوبہ بندی کرنے والے خود کو ہر قسم کے قانون‘ مذہبی رواداری اور ہیومن رائٹس سے بالا تر کیوں سمجھتے ہیں؟ امریکہ‘ فرانس‘ برطانیہ اور یورپی یونین کے تھنک ٹینک ‘ ان کے بڑے سکالرز سمیت‘اراکین سینیٹ اور کانگریس سمیت ان کی ڈوریاں ہلانے والے خفیہ اداروں کے زیرک اور تیز طرار قسم کے حکمت عملی بنانے والے اپنے لئے اپنی مرضی اور حالات کے مطا بق قوانین اور ضابطے تو بنا لیتے ہیں لیکن ان ممالک کے لیے جو کہیں آئی ایم ایف کے محتاج ہیں تو کہیں عالمی بینک‘ ایشیائی بینک اور مالدار ممالک کی جانب سے ملنے والی امداد کے سامنے با ادب کھڑے ہوکر ہر چھوٹے بڑے قرض کے لیے کئی کئی ماہ ایڑیاں رگڑتے رہتے ہیں ‘ان کے لیے ان کی حکمت عملی اور قوانین حیران کیوں حد تک مختلف اور شرمناک ہوتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے بے پناہ نا انصافیوں کے علاوہ کسی اخلاقی اور قانونی پہلو کو بھی در خور اعتنا نہیں سمجھتے بلکہ یہ کہنا منا سب ہے کہ سوچتے بھی نہیں۔
پاکستان جیسے مقروض اور تیسری دنیا کی انتشار سے بھری ہوئی سیاست سے دوچار ممالک اگر کسی چور ‘ ڈاکو کو پکڑلیں یاا س کے خلاف کارروائی کی جسارت کر بیٹھیں تو سرمایہ دار ممالک کی کھڑی کی گئی مختلف تنظیمیں کوے کی طرح کائیں کائیں کرتے ہوئے اس طرح آسمان سرپر اٹھا لیتی ہیں جیسے اس حرکت سے نظام زندگی ہی نہیں بلکہ کائنات کی حر کات و سکنات کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔فلسطین پر اسرائیلیوں کے دلوں کو دہلا دینے والے شرمناک مظالم‘ چند ماہ اور چند برس کے معصوم بچے بچیوں پر جانوروں کو مارنے والے کارتوسوں کی بارش ‘ ان بچوں کی مدد کے لیے بڑھتی ہوئی بوڑھی مائوں کو بھاری رائفلوں کی ضربوں سے لہو لہان کرنا ان کی کمزور ہڈیاں توڑنا اسرائیلی فورسز نے ایک معمول بنا لیاہے لیکن کسی کی آواز نہیں اٹھتی کیونکہ ظالم کی شکل میں ان کے سامنے اسرائیل کھڑا ہوتا ہے یا معاملہ مظلوم کشمیریوں کا ہو تو بھارت آگے ہوتا ہے۔
بھارت کے زیر قبضہ جمو ں وکشمیر میں جگہ جگہ زیر زمین قائم کئے گئے بد نام زمانہ ٹارچر سیلز میں پھینکے ہوئے کشمیری عالمی منظر نامے سے ایک ایک کرتے ہوئے غائب ہو کر تاریخ کا حصہ بنتے چلے جائیں گے ‘مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی خفیہ ایجنسیوں کے قائم کئے گئے درجنوں عقوبت خانوں میں بند کشمیری بیٹے‘ ان کے بوڑھے والدین‘ ان کی جوان بہنیں اور چھوٹے بھائی جنہیں خلاف قانون ہی نہیں بلکہ خلاف تہذیب حراست میں رکھا گیا ہے ان کی زندگیوں کا ہر لمحہ ان کی زندگیوں کے سفر کو کم کرتا جا رہا ہے اور عقوبت خانوں میں تھرڈ ڈگری سے بھی کئی گنا زیا دہ ہولناک تشدد کے شکار درجنوں انسانی ڈھانچے شام ہوتے ہی تشدد کی برسات برسنے سے پہلے ہی موت کی دعائیں مانگتے ہیں۔بد قسمتی کہہ لیجئے یا کربناک تشدد سے چھٹکاراپا کر مر جانے والوں کو کبھی چپکے سے کسی کھائی میں پھینک دیتے ہیں تو کسی کو پہاڑوں پر دفن کر دیا جاتا ہے یا ہٹلرکی اولادوں کے جو نازی کیمپ کشمیر کے پہاڑوں میں بنائے گئے ہیں وہاں بھارتی فوج کے ہولناک تشدد اور بربریت کے شکار کشمیریوں کو دریا میں بہا دیا جاتا ہے ۔بین الاقوامی میڈیا جسے پاکستان کے اندر سے مسنگ پرسن‘ ہیومن رائٹس‘ مادر پدر آزاد معاشرے کے نعرے لگانے والوں کی مددکی عادت پڑ چکی ہے کو اسرائیل کی جیلوں‘یروشلم ‘ غزہ اورا س کے ارد گرد نہتے فلسطینیوں اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلمانوں پر ڈھائے گئے ظلم متاثر نہیں کرتے۔ امریکی دانشور ویسے تو بہت بولتے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے کیمپوں اور ٹارچر سیلز کی سرگرمیوں پر زبان کھولتے ہوئے نہ جانے کیوں ہچکچاتے ہیں۔ان کے ہاں ایک روپے کا ٹیکس چوری کرنے والے کا میڈیا پر اس طرح منہ کالا کیا جاتا ہے کہ وہ باہرنکلنا تو کجا اپنے گھر میں منہ چھپانے کے قابل بھی نہیں رہتا لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں اربو ں روپے کا ٹیکس چوری کرنے والے کو ان کے گھر جا کر شاباش دی جاتی ہے‘ انہیں اشیر باد دیتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ گھبرائو مت کل کو تم ہی ہمارے نامزد نمائندے بنو گے‘ ہمیں تمہارے جیسے لوگوں کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے ‘تم ہی ہمارا اثاثہ ہو۔