تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     29-11-2021

فرضی کرنسی اور بھارتی سرکار

بھارتی سرکار کرپٹو کرنسی پر قانون بنانے والی ہے۔ یہ کرپٹو کرنسی کیا ہے؟ اگر ہم ہندی یا اردو میں کہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ فرضی کرنسی‘ متبادل کرنسی‘ خفیہ کرنسی‘ ورچوئل کرنسی‘ جعلی کرنسی! فرضی لفظ مجھے سب سے آسان لگتاہے۔ اسی لیے بٹ کائن‘ ایتھیریم‘ لائٹ کائن‘ زی کیش‘ چین لنک وغیرہ ان چھ ہزار طرح کی کرنسیوں کو ہم فرضی کہیں تو بہتر ہوگا۔ یہ فرضی اس لیے ہے کہ نہ تو یہ کسی چیز کی طرح ہے‘ نوٹوں کی طرح یہ نہ کاغذ سے بنی ہے اور نہ ہی سکوں کی طرح یہ کسی دھات سے بنی ہوئی ہے۔ اس فرضی کرنسی کا سرتاج اگر کوئی ہے تو وہ بٹ کائن ہے۔ اسے 2009ء میں شروع کیا گیا۔ اس کے بانی کا فرضی نام ستوشی ناکا موتو ہے۔ ستوشی ناکاموتو کے مطابق کل دو کروڑ دس لاکھ بٹ کائن تخلیق کئے جا سکیں گے‘ جن میں سے ایک کروڑ 70 لاکھ بٹ کائن مائن کئے جا چکے ہیں۔ اس طرح رفتہ رفتہ بٹ کائن مائن کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ قابل تخلیق بٹ کائن کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔اسی لیے ان کی قیمت میں بھی محیرالعقول اضافہ ہو رہا ہے۔ 2009ء میں جب یہ شروع کیا گیا تو ایک بٹ کائن کی قیمت ایک روپے سے بھی کم تھی اور آج اس کی قیمت 54,534.90 ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ ساری دنیا میں اس وقت جتنے بٹ کائن جاری ہیں ان کی کل قیمت اس وقت تین ٹریلین ڈالر لگائی گئی ہے۔ یہ دراصل ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے جس کا لین دین انٹرنیٹ پر ہی ہوتا ہے۔ بھارت میں بھی لاکھوں لوگ اس میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ اس میں راتوں رات آپ کروڑ پتی بن سکتے ہیں۔ اس بٹ کائن اور دوسری فرضی کرنسیوں کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ خوفناک طوفان کی طرح آتا ہے۔ ایک ہی جھٹکے میں کروڑ پتی کنگال ہو کر رہ جاتا ہے۔ اگر یہ کرنسی زیادہ خریدی جائے تو اس کی قیمت بڑھتی جاتی ہے اور اس کی خرید جیسے ہی کم ہوتی ہے اس کی قیمت پیندے میں بیٹھتی جاتی ہے۔ پچھلے ہفتے مجھے دبئی میں ایک کرپٹو کرنسی کے دھنی نوجوان سے بات کرنے کا موقع ملا۔ اس وقت شاید اس کے پاس اربوں روپے ہیں لیکن اس نے بتایا کہ تین سال پہلے جب وہ پیرس میں رہتا تھا تو اسی فرضی کرنسی کی وجہ سے اس کا حال ایسا ہو گیا تھا کہ نہ تو وہ مکان کا کرایہ بھر پاتا تھا اور نہ ہی اس کے پاس اتنے پیسے رہ گئے تھے کہ وہ من پسند کھانا بھی کھا سکے۔ لیکن اب پھر وہ مالدار ہو گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ فرضی کرنسی کی خرید و فروخت کسی بیماری سے کم نہیں۔ جس جوئے بازی کی وجہ سے کوروئوں‘ پانڈوئوں کی مہابھارت ہوئی تھی‘ یہ ویسا ہی جوئے بازی کا کھیل ہے۔ لوگ اس جوئے بازی کو اسی لیے پیار کرتے ہیں کہ اس میں ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ چوکھا آئے۔ نہ محنت کرنا پڑتی ہے نہ کچھ پیدا کرنا پڑتا ہے‘ بس گھر بیٹھے بیٹھے تجوریاں بھرنی ہوتی ہیں۔ یہ حرام خوری کے علاوہ کیا ہے؟ اس کے علاوہ اس فرضی کرنسی کا فائدہ سمگلر‘ ٹھگ‘ دہشت گرد اور مجرم لوگ جم کر اٹھاتے ہیں۔ بھارت سرکار پارلیمنٹ میں جو بل لا رہی ہے‘ اس میں نجی فرضی کرنسی پر توپابندی کا اہتمام ہے لیکن سرکار خود فرضی کرنسی ریزرو بینک کے ذریعے جاری کروانا چاہتی ہے۔ کہیں وہ زرعی قوانین کے وقت ہوئی غلطی کو دہرانے میں تو نہیں لگی ہوئی ہے؟ اسے چین‘ روس‘ مصر‘ ویتنام‘ الجیریا اور نیپال جیسے ممالک سے پوچھنا چاہئے کہ انہوں نے اس فرضی کرنسی پر مکمل پابندی کیوں لگائی ہے؟ مجھے یقین ہے کہ بھاجپا کے ایم پی بھی اس بل کو آنکھ بند کر کے پاس نہیں ہونے دیں گے۔ اس پر سبھی ایم پیز جم کر بحث چلائیں گے۔
آلودہ دہلی قدرت کے بھروسے
دہلی میں پولوشن کا حال اتنا برا ہو چکا ہے کہ اسے دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر بھی کہا جا سکتا ہے‘حالانکہ یہ خطاب پولوشن ماپنے والے بین الاقوامی ادارے نے لاہور کو دے رکھا ہے۔دہلی کی زہریلی ہوا پر بھارتی سپریم کورٹ کئی بار کافی سخت تبصرے کر چکی ہے لیکن مرکزی سرکار اور دہلی سرکار ابھی تک خراٹے ہی کھینچ رہی ہیں۔ دہلی میں 2‘2سرکاریں ہیں لیکن دہلی کا پولوشن دیگر بڑے شہروں کے مقابلے دو گنا ہے۔سیاسی پولوشن جب دہلی میں بڑھتا ہے تو لوگ اس کی زیادہ پروانہیں کرتے بلکہ لوگ اس کا مزہ لیتے ہیں لیکن یہ آب و ہوا کی آلودگی تو جتنی عوام کے لیے بری ہے اس سے زیادہ سیاسی رہنماؤں کے لیے بری ہے کیونکہ اپنے چاہنے والوں سے ملے جلے بغیر نیتا لوگ رہ نہیں سکتے اور بھیڑ بھڑاکے کے بغیر ان کا کام نہیں چلتا۔سپریم کورٹ کے ججوں نے کہا ہے کہ بھارتی سرکاریں آلودگی سے نمٹنے میں بڑی لاپروائی کر رہی ہیں۔ وہ قدرت کے بھروسے پر بیٹھی رہتی ہیں اسی لیے آلودگی کی سطح دہلی میں سب سے زیادہ ہے۔ دہلی میں ان دنوں پولوشن کا انڈکس 500اور اس سے بھی اوپر دوڑ رہا ہے جبکہ اگلے روز بھارتی سپریم کورٹ میں سرکاری وکیل دہائی دے رہے تھے کہ دہلی میں پولیوشن گھٹ رہا ہے کیونکہ تیز ہوا کی وجہ سے کچھ گھنٹوں کے لیے اڑھائی سو کے آس پاس پہنچ گیا تھا۔ عدالت نے پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ بھارتی سرکار نے آلودگی پھیلانے والوں پر جرمانہ کیوں نہیں تھوپا؟ یہ سمجھا جاتا تھا کہ پرالی کی وجہ سے پولوشن تقریباً 30 فیصد ہو جاتا ہے مگر کچھ سرکاری ذرائع کہتے رہتے ہیں کہ پرالی کی وجہ سے وہ صرف دوفیصد ہوتا ہے۔ انڈین سپریم کورٹ نے بھی کہا تھا کہ ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں کی جانب سے بار بار پرالی جلانے کا معاملہ اٹھایا جاتا ہے اور دہلی میں فضائی آلودگی خطرناک صورت تک بڑھنے کا شور مچا یا جاتا ہے لیکن مختلف رپورٹس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ آلودگی کی سب سے بڑی وجہ پرالی جلانا نہیں بلکہ سڑکوں پر چلنے والی گاڑیاں‘ تعمیرات سے اٹھنے والا گردو غبار اور پاور جنریشن پلانٹس کی وجہ سے پیدا ہونے والا دھواں ہے جس سے 74 فیصد آلودگی پھیلتی ہے۔ان مسائل سے نمٹنے کے علاوہ دہلی میں باہر سے آنے والے ٹرکوں پر اس سال پابندی کیوں نہیں لگائی گئی؟کاروں کے نمبروں کی بنیاد پر ان کی آ مدورفت اور دوسری ٹرانسپورٹ کو کیوں نہیں روکا گیا؟عام آدمی ماسک تو باندھے رہ سکتا ہے لیکن اس کے گھروں میں پولوشن کنٹرول سسٹم وہ کہاں سے لا کر رکھ سکتا ہے؟نوٹ بندی اور تالا بندی نے اس کا حال اتنا خستہ کر دیا ہے کہ اسے پیٹ بھر روٹی بھی نصیب نہیں ہے تو وہ آلودہ ہوا سے خود کو کیسے بچا سکتا ہے؟عدالت نے تو یہ بھی کہا ہے کہ دہلی پر کچھ دنوں کے لیے دوبارہ لاک ڈاؤن کیوں نہیں تھوپا گیا؟سرکار کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل صفائی نے عدالت کے سامنے کئی اعدادوشمار پیش کر کے یہ بتانے کی کوشش کی کہ سرکار نے پرانی اور دھواں چھوڑنے گاڑیوں‘ زہریلے ایندھن سے چلنے والی انڈسٹریوں اور اندھا دھند آلودگی پیدا کرنے والے کاموں پر کئی طرح کے جرمانے لگانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔ اس نے کروڑوں روپے کا جرمانہ ٹھوکا ہے۔ بھارت کے مقابلے یورپ اور امریکہ کے شہروں میں گاڑیاں زیادہ چلتی ہیں۔ وہاں کارخانے بھی بہت زیادہ ہیں پھر بھی ان کا پولوشن لیول 50 اور 100 کے درمیان ہی رہتا ہے۔ اگر بھارت کی سرکاریں بھی پولوشن کے مستقل حل کی کوشش کریں تو یہاں کی صورتحال ان سے بھی بہتر ہو سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved