پاکستانی عوام شاید ماضی کے کسی ایک دور میں اتنی کنفیوژن کا شکار نہیں ہوئے جتنے آج ہیں۔ وہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پارہے کہ اسحاق ڈار نے مصنوعی طور پر ڈالر کو کنٹرول کر کے غلطی کی یا شوکت ترین صاحب نے 178 روپے تک بڑھا کر بہتر کیا؟ اگر ڈالر کی قیمت بڑھ جانا غلط ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ تحریک انصاف کے مطابق ماضی کی حکومتیں اس کی ذمہ دار ہیں جبکہ ماضی کی حکومتوں کے مطابق یہ سب تحریک انصاف کی نااہلی کی بدولت ہوا ہے۔ کون قصور وار ہے‘ اس کا فیصلہ شاید جلد نہ ہو سکے ‘لیکن عوام ذہنی طور پر تسلیم کر چکے ہیں کہ ان کا برا وقت چل رہا ہے کیونکہ جب کرشمے بھی آپ کے لیے خوشخبری کا باعث نہ بن سکیں تو سمجھ لیجیے کہ قسمت کا جھول ہے۔ آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ کون سی چیزہے جس کا فائدہ پاکستان کو نہیں ہو رہا؟ قارئین یہ خبر پٹرولیم مصنوعات میں کمی کے حوالے سے ہے۔ پاکستان میں 147 روپے لیٹر پٹرول کی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں 85 ڈالر فی بیرل کے حساب سے ہے مگر چند دنوں میں قیمت گر کرتقریباً ً73 ڈالر تک آ چکی ہے۔ صرف ایک دن میں تیل کی قیمت میں 10 فیصد کمی ہوئی‘ لیکن پاکستانی عوام کو اس سے ریلیف ملتا دکھائی نہیں دے رہا بلکہ قیمتوں میں اضافے کی خبر دی جارہی ہے۔
ماضی میں کورونا کے باعث پیداہونے والی صورتحال سے پاکستان میں تیل کی قیمتیں کم ہوئیں۔ ڈیلٹا کے بعد ساؤتھ افریقہ میں کورونا کی نئی قسم سامنے آنے سے بین الاقومی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ برطانیہ فلائٹس پر دوبارہ پابندی لگا رہا ہے۔ جرمنی میں حالات مکمل لاک ڈاؤن کی طرف جا رہے ہیں اور آسٹریا میں بھی کورونا کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں تیل کی قیمتوں میں کمی کو ترقی پذیر ممالک کے لیے نعمت سمجھا جا رہا ہے لیکن پاکستان کے حالات مختلف ہیں۔ حکومت پاکستان نے پٹرولیم لیوی میں ہر ماہ چار روپے اضافے کا اعلان کیا ہے۔ اس وقت فی لیٹر پٹرول پر کتنا سیلز ٹیکس چارج کیا جا رہا ہے اور پٹرولیم لیوی کی اصل حقیت جاننے کے لیے سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ پٹرولیم لیوی صفر ہونے کے حوالے سے حکومتی دعویٰ آدھا سچ ہے۔ پٹرول پر لیوی صفر ہے لیکن ڈیزل پر تقریباً 9 روپے چارج کی جارہی ہے۔ لیکن اصل مسئلہ سیلز ٹیکس کا ہے جس پر حکومت بات کرنے کو تیار دکھائی نہیں دیتی اور نہ ہی عوام کے سامنے پورا سچ لایا جا رہا ہے۔ فی لیٹر پٹرول پر تقریبا ً26 روپے سیلز ٹیکس چارج کیا جا رہا ہے اور ڈیزل پر سیلز ٹیکس تقریبا ًایک روپیہ ہے۔ جب عوام کو پٹرولیم لیوی صفر بتائی جاتی ہے تو انہیں سیلز ٹیکس کے بارے میں بھی بتایا جانا چاہیے تا کہ عوام کے سامنے مکمل تصویر آ سکے۔ اس کے علاوہ حکومت نے 4 روپے فی لیٹر پٹرولیم لیوی میں اضافے کا اعلان کیا ہے جس سے پٹرول کی قیمت تقریباً 170 سے 180روپے تک پہنچ سکتی ہے۔ ایسا صرف اسی صورت میں ہو گا کہ دنیا میں تیل کی قیمتیں موجودہ سطح پر برقرار رہیں یا کم ہو جائیں۔ اگر قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے تو پاکستان میں تیل کی قیمت 200 روپے تک پہنچ سکتی ہے اور اگر اس دوران ڈالر کی قیمت پر قابو نہ پایا گیا تو تیل کی قیمت کا 250 روپے فی لیٹر تک پہنچ جانا بھی کوئی حیرت کی بات نہیں ہو گی۔
پاکستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر حفیظ پاشا صاحب کے خدشات درست دکھائی دیتے ہیں۔ گو کہ یہ خبر پاکستانیوں کے لیے اچھی نہیں ہے لیکن عوام کے پاس اسے سننے اور صبر کرنے کے علاوہ دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یہ ایک دن کا قصہ نہیں ہے بلکہ اس کا آغاز مارچ 2021ء سے ہوا جب سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ صاحب نے آئی ایم ایف سے پٹرولیم لیوی پانچ روپے سے بڑھا کر 30 روپے تک لے جانے کا معاہدہ کیا تھا۔ اس حوالے سے جون کے مہینے میں پیش کیے جانے والے بجٹ میں تقریباً 600 ارب روپے کے فنڈز رکھے گئے تھے۔ پاکستان کی سالانہ تیل کھپت تقریباً بیس بلین بیرل ہے۔ اسے 30 روپے سے ضرب دیا جائے تو 600 ارب روپے بنتے ہیں۔ بجٹ میں یہ آمدن ظاہر کرنے کے باوجود لیوی نہیں بڑھائی گئی لیکن شوکت ترین نے بجٹ پیش کرتے وقت اعلان کر دیا تھا کہ عوام کو پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ برداشت کرنا ہو گا۔ حالیہ آئی ایم ایف مذاکرات میں پٹرولیم لیوی بڑھائے بغیر قسط کی بحالی ناممکن قرار دے دی گئی جس کے بعد ماہانہ چار روپے اضافہ کیا جائے گا جو کہ جون کے مہینے میں مکمل ہو گا۔ اگر کورونا کے باعث عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں تیس روپے تک گر جاتی ہیں تب بھی پاکستان میں تیل کی قیمت آج کی قیمت پر برقرار رہے گی کیونکہ بچت کو لیوی میں ایڈجسٹ کر لیا جائے گا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں تیل کی قیمتیں کم کرنے کا مؤثر طریقہ کیا ہے۔ اس حوالے سے اگر یہ کہا جائے کہ ہمیں بین الاقومی ماڈل کو دیکھنا چاہیے تو غلط نہیں ہوگا۔ امریکہ برطانیہ اور دیگر بین الاقومی ممالک میں تیل کی خریدوفروخت میں حکومت شامل نہیں ہوتی۔ یہ نجی شعبے کے سپرد ہے۔ امریکہ میں ہر دو کلو میٹر پر مختلف ریٹس کے ساتھ پٹرول دستیاب ہوتا ہے۔ اپنی پسند‘ ضرورت اور جیب کے مطابق پٹرول پمپ کا انتخاب کر کے تیل ڈلوا لیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں پٹرول کا کاروبار حکومت کرتی ہے جس سے مقابلے کی فضا قائم نہیں ہو پاتی۔ سرکار اور سرکار کے ساتھ جڑی کمپنیاں کتنا منافع کماتی ہیں کوئی حساب کتاب موجود نہیں ہے۔ پٹرولیم کمپنیوں کو موبائل نیٹ ورک کمپنیوں کی طرح چلائے جانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں کسی ایک موبائل کمپنی کی اجارہ داری نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لیے کم ریٹس آفر کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں فی منٹ کال دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک کی نسبت سستی ہے۔ اگر پٹرولیم کمپنیاں اسی فارمولے کے تحت کام کریں توعوام کی بھلائی کی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے ہمیں بھارت سے بھی سیکھنا ہو گا کیونکہ دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح بھارت سرکار نے بھی پٹرولیم کے شعبے کو سرکاری محکمے سے نکال کر بزنس کمیونٹی کے سپرد کر دیا ہے۔
یہ تجاویز عوامی مسائل حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں لیکن سرکار کی دلچسپی فی الحال پٹرول پمپ مالکان کی مدد کرنے میں ہے۔
حکومت کے پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن سے معاملات طے پا گئے ہیں جس کے مطابق پٹرول پر تقریباً 99 پیسے اور ڈیزل پر تقریبا ً83 پیسے منافع بڑھایا گیا ہے۔ اس کا اطلاق یکم دسمبر سے ہو گا ۔ ڈیلرز خوش ہیں‘ حکومت شادیانے بجا رہی ہے لیکن عوام تیل کی قیمت میں دوبارہ اضافے کے باعث پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ سرکار اور پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کی ملی بھگت سے پہلے احتجاج کا منصوبہ بنایا گیا اور بعد میں حالات قابو کرنے کے نام پر منافع بڑھا دیا گیا جس کی ادائیگی عوام کی جیبوں سے کی جائے گی۔ سرکار اگر حقیقی معنوں میں عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے تو منافع کا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈالنے کی بجائے سیلز ٹیکس میں کمی کر کے پورا کیا جا ئے۔ آنے والے دنوں میں سرکار ایسا کرے گی یا نہیں اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن حالاتِ حاضرہ کے پیش نظر اس کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں۔