تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     28-07-2013

حکمران‘ بالک ہٹ اور پھر وہی جنوبی پنجاب

حکمران بدل گئے مگر طرز حکمرانی نہ بدلا۔ حکمرانوں اور عدلیہ کے بیچ آج بھی ٹھنی پڑی ہے۔ حکمران اپنی مرضی کے وزیر، مشیر، گورنر اور افسر تعینات کرنے میں نہ صرف مصروف ہیں بلکہ اسے اپنا آئینی حق سمجھتے ہیں۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اپنے غیرقانونی اور غیر اخلاقی اقدامات پر اینڈتے پھر رہے ہیں۔ قانون کی حکمرانی کو چیلنج کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں یہاں اسلام آباد میں ہوں‘ جس نے گرفتار کرنا ہے کرلے۔ میں نے جو کچھ کیا مجھے وہ کرنے کا آئینی اختیار تھا۔ میرے آئینی اقدامات کو آئینی تحفظ حاصل ہے جس میں جرأت ہے مجھے پکڑ لے۔ سید یوسف رضا گیلانی اندر خانے دوران وزارت عظمیٰ بھی شریف برادران کے ساتھ ’’سیٹ‘‘ تھے اور اب بھی معاملات نہایت خوشگوار سے بھی کچھ بڑھ کر ہیں۔ نہایت باوثوق ذرائع کی اطلاع ہے کہ گیلانی شہباز شریف ملاقاتیں اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں۔ شنید ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی میاں شہباز شریف سے کم از کم دو ملاقاتیں ہوچکی ہیں اور انہی ملاقاتوں کا فیض تھا کہ سید یوسف رضا گیلانی نے صدر آصف علی زرداری کو ان کے خصوصی دورہ ملتان کے دوران اپنے گھر آمد کے موقع پر پارٹی میں دوبارہ فعال ہونے اور اپنا استعفیٰ واپس لینے جیسے معاملات پر کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں دیا تھا۔ ملتان میں گزشتہ ماہ ہونے والی گیلانی زرداری ملاقات نتائج کے حوالے سے زیرو بٹا زیرو تھی۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ نہایت احمقانہ طریقے سے مال بنانے کے عمل نے پورے گیلانی خاندان کو مشکل میں ڈال رکھا ہے اور محض پانچ سال میں دیوالیہ سے ارب پتی بننے کے تیز رفتار ترقیاتی پیکیج نے ہر چیز نمایاں کرکے رکھ دی ہے۔ طرز زندگی میں حیران کن تبدیلی، بچوں کے تعیشات، گراں قیمت گاڑیوں کی ریل پیل، قیمتی پراپرٹی اور موج میلا۔ وہ ان تمام معاملات پر بڑی آسانی سے قابو میں آسکتے ہیں لہٰذا موجودہ حکمرانوں سے امان ملنا بہت ضروری ہے۔ گیلانی صاحب نے اپنے اقتدار کے دوران باہمی بھائی چارے کا اصول اپنا رکھا تھا اوراب وہ یہی کچھ اپنے لیے طلب کرنے کا ’’اخلاقی حق‘‘ رکھتے ہیں۔ اسی باوثوق ذریعے کا کہنا ہے کہ میاں شہباز شریف نے گیلانی صاحب کو ہاتھ ہلکا رکھنے کا عندیہ بھی دیا ہے اور اس کے لیے زبانی کلامی احکامات بھی صادر فرمائے ہیں۔ تمام اطلاعات پہنچانے کے بعد اس باوثوق ذریعے نے نہایت رازداری کے ساتھ مجھ سے سوال کیا کہ آخر میاں صاحب اس گناہ بے لذت کے لیے کیونکر آمادہ ہوگئے۔ سیاسی طور پر بوجھ اور معاملات کے حوالے سے ’’بدنامی کی پنڈ‘‘ پر وہ کس طرح راضی ہوگئے؟ کروڑ روپے کے اس سوال کا جواب کم از کم میرے پاس تو ہرگز نہیں تھا۔ بات کہیں کی کہیں چلی گئی۔ معاملہ حکمرانوں کی من مانیوں کا تھا۔ ایک طرف حکمران ہیں جو اپنے پیاروں، رشتہ داروں، عزیزوں، مشکل وقت کے ساتھیوں اور مفادات کا خیال رکھنے والوں کو عوام کے ٹیکسوں کی رقم پر اکاموڈیٹ کرنے پر کمربستہ ہیں اور دوسری طرف عدلیہ ہے جسے ایسی تعیناتیوں پر کبھی سوموٹو لینا پڑتا ہے اور کبھی کسی درخواست گزار کی دادرسی کرنی پڑتی ہے۔ دونوں نہایت دلجمعی سے اپنا اپنا کام کررہے ہیں۔ سابق حکمرانوں نے جو کچھ کیا اور ان کی جتنی جگ ہنسائی ہوئی وہ سب کے سامنے ہے مگر نہ انہوں نے یہ کام چھوڑا تھا اور نہ ہی موجودہ حکمرانوں نے اس سے کوئی سبق حاصل کیا ہے۔ صدر صاحب نے ذاتی دوستوں اور جیل میں سہولتیں فراہم کرنے والوں کو جس طرح عیش کروائی اس کی پوری دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ ڈاکٹر قیوم سومرو اور ڈاکٹر عاصم اس کی دو معمولی مثالیں ہیں۔ میڈیکل ڈاکٹر کے حوالے پاکستان کی پوری پٹرولیم اور گیس انڈسٹری کردی گئی اور جیل کے ڈاکٹر کے حوالے پوری قوم کردی۔ سید یوسف رضا گیلانی نے تو حد ہی کردی۔ جعلی ڈگری والے کو پوری انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مدارالمہام بنا دیا، بے ایمانوں کے اماموں کو حج کے معاملات پکڑا دیے اور میٹرک پاس شخص کو جیل کا ساتھی ہونے کی بنا پر آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن کا چیئرمین لگا دیا۔ اوگرا توقیر صادق کو پکڑا دی۔ اس طویل فہرست میں زین سکھیرا سے ڈاکٹر ناصر بخاری تک درجنوں عزیز اور رشتے داروں کے نام آتے ہیں۔ پھر جناب راجہ پرویز اشرف آگئے۔ ان کی ساری مہربانیوں کا رخ اپنے اور اپنے داماد کے خاندان کی جانب تھا۔ انہوں نے گریڈ سترہ کے داماد راجہ عظیم الحق کی ورلڈ بنک میں نہ صرف بطور متبادل ایگزیکٹو ڈائریکٹر تعیناتی کروائی بلکہ دھڑا دھڑ ترقیاں دلوا کر گریڈ انیس میں پہنچا دیا۔ اپریل میں ہونے والی یہ تعیناتی آٹھ جون کو منطقی انجام کو پہنچی جب راجہ عظیم الحق نے استعفیٰ دے دیا جو اخلاقی یا قانونی دبائو پر نہیں بلکہ نئی حکومت کے آنے پر دیا گیا۔ موصوف کی تنخواہ، الائونسز اور سہولیات دو لاکھ بیس ہزار ڈالر سالانہ یعنی تقریباً دو کروڑ بیس لاکھ روپے پاکستانی تھی۔ موجودہ حکمرانوں نے بھی وہی طرز عمل اختیار کیا ہے‘ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے والے حکمران اپنے جیل کے ساتھیوں کو عوام کے پیسوں پر موج میلا کرواتے تھے جبکہ موجودہ حکمران عوام کے پیسے پر اپنے جلا وطنی کے دور کے مہربانوں کو خوش کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل نے وزیراعظم میاں نوازشریف کے ہوابازی کے مشیر شجاعت عظیم کے استعفے کی یقین دہانی کروا کر جس طرح اپنی جان چھڑوائی وہ حکمرانوں کی اخلاقی پسپائی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ جناب وزیراعظم نے اپنی دس سالہ جلا وطنی کے معاہدے کے ایک ضامن اور محرک سعد الحریری جو سعودی حکمرانوں کے قریبی عزیز بھی ہیں کے پائلٹ شجاعت عظیم کو ہوا بازی کا مشیر بنانے سے پہلے سول ایوی ایشن اتھارٹی، ائیرپورٹ سکیورٹی فورس اور محکمہ موسمیات کو وزارت دفاع سے نکال کر ایک علیحدہ ڈویژن بنایا اور اسے ان کے حوالے کردیا۔ جناب سعد الحریری بیروت میں ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والے سابق لبنانی وزیراعظم رفیق الحریری کے صاحبزادے ہیں۔ شجاعت عظیم مسلم لیگ ن کے رہنما طارق عظیم کے بھائی ہیں۔ موصوف نہ صرف یہ کہ پاکستان ائیرفورس سے کورٹ مارشل ہو کر فارغ ہوئے تھے بلکہ دہری شہریت کے حامل بھی ہیں۔ یہ ایک طے شدہ اخلاقی ضابطہ ہے کہ جس شخص کے مالی مفادات کسی ادارے سے براہ راست وابستہ ہوں اسے اس ادارے کا نگران تو کجا انتظامی شراکت دار بھی نہیں بننا چاہیے مگر موصوف اسلام آباد ائیر پورٹ پر لینڈنگ کنٹریکٹر کمپنی کے حصہ دار بھی تھے اور اس نئے ڈویژن کے زیرانتظام اداروں سے مالی طور پر مستفید ہونے والے بھی تھے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ’’مشیری‘‘ کے دوران ایئر لائن کے حالات سرکاری اخراجات پر درست کرنے آئے تھے تاکہ بعدازاں جب اس ادارے کی مالی‘ انتظامی اورآپریشنل مشکلات حل ہوجائیں تو اسے پرائیویٹائز کیا جاسکے بلکہ زیادہ الفاظ میں اسے’’خریدا‘‘ جا سکے۔ ایک اور اسی طرح کا معاملہ میرے دوست چودھری محمد سرور کا ہے جو برطانیہ میں جلا وطنی کے دنوں میں میاں صاحبان کے مہربانوں میں سے تھے۔ ان سے اس سے زیادہ مناسب طریقے سے بہتر کام لیا جا سکتا تھا اور گورنر پنجاب کے لیے جنوبی پنجاب سے کسی مناسب شخص کا انتخاب کیا جاسکتا تھا مگر حکمرانوں کا معاملہ بھی ’’بالک ہٹ‘‘جیسا ہے جب کچھ سوچ لیں تو عقل کے دروازے بند کر لیتے ہیں۔ ویسے بھی جنوبی پنجاب سے میاں صاحبان باقاعدہ ’’مار‘‘ کھاتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved