تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     28-11-2021

آئیڈیا لائیں‘کروڑ پتی ہو جائیں

آئے روز سٹارٹ اپس کے حوالے سے حیران کن خبریں آتی ہیں‘ مثلاً یہ کہ فلاں سٹارٹ اپ کو فلاں کمپنی نے اتنے لاکھ یا کروڑ ڈالر میں خرید لیا‘ فلاں سٹارٹ اپ نے پچاس لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کر لی یا فلاں سٹارٹ اپ نے ایسی سروس متعارف کروائی کہ ہفتوں اور مہینوں میں لاکھوں ڈالر کمانے لگا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سٹارٹ اپ کلچر دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ چونکہ یہ کلچر نیا ہے اس لئے عام لوگ سٹارٹ اپ کو کوئی مافوق الفطرت قسم کی چیز سمجھتے ہیں۔ بنیادی طور پر اس کا تعلق کاروبار سے ہے اور وہ بھی آ ن لائن یعنی اس میں انٹرنیٹ ایک پُل کا کام کرتا ہے۔ سٹارٹ اپ کلچر سے قبل کاروبار کو ایک کمپنی ‘ دکان یا ادارے کے طور پر لیا جاتا تھا جس کے لئے کثیر سرمایہ درکار ہوتا تھا۔ سرمائے کے علاوہ کاروبار کی جگہ‘فرنیچر‘ مارکیٹنگ کا بجٹ‘ کئی سو ملازمین سمیت طرح طرح کی چیزیں درکار ہوتی تھیں۔ اگر کاروبار بڑا ہو جیسا کہ فیکٹری یا کارخانہ تو اس کے لئے کروڑوں اربوں روپے ‘ قرضے اور بینک گارنٹیاں درکار ہوتی تھیں۔ اتنا پیسہ لگا نے والے لامحالہ پھر پیسہ کماتے بھی تھے لیکن عام آدمی یہ سب کرنا تو دُور کی بات خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔ تاہم ٹیکنالوجی کی وجہ سے نہ صرف ایک عام ٹین ایجر لڑکا یا لڑکی روایتی کاروبار کی طرح منافع کمانے کا نہ صرف سوچنے لگے بلکہ ایسی سینکڑوں مثالیں ہمارے سامنے آئیں جس میں دو تین نوجوانوں نے مل کر کسی مسئلے کو سلجھانے کا حل پیش کیا اور اسی سے دنیا بھر میں مقبول ہو گئے۔ گوگل‘ وٹس ایپ‘ اوبر‘ کریم‘انسٹاگرام یہ سب سٹارٹ اپ ہی تو تھے جو اس وقت دنیا پر راج بھی کر رہے ہیں اور منٹوں کے حساب سے لاکھوں ڈالر کما رہے ہیں۔
سٹارٹ اپ بنیادی طور پر چار قسم کے ہوتے ہیں۔پہلی قسم کے سٹارٹ اپس چھوٹے آئیڈیا اور محدود پیمانے پر اپنے ہی پیسوں سے کام کرتے ہیں۔ ان کی ٹیم بھی چھوٹی ہوتی ہے اور ان سے فائدہ حاصل کرنے والے بھی کم ہوتے ہیں۔یہ اپنے آپ کو سکیل اپ یا پھیلانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ ایک خاص دائرے میں رہتے ہوئے کام کرتے رہتے ہیں۔ دوسری قسم کے سٹارٹ اپس وہ ہوتے ہیں جو بنائے ہی اس لئے جاتے ہیں تاکہ انہیں فروخت کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لئے ایسے آئیڈیا پر کام کیا جاتا ہے جس کے ذریعے مختلف کمپنیاں اپنے مقاصد حاصل کر سکتی ہوں۔ یہ کمپنیاں ایسے سٹارٹ اپس کو خرید کر ان میں سرمایہ کاری کرتی ہیں اور مختلف تبدیلیاں بھی لا سکتی ہیں۔ تیسری قسم کے سٹارٹ اپس وہ ہوتے ہیں جنہیں وسیع پیمانے پر کسی سروس کی انجام دہی اور لامحدود پیسہ کمانے کے لئے بنایا جاتا ہے۔ ایسے سٹارٹ اپس میں دیگر سرمایہ کار پیسہ لگانے کو تیار ہو جاتے ہیں اگر انہیں یہ یقین ہو کہ اس کے آئیڈیا میں جان ہے اور یہ آگے چل کر بہت زیادہ نفع بخش ثابت ہو سکتا ہے۔چوتھی قسم وہ ہے جو کسی مالی مفاد کے لئے نہیں بنائے جاتے بلکہ ان چیریٹی اور لوگوں کی مختلف مسائل میں معاونت کا کام انجام دیتے ہیں۔ یہ مریضوں کے علاج‘ طالب علموں کی تعلیمی معاونت‘ صاف پانی کے حصول اور دیگر مسائل کے حل کے لئے بنائے جاتے ہیں اور مکمل طور پر امداد پر چلتے ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ جن شعبوں میں سٹارٹ اپس بن رہے ہیں وہ سافٹ ویئر ٹیکنالوجی‘مارکیٹنگ اینڈ ایڈورٹائزمنٹ‘صحت‘آئی ٹی‘انشورنس‘تعلیم‘رئیل اسٹیٹ‘ماحولیات اور توانائی‘ای کامرس‘ بلاک چین اور کرپٹو کرنسی سے متعلق ہیں۔2018ء میں سنتالیس ایسے سٹارٹ اپس تھے جن کو ایک ارب ڈالر یا اس سے زائد مالیت کی بولی دے کر خرید لیا گیا۔ پاکستانی سٹارٹ اپ ایئرلفٹ کو پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ساڑھے آٹھ کروڑڈالر کی سرمایہ کاری حاصل ہوئی۔عالمی ممالک کو دیکھیں تو پاکستان ابھی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن چیزوں میں تبدیلی کی رفتار بہت تیز ہے۔ 2020ء کورونا میں گزر گیا مگر اس دوران پاکستانی سٹارٹ اپس نے آٹھ کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی تاہم 2021ء کے پہلے چھ ماہ انتہائی حیران کن نتائج لے کر آئے اور اس سال کے پہلے چھ ماہ میں بائیس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی گئی۔اس رفتار سے یہ سفر جاری رہا تو دو ہزارپچیس تک پاکستانی سٹارٹ اپس بھی ایک ارب ڈالر کا ٹارگٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
پاکستانی نوجوانوں دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ جلدی کام کا جدید انداز اپنا سکتے ہیں۔ یہاں کام کرنے اور پھلنے پھولنے کے بہت زیادہ مواقع ہیں اور بہت سے شعبوں میں ابھی ٹیکنالوجی نے پوری طرح قدم بھی نہیں جمائے ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے نوجوان بیرون ممالک سے اچھی تنخواہوں والی غیرملکی ملازمتیں چھوڑ کر پاکستان واپس آئے اور اینٹرپرینیورز بن گئے ہیں۔ ایک امریکی شہری جارڈن اولیواس پاکستان میں سٹارٹ اپ کے ایک اچھوتے آئیڈیا پر کام کر رہے ہیں جس میں صارفین کو پہلے خریدیں‘ بعد میں پیسے دیں کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ چین‘ بھارت اور انڈونیشیا میں جو کچھ ہوا ہے وہ اب پاکستان میں بھی ہورہا ہے لیکن بہت تیزی کے ساتھ۔ پہیہ گھومنا شروع ہوگیا ہے اور اس کی رفتار بھی بڑھ رہی ہے۔بھارت میں طویل عرصے سے سٹارٹ اپ کے شعبے میں کام ہو رہا تھا۔ پاکستان میں ماضی میں دہشت گردی کے پے درپے واقعات ہو رہے تھے اس لئے غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کو خوف کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔تا ہم اب حالات مختلف ہیں بائیس تئیس کروڑ کی آبادی میں سے دو تہائی کی عمر 30 سال سے کم ہے۔ پچھلے پانچ برسوں میں انٹرنیٹ کے استعمال میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بینکوں کے علاوہ بھی آن لائن ادائیگیوں اور رقوم بھجوانے کے درجنوں پلیٹ فارمز سامنے آ چکے ہیں۔ وفاقی حکومت کے تحت اگنائیٹ اور پنجاب حکومت کے تحت ریجنل پلان نائن پاکستان میں سٹارٹ اپ کلچر کے فروغ کیلئے کام کر رہے ہیں جہاں انہیں چند ماہ کے لئے آفس یا کام کرنے کی جگہ کے ساتھ تکنیکی و قانونی رہنمائی اور عالمی سرمایہ کاروں کے ساتھ رابطہ کروانے کی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔ گزشتہ دنوں پنجاب حکومت نے سٹارٹ اپ پنجاب پورٹل وضع کیا۔ جس کے ذریعے بیس سٹارٹ اپس منتخب کئے گئے اور ان بیس سٹارٹ اپس کو دبئی ایکسپو میں لے جایا گیاجہاں انہیں ٹیکنالوجی پر مبنی سروسز اور آئیڈیاز کو بہترین انداز میں پیش کرنے کا موقع ملا ۔پورٹل سے سٹارٹ اپس اور بین الاقوامی سٹیک ہولڈرز کے درمیان روابط کے قیام اورانفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن انڈسٹری کے فروغ میں مدد ملی۔ان میں ایک سٹارٹ اپ ایک خاص مشین کی مدد سے کرکٹ میں بائولنگ ایکشن کی بہتری کا آئیڈیا لے کر آیا‘ ایک اور سٹارٹ اپ نے پانی کی اسی فیصد بچت کا حل پیش کیا‘ ایک سٹارٹ اپ خواتین کے لئے گھر پر میک اپ کروانے کی سروسز پر مبنی آئیڈیا کے ساتھ سامنے آیا۔آئی ٹی بورڈ کے ساتھ لندن اور دبئی کی بزنس کونسل نے سٹارٹ اپ کے فروغ اور ترویج کے لئے معاہدے بھی کئے جن کے مثبت نتائج آنے والے چند برسوں میں سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔
پاکستان اور بھارت میں سٹارٹ اپس کا کتنا سکوپ ہے اور یہ کتنی دور تک مار کر سکتے ہیں‘ اس کا اندازہ آپ کو بھارت کے ایک سٹارٹ اپ 'او یو‘ سے ہو جائے گا جو بھارت سمیت 80ممالک میں رہائش کے لئے کمرے آن لائن بُک کروانے کی سروسز فراہم کرتا ہے۔یہ سٹارٹ اپ صرف آٹھ سال قبل 2013ء میں بنااور اس وقت اگر اسے فروخت کر دیا جائے تو اس کے 28سالہ بانی رتیش اگروال کو چار ہزار کروڑ روپے مل سکتے ہیں ۔ دیکھتے ہیں پاکستان اس میدان میں کب کمال دکھاتا ہے جس میں کوئی انوکھا آئیڈیا‘ کسی مسئلے کا جدید حل‘ بیس بائیس برس کے نوجوان کو کروڑ پتی بنا سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved