تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     29-11-2021

خوش رنگ موسم

خوش قسمت ہیں کہ ہمارے ہاں موسموں میں یکسانیت نہیں۔ ہر چند ماہ بعد موسم بدل جاتے ہیں، مگر ہم سے اکثر زندگی کے جھمیلوں میں کھوئے اور مسافروں کی طرح راستوں میں سرگرداں، موجود ماحول سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔ ایسے لوگ تو زندگیاں اندر کے خود ساختہ موسموں کی نذر کر دیتے ہیں۔ ہمارے اکثر علاقوں میں گرمیوں کا دورانیہ ذرا طویل ہے، مگر پوٹھوہار کے خطے میں‘ جہاں اب زیادہ تر ٹھکانہ رہتا ہے، برسات آتے ہی حدت میں کمی آ جاتی ہے‘ اور پھر برسات کا تو اپنا الگ سے ایک رنگ ہے، بلکہ ویرانوں میں قوس قزح کے رنگوں کی بہاریں پھوٹنا شروع ہو جاتی ہیں۔ برسات کے تقریباً تین مہینوں میں درختوں کو پانی اور قدرتی کھادیں وافر مقدار میں مہیا ہو جاتی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے گرمی سے جھلسے درختوں میں تازگی کے اثرات نمودار ہوتے ہیں اور ساتھ ہی نئے شگوفے، کلیاں، پھول اور پتے اپنا رنگ گہرا سبز کر لیتے ہیں۔ بہار اور برسات میں ہی نئے درخت لگائے جاتے ہیں کہ انہی موسموں میں جڑیں گہری ہوتی اور ٹہنیاں بلندیوں کا سفر کرتی ہیں۔ ایک دن پودے لگائیں، شام یا دوسرے دن بارش ہو جائے، تو دل کو تسلی ہو جاتی ہے کہ اب ہمارا کام ختم اور فطرت کا کام شروع۔ جس طرح ہم ہر وقت سانس لے کر زندہ رہتے ہیں اور کھا پی کر توانا رہتے ہیں، درخت بھی زمین کے اندر اور فضا سے دن رات خوراک حاصل کر کے بڑھتے رہتے ہیں۔ بارشی، پہاڑی علاقوں کے قریب برسات میں ایک دفعہ پودا جڑ پکڑ جائے، تو کبھی دوبارہ پانی دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ وہ خود بخودپروان چڑھتا رہتا ہے۔ پھل دار درختوں کی بات اور ہے۔ ان کو کھاد‘ پانی وقت پہ مہیا نہ ہو تو پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ گزشتہ دو عشروں سے ہمارا زور جنگلی اور علاقائی درختوں پہ ہے کہ ان میں جتنا تنوع ہو گا، خزاں اور بہار میں اتنے ہی مختلف رنگ نکھریں گے۔
کسی ملک میں جانے کا جب بھی اتفاق ہوا، وہاں کے پارکوں اور باغوں کی سیر پروگرام کا ضروری حصہ رہی۔ تفریح اپنی جگہ مگر کچھ سلیقہ، اندازِ باغ بانی اور درختوں کے انتخاب کے بارے میں سیکھنے کی غرض سے کئی ملکوں میں گھومنے کا موقع ملا۔ انگریزوں کے ملک میں‘ میں انگریزی باغوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ وہ مجھے سب سے زیادہ پسند آئے۔ صدیوں سے چلے آ رہے، اب وہ ایک ورثہ معلوم ہوتے ہیں۔ صرف لندن میں سینکڑوں چھوٹے بڑے باغ اور پارکس ہیں اور ساٹھ فیصد رقبہ اس شہر کا باغوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس ہم اپنے شہروں کو دیکھیں تو کچھ مایوسی ہوتی ہے۔ لاہور اور اسلام آباد کو کسی حد تک باغوں کا شہر کہہ سکتے ہیں، مگر لاہور کی نئی آبادیوں میں کنکریٹ کے جنگل بسائے جا رہے ہیں۔ کدھر ہیں ہمارے قانون بنانے والے، بھاری بھرکم مراعات کے حق دار، عوام کے ''نمائندے‘‘؟ نئی بستیاں آباد کرنے والے ارب اور کھرب پتیوں کے لیے کیوں کوئی قانون نہیں بن پاتا ہے کہ سب سوسائٹیوں میں آدھا نہیں، تو کم از کم چالیس فیصد رقبہ ہی پارکوں اور باغوں کے لیے مخصوص کر دیا جائے۔ ہو سکتا ہے ہماری اطلاع غلط ہو، مگر سنا ہے کہ ان کی صفوں سے بہت سے لوگ اب تو اسمبلیوں میں پہنچ چکے ہیں۔ جو باہر ہیں، اراکین اور سیاسی جماعتوں کی قدر دانی اور خدمت گزاری کرتے رہتے ہیں۔ سب کا کام تو چلتا رہتا ہے مگر جو ہمارے شہروں کا حال ہو رہا ہے‘ ہم خود بھی دیکھ رہے ہیں اور آنے والی نسلیں بھی اس کا خمیازہ بھگتیں گی۔
اگرچہ مغربی اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں شہری زندگی آسودہ ہے، مگر گزشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی میں اشرافیہ نے شہروں کے وسطی علاقوں سے مضافات کی طرف ہجرت کرنا شروع کر دی تھی۔ امریکہ میں تو نئی بستیاں، چھوٹے چھوٹے قصبے‘ جو ہر لحاظ سے خود کفیل تھے، بننا شروع ہو گئے تھے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، مگر ذاتی سواری کی سہولت، سڑکوں کا جال اور نیم دیہی زندگی کی روحانیت امریکی اشرافیہ کو دیہات کی طرف لے گئی۔ ہمارے ہاں اس دور میں اس کے برعکس ہوتا رہا۔ بڑے بڑے زمینداروں نے بھی لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں ڈیرے ڈال لیے۔ آج بھی لوگ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں دیہی زندگی کو چھوڑ کر چھوٹے بڑے شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ شہری سہولتیں، روزگار کے مواقع‘ سب سے بڑے محرکات ہیں۔ ہماری بات اور ہے کہ شہروں میں رہنا پیشہ ورانہ مجبوری رہی ہے‘ لیکن لاہور اور اسلام آباد میں رہتے ہوئے دل دیہات میں ہی اٹکا رہا۔ رسہ تڑانے کو ہر وقت جی کرتا ہے، مگر ابھی تک دال روٹی کا انحصار درس و تدریس پر رہا ہے۔ شہر ہوں یا دیہات‘ سحر درختوں کے جھنڈ میں اور طلوع آفتاب کی پہلی کرنیں کسی پہاڑی کی چوٹی یا بلند درختوں کے چھاتے سے دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ خوش نصیبی ہی سمجھئے۔ یہ کسی بڑے فلسفے اور دقیق علمی نکتے کی بات نہیں، طرز زندگی کا انتخاب ہے۔ کئی بار میں نے لاہور کے باغِ جناح، جو کبھی لارنس گارڈن کہلاتا تھا، میں لاہوریوں کو صبح کی سیر کرتے دیکھا ہے۔ ٹولیوں میں آتے ہیں۔ سیر کرتے ہیں اور خوش گپیاں بھی جاری رہتی ہیں۔ کچھ کو وزرش کرتے یا جاگنگ کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ یہی مناظر میں نے دہلی کے لودھی گارڈنز میں دیکھا۔ صرف عادت کی بات ہے۔
روزانہ صبح سیر کو نکلیں، آپ پاکستان کے کسی بھی حصے میں ہوں، موسموں کے ساتھ درختوں اور پودوں کے رنگوں کو بدلتا دیکھیں گے، کہیں کم اور کہیں زیادہ‘ خزاں اور بہار کے رنگ ہر جگہ بکھرتے ہیں اور روح میں اتر جاتے ہیں۔ جوں جوں آپ شمال کی طرف سفر کریں تو سردی میں اضافے کے ساتھ خزاں کے رنگوں کے نکھار میں بھی فرق نمایاں نظر آئے گا۔ آج کل کے موسم میں کشمیر میں چناروں کو آگ سی لگی نظر آتی ہے، کہ ایک دم پتے زرد اور گلابی ہو جاتے ہیں۔ گلگت اور بلتستان میں بھلے وقتوں میں لوگ خوبانی کے باغوں کے پتوں کے رنگوں کو دیکھنے کی غرض سے سفر کیا کرتے تھے۔ غالباً اب بھی کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں‘ موسموں اوررنگوں کے شوقین لوگ۔ اسلام آباد اور مارگلہ کی پہاڑیوں میں تو آج کل پت جھڑ کے رنگ دیکھنے کے قابل ہیں۔ چنار، پاپلر، چینی ٹالو درخت جسے سپیم بھی کہتے ہیں، قریب قریب ہوں تو کمال کی رنگینیاں پھیلاتے ہیں۔ ہم نے اپنے چھوٹے سے باغ میں سینکڑوں کی تعداد میں ہر جنس اور نسل کے درخت کئی سالوں سے لگا رکھے ہیں۔ دل وہیں اٹکا رہتا ہے اور روح بھی وہاں وقت گزارنے کے لیے بے چین رہتی ہے۔ کیا کریں‘ نوکری کی ذمہ داری بار بار لاہور گھسیٹ کر لے آتی ہے۔ لاہور بھی تو کمال کا شہر ہے۔ جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ سر سبز اور یہاں سب سے زیادہ باغات والا۔ سموگ اور دھواں‘ دونوں ابھی تک درویش کو صبح اور شام کی سیر سے نہیں روک سکے کہ بند کمروں والے لوگ ہی نہیں۔ کن مسائل میں پڑے ہوئے ہیں، باہر نکلیں‘ کچھ اور نہیں تو صبح طلوع ہوتے سورج اور شام کے شفق کے رنگوں کو ہی دیکھ لیں۔ درخت، پرندے اور کہیں نہ کہیں قریب کا پارک‘ کوئی کھیت، کوئی نہر، کوئی پگڈنڈی آپ کو تازگی بخش دے گی۔ زندگی میں خوش رہنا بھی فن ہے اور جتنا آپ فطرت کے قریب ہوں گے، اتنا ہی اس کی نزاکتوں سے آپ فیض یاب ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved