تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     29-11-2021

اللہ تبارک وتعالیٰ کی حکمت

انسان جب اپنے گردوپیش پر نظر ڈالتا ہے تو لوگوں کو مختلف کیفیات سے گزرتا ہوا دیکھتا ہے۔ کہیں پر خوشیاں نظر آتی ہیں تو کہیں پر غم۔ کچھ وقت بیت جانے کے بعد کئی مرتبہ دکھی لوگ سکھ میں نظر آتے ہیں اور سکھی لوگ دکھوں اور مصائب کا شکار نظر آتے ہیں۔ ہر آن اور ہر لحظہ بدلتے ہوئے حالات دیکھ کر انسان کے ذہن میں ـمختلف طرح کے سوالات اُبھرتے ہیں۔ جب ہم قرآنِ حکیم کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ گردشِ ایام کو چلانے والی فقط اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر140 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''ہم ان دنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں‘‘۔ انسان کے حالات میں تغیر اور تبدیلی پیدا کرنا اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ جب چاہیں شاہوں کو گدا اور بے نواؤں کو شاہ کر دیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آلِ عمران ہی کی آیت نمبر26 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہانوں کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے‘ جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے‘‘۔اسی طرح سورہ انعام کی آیات 17 تا 18 میں ارشاد ہوا: ''اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والا سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی نفع پہنچائے تو وہ ہرچیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔اور وہی اللہ اپنے بندوں کے اوپر غالب ہے‘ برتر ہے اور وہی بڑی حکمت والا اور پوری خبر رکھنے والا ہے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ جہاں اپنے بندوں پرغالب اور ان کے معاملات پر پوری گرفت رکھنے والے ہیں وہیں دنیا پر رونما ہونے والی ہر تبدیلی کے پس منظر میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی کوئی نہ کوئی حکمت ضرور کار فرما ہوتی ہے۔
کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد مختلف واقعات کے پس منظر میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت سی حکمتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ اس حوالے سے سورہ کہف میں مذکور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ انتہائی مفید ہے ۔ اس واقعے کے مطالعے کے بعد دنیا میں رونما ہونے والی بہت سی انفرادی اور اجتماعی تبدیلیوں کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی حکمت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ سورہ کہف کی آیات 65 تا 82 میں اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعے کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''پس (موسیٰ نے وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا، جسے ہم نے اپنے پاس کی خاص رحمت عطا فرما رکھی تھی اور اسے اپنے پاس سے خاص علم سکھا رکھا تھا۔اس سے موسیٰ نے کہا کہ میں آپ کی فرمانبرداری کروں کہ آپ مجھے یہ نیک علم سکھا دیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے۔اس (خضر) نے کہا: آپ میرے ساتھ ہرگز صبر نہیں کر سکتے۔اور جس چیز کو آپ نے اپنے علم میں نہ لیا ہو‘ اس پر صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں؟موسیٰ نے جواب دیا کہ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے، اور کسی بات میں مَیں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا۔اس نے کہا: اچھا! اگر آپ میرے ساتھ ہی چلنے پر اصرار کرتے ہیں تو یاد رہے کسی چیز کی نسبت مجھ سے کچھ نہ پوچھنا جب تک کہ میں خود اس کی نسبت کوئی تذکرہ نہ کروں۔پھروہ دونوں چلے، یہاں تک کہ ایک کشتی میں سوار ہوئے تو انہوں(خضر) نے اس کے تختے توڑ دیے، موسیٰ نے کہا: کیا آپ اسے توڑ رہے ہیں تا کہ کشتی والوں کو ڈبو دیں؟ یہ تو آپ نے بڑی (خطرناک) بات کر دی۔انہوں نے جواب دیا: میں نے تو پہلے ہی تجھ سے کہہ دیا تھا کہ تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کر سکے گا۔موسیٰ نے جواب دیا کہ میری بھول پر مجھے نہ پکڑیئے اور مجھے اپنے کام میں تنگی میں نہ ڈالیے۔پھر دونوں چلے، یہاں تک کہ ایک لڑکے کو پایا تو انہوں (خضر) نے اُسے مار ڈالا، موسیٰ نے کہا کہ کیا آپ نے ایک پاک جان کو بغیر کسی جان کے عوض (قصاص میں) مار ڈالا؟ بیشک آپ نے تو بڑی ناپسندیدہ حرکت کی ۔وہ کہنے لگے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر ہرگز صبر نہیں کر سکتے۔موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا: اگر اب اس کے بعد میں آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کروں تو بیشک آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا، یقینا آپ میری طرف سے (حدِ) عذر کو پہنچ چکے۔پھر دونوں چلے، ایک گاؤں والوں کے پاس آکر ان سے کھانا طلب کیا تو انہوں نے ان کی مہمانداری سے صاف انکار کر دیا، دونوں نے وہاں ایک دیوار پائی جو گرا ہی چاہتی تھی، تو انہوں نے اسے ٹھیک اور درست کر دیا، موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے: اگر آپ چاہتے تو اس پر اُجرت لے لیتے (جس سے کھانے کا کام چلتا)۔انہوں(خضر) نے کہا: بس یہ جدائی ہے میرے اور تیرے درمیان، اب میں تجھے ان باتوں کی اصلیت بتا دتیا ہوں جن پر تجھ سے صبر نہ ہو سکا۔وہ کشتی چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں کام کاج کرتے تھے۔ میں نے اس میں کچھ توڑ پھوڑ کرنے کا ارادہ کر لیا کیونکہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک (صحیح سالم) کشتی کو جبراً ضبط کر لیتا تھا۔اور اس لڑکے کے ماں باپ ایمان والے تھے، ہمیں خوف ہوا کہ کہیں یہ انہیں اپنی سرکشی اور کفر سے عاجز و پریشان نہ کر دے اس لئے ہم نے چاہا کہ انہیں ان کا پروردگار اس کے بدلے اس سے بہتر پاکیزگی والا اور اس سے زیادہ محبت اور پیار والا بچہ عنایت فرمائے۔دیوار کا قصہ یہ ہے کہ شہر میں دو یتیم بچے ہیں جن کا خزانہ اس دیوار کے نیچے دفن ہے، ان کا باپ بڑا نیک شخص تھا تو تیرے رب کی چاہت تھی کہ یہ دونوں یتیم بچے اپنی جوانی کی عمر میں آکر اپنا یہ خزانہ تیرے رب کی مہربانی اور رحمت سے نکال لیں، میں نے اپنی رائے سے کوئی کام نہیں کیا، یہ تھی اصل حقیقت ان واقعات کی جن پر آپ سے صبر نہ ہو سکا‘‘۔
قرآنِ مجید ہی میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو زندگی میں بہت سی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ کے بھائیوں نے آپ کو ایک اندھے کنویں میں اُتار دیا‘ اس کے بعد آپ کو غلام بنا لیا گیا اور مصر میں لے جا کر فروخت کر دیا گیا، جہاں پر آپؑ کو جوانی میںبڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا اور آپ جیل خانے میں کئی برس تک قید رہے لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے تقویٰ،للہیت اور نیکی کی وجہ سے آپؑ کے حالات کو بدل دیا اور آپؑ کو پہلے وزیر خزانہ اور بعد ازاں تختِ مصر کا وارث بنا دیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کئی مرتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ مختلف اقوام کو ان کے گناہوں کے باوجود مہلت دیتے ہیں اور اس مہلت کی وجہ سے وہ اقوام اس بات کا گمان کر لیتی ہیں کہ شاید ان کے برے اعمال پر کوئی گرفت کرنے والا نہیں لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ اس مہلت کے بعد ان پر اپنی گرفت کو مسلط کرتے ہیں؛ چنانچہ قومِ نوح سیلاب کا نشانہ بنی، قوم ثمود اور قوم مدین کو چنگھاڑ کا نشانہ بننا پڑا، قوم عاد پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے آندھیوں کو مسلط کیا اور قوم لوط پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے آسمان سے پتھروں کی بارش کی۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ بہت سے نیکو کاروں کو بھی زندگی میں تلخیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہ تلخیاں درحقیقت ان کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں اور ان کے درجات کی بلندی کا سبب بن جاتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیات 155 تا 156 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے جن پر جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں‘‘۔ کلامِ اللہ کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ کئی مرتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ بندۂ مومن کے رزق میں کشادگی پیدا نہیں کرتا تاکہ وہ زمین پر بغاوت پر آمادہ نہ ہو جائے۔
قرآن مجید میں بیان کردہ حقائق کے مطالعے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا میں اتار، چڑھاؤ، نشیب وفراز کی تما م اقسام درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ہیں؛ چنانچہ انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ ہر آن اور ہر لحظہ اپنے رجوع کو برقرار رکھنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حوالے سے سورہ زمر کی آیات 53 تا 55 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ‘ بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے واقعی وہ بڑی بخشش‘ بڑی رحمت والا ہے۔تم (سب) اپنے پروردگار کی طرف جھک پڑو اور اس کی حکم برداری کیے جاؤ اس سے قبل کہ تمہارے پاس عذاب آجائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جائے۔اور پیروی کرو اس بہترین چیز کی جو تمہاری طرف تمہارے پروردگارکی طرف سے نازل کی گئی ہے‘ اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمہیں اطلاع بھی نہ ہو‘‘۔ آیاتِ مذکورہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمیں ہر لمحہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے اپنے تعلق اور رجوع کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے گناہوں پر آنسو بہاتے ہوئے اپنی اصلاح کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اپنی طاقت، قدرت اور حکمت کو سمجھتے ہوئے زندگی کے نشیب وفراز کے دوران اپنی بارگاہ میں جھکنے والے لوگوں میں شامل فرمائے ، آمین !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved