تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     29-11-2021

سیاہ وہم‘ ایک منافق فہم

گزشتہ کالم میں سیاہ رنگ کا تفصیل سے ذکر کیا گیا تھا، اس کا سب سے خاص حوالہ آج کل کی آلودہ ہوا اور فضا ہے۔ دھویں کا رنگ ہو، ذہنوں پر چھائی اداسی ہو یا پھر چہروں سے ٹکرانے والی گرد‘ سب کا رنگ سیاہ ہے۔ انسانی تاریخ میں سب سے پہلا علم و تحقیق کا گہوارہ یونان اور اس کے ساتھ قدیم رومن ایمپائر کو مانا جاتا ہے۔ 400 عیسوی میں رومنز کے زوال کے بعد علم کا سفر بھی رک گیا۔ اس دور کو تاریخ دان ''ڈارک ایج‘‘ یعنی سیاہ دورکا نام دیتے ہیں۔ اس سیاہ دور کا خاتمہ اسلام کے ظہور کے بعد ہونا شروع ہوا۔ اس سیاہی کے خاتمے کا ایک پہلو اسلام کی صورت میں ہدایت کامل تھی جس نے انسانیت کو معراج بخشی جبکہ ایک دوسرا پہلو عراق کی سر زمین میں قائم ہونے والا بیت الحکمت نامی شہر ہے۔ اس شہر میں اہلِ یونان کے شروع کردہ دنیاوی علوم و تحقیقات کا نہ صرف دوبارہ اجرا کیا گیا بلکہ اس کو عروج کی نئی بلندیوں کی طرف بھی لے جایا گیا۔ مسلمان سائنس دانوں نے پانچ سے زیادہ صدیوں تک جدید سائنس کی تحقیق پر کتابیں بھی لکھیں ؛ البتہ یورپ کے دوبارہ اٹھنے کے بعد مسلمان نہ صرف اس علم کی شاہراہ پر سفر جاری نہ رکھ سکے بلکہ اس رستے کو ہی متروک کر بیٹھے۔ اس کے بعد وقت گزرتا رہا اور مسلمان مسلسل پسماندگی یعنی تاریکی اور سیاہ دور کا شکار رہے۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر سرد جنگ شروع ہوئی تو مسلمان ممالک امریکی بلاک میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے نہ صرف سوویت یونین کی مخالفت کی بلکہ کمیونزم کی بحیثیت ایک سیاسی و معاشی نظام بھی مخالفت شروع کر دی۔
سوویت یونین کی مخالفت اس حد تک تو ٹھیک تھی کہ اس نے کئی ممالک پر حملہ کیا تھا اور اس سلسلے میں 1979ء میں روس نے افغانستان پر اس وقت کے کمیونسٹ حکمران کی دعوت پر حملہ کیا تھا مگر کمیونزم کی مخالفت میں بھی مسلم ممالک پیش پیش تھے۔ پاکستان کی تمام جماعتوں نے اشتراکیت کی مخالفت تحریک کی شکل میں جاری رکھی۔ اس عمل میں سیاسی جماعتوں کی ایک بڑی لاٹری نکل آئی۔ اس لاٹری کی ایک شکل ان جماعتوں کے طلبہ ونگز تھے جنہوں نے بزورِ طاقت کالجوں اور یونیورسٹیوں پر عملاً قبضہ کر لیا تھا۔ طلبہ یونینز کے الیکشنز میں بھی یہی تنظیمیں غالب آتی رہیں۔ ان تنظیموں کی متشدد سیاست کی وجہ سے آج تک‘ جمہوری دور ہونے کے باوجود‘ طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سمیت مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آج بھی طلبہ تنظیمیں عملاً اپنا وجود بلکہ کسی حد تک اپنا اثر و رسوخ بھی رکھتی ہیں، یہ لوگ اپنے نام کے ساتھ تنظیمی عہدہ بھی ضرور ظاہر کرتے ہیں، لیکن فارغ التحصیل ہوتے اور کوئی نوکری حاصل کرتے ہی یہ افراد سب سے پہلے کھرچ کھرچ کر اپنے تعلیمی ریکارڈ اور سی وی سے اپنی تنظیموں کا ذکر غائب کرتے ہیں۔
سوویت مخالفت میں لاٹری کی دوسری شکل مغرب اور مشرق وسطیٰ سے آنے والی بھاری بھرکم مالی امداد یا تعاون تھی۔ اس کے متعلق ایک اصطلاح بہت مشہور ہے پیٹرو ڈالر‘ ڈالر سکالر۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تیل فروخت کر کے جو ڈالر ملتے تھے ان ڈالروں سے اشتراکیت کی مخالفت کرنے والے شعلہ بیاں سکالرز تیار کیے جاتے تھے۔ اب یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ بحیثیت نظام‘ اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام میں سے کس نظام کے نظریات اسلام کے قریب ہیں تو اس ضمن میں علامہ اقبال کے مدلل خیالات کے بعد تو کوئی گنجائش ہی نہیں بچتی، لہٰذا علامہ کے خیالات سے ایک فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ علامہ اقبال کمیونزم کے بانی کے بہت بڑے مداح تھے، دوسری طرف وہ مغربی جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کے بہت بڑے ناقد بھی تھے۔ بات صرف معیشت اور سیاست ہی کی نہیں تھی وہ مغربی تہذیب کے بھی بہت بڑے مخالف تھے۔ علامہ نے کارل مارکس کی تعریف میں ایک ایسا شعر کہا جو بہت زیادہ مشہور ہوا۔
کارل مارکس نے اپنی کتاب داس کیپیٹل سے بہت بڑا (معاشی) شعور اور پیغام مزدوروں اور محنت کشوں تک پہنچایا۔ ایک دفعہ علامہ سے پوچھا گیا کہ اشتراکیت اور کیپیٹل ازم میں سے اسلام کے ساتھ قربت کس کی ہے تو علامہ نے فرمایا کہ اشتراکیت میں کوئی نئی بات نہیں ہے، مطلب یہ نظام جس معاشی برابری کا درس دیتا ہے وہ درس بنیادی طور پر اسلام کا دیا ہوا ہے۔ اسی تناظر میں علامہ نے مزید کہا کہ سوشل ازم میں اگر خدا کا تصور ڈال دیا جائے تو یہ اسلام کا معاشی نظام ہی ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ اشتراکیت کا بانی مذہب کے سیاسی استعمال کی وجہ سے اس کا سخت مخالف تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ کارل مارکس نے مذہب کی ایک سماجی ادارہ کے طور پر جتنی بھی مخالفت کی‘ اس کی بنیادی وجہ عیسائیت میں اس وقت کے پادریوں کا کردار تھا۔ انہوں نے مذہب کے نام پر اپنی سیاسی، معاشی و سماجی اجارہ داری قائم کر رکھی تھی۔ اسی لیے روس میں انقلاب کے بعد تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو بند کر دیا گیا تھا لیکن ہمیں یہاں صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ وہاں مساجد بند کر دی گئی تھیں۔
بات ہو رہی تھی اشتراکیت کی مخالفت کی‘ روس کے افغانستان پر حملے سے پہلے ہی مولانا مودودی اشتراکیت کی شدت سے مخالفت کرتے تھے جبکہ دوسری طرف وہ علامہ اقبال کے بہت بڑے مداح بھی تھے۔ اس دور میں ایک جماعت کا طلبہ ونگ ایک پمفلٹ بہت زیادہ تقسیم کیا کرتا تھا جسے ایک کیلنڈر کی شکل میں یونیورسٹیوں میں بھی لگایاجاتا تھا، اس پر مولانا کا یہ جملہ لکھا ہوتا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب اشتراکیت کو ماسکو کی گلیوں میں بھی جگہ نہیں ملے گی۔ بعد میں سوویت یونین ٹوٹ گیا اور کمیونزم ایک سپر پاور کی مدد ختم ہو جانے سے زوال پذیر ہو گیا۔ ایک‘ ڈیڑھ دہائی کا عرصہ ہی گزرا ہو گا کہ ایک اور ''قدرے نرم‘‘ کمیونزم والا ملک چین ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرنا شروع ہو گیا اور اب تازہ ترین معلومات کے مطابق امریکا پر سبقت حاصل کرتے ہوئے وہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے۔ واضح رہے کہ عسکری طور پر چین کو پہلے ہی امریکا پر برتری حاصل ہے۔ رواں سال جب چین کی واحد سیاسی جماعت نے اپنی سو سالہ تقریبات کا انعقاد کیا تو دنیا بھر سے سینکڑوں سیاسی جماعتوں کے قائدین نے وڈیو لنک سے اس میں خطاب کیا۔ ان میں پاکستان کی دو مذہبی منشور والی جماعتوں کے سربراہان‘ مولانا فضل الرحمن اور سرج الحق صاحب نے بھی خطاب کیا۔ اس خطاب میں دونوں نے بھرپور طریقے سے چین کی ترقی اور اس کے کردار کو خوب سراہا۔ مولانا فضل الرحمن نے تو بھرپور طریقے سے سی پیک منصوبے کے ساتھ اپنی ذاتی وابستگی کا اظہار کیا حالانکہ ان کی جماعت سرد جنگ کے دوران اشتراکیت کے خلاف مہم میں ایک لیڈنگ جماعت تھی۔
بعض اوقات کچھ لوگوں کو ایک ایسا 'فہم‘ لاحق ہو جاتا ہے یا لاحق کر دیا جاتاہے جو اصل میں وہم ہوتا ہے۔ یہاں وہم سے مراد فہم کا غلط ہونا ہے اور اگر آپ جان بوجھ کر ایسا فہم اپنا لیں جوسراسر غلط ہو تو اس کو حقیقت کی نفی کرنا کہا جائے گا جس کو سادہ لفظوں میں جان بوجھ کر حقیقت جھٹلانا یعنی منافقت کہا جاتا ہے۔ اب آج کی جاری بحث سیاہ رنگ یا سوچ کا تو حاصل کلامِ یہ ہے کہ سب سے تاریک بات یہ ہے کہ آپ کا فہم محض ایک وہم ہو بالخصوص جب آپ کسی عقیدے یا تقدس کے لبادے میں ایسا وہم‘ فہم بنا کر پھیلا رہے ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved