روایت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام بیٹے کے قتل پر اس قدر رنجور تھے کہ پوری ایک صدی ان کو کسی نے ہنستے ہوئے نہ دیکھا۔ رنج سے بھرے تو سریانی زبان میں ہابیل کا مرثیہ لکھا۔ اس زبان کے دو لہجے تھے؛ ایک عراق اور ایک شام میں بولا جاتا تھا۔ رسول کریمﷺ نے مصر کے بادشاہ کو جو خط ارسال کیا تھا‘ وہ اسی زبان میں تھا۔ یہ ایک ہزار سال سے بین الاقوامی تجارت کی زبان تھی۔ سیدنا آدم علیہ السلام نے جو مرثیہ کہا‘ اس کا ایک شعر ہے :
زمین گرد آلود ہو گئی ہے، سرخ رنگت سفید ہو گئی ہے
اب کتنی تبدیلی آ گئی ہے! اپنے ہاں روزانہ کتنے بے گناہ قتل ہوتے ہیں‘ نہ حساب نہ کتاب۔ اپنے شہر میں دن دہاڑے فائرنگ ہوتی ہے۔ عدالت کے اندر‘ عدالت کے باہر، عروس البلاد میں سولہ ہزار لوگ مارے گئے، ان کا گناہ یہی تھا کہ وہ سمندر کنارے آباد شہر میں رہتے تھے۔ ان کو بھی سلام کرنے والے موجود تھے اور ناول لکھتے تھے کہ آگے سمندر ہے۔ بے گناہ مارے جاتے ہیں اور گناہ گاروں کے بارے میں فیصلہ ہی نہیں ہوتا۔ سچ کہا ہمارے باپ نے‘ زمین کا چہرہ گرد و غبار میں اَٹ گیا چہرے کی سفیدی ختم ہو گئی۔ ابھی سلسلہ جاری ہے سادھوکی ہمیشہ کے لیے لال نشان بن چکا، نئی لیڈرشپ ابھر چکی، حکومت الٹے قدموں پیچھے ہٹ چکی۔ زمین اپنے بے گناہ بیٹوں کے خون سے گل رنگ ہو چکی۔ حکومت کو کیا پڑی کہ دماغ سے سوچے یا دل سے فیصلہ کرے؟ نواز شریف کیا گئے حکومت کے مسائل شروع ہو گئے۔ شاید حکمرانوں نے سوچا کہ جان چھوٹی مگر کچھ اور ہی حالات بن گئے۔ اس وقت تک حکمران کٹّے پال، مرغ پال جیسی باتوں اور بزعم خود انقلابی سوچ سے قوم اور خود کو بہلا رہے تھے۔
اس وقت ملکِ عزیز پر ٹوٹل بیرونی قرض ایک سو سولہ ارب ڈالر ہے۔ ہمارے کل ذخائر اس وقت پچیس ارب ڈالر ہیں۔ ان میں بھی قرض پر لیے گئے ڈالرز کا انبار ہے۔ اگر اس قرض کی ادائیگی اسی رقم سے ادا کی جائے اور فرض کر لیا جائے کہ ہر سال اتنا زرِ مبادلہ جمع ہوتا رہے گا اور سارے ذخائر سالانہ ادا کرتے جائیں تب بھی 2026 ء سے پہلے یہ قرض نہیں اتر سکے گا۔ وہ بھی اس صورت میں کہ کسی کو کھانے کو کچھ نہ ملے، صحت پر ایک روپیہ نہ خرچ کیا جائے، تعلیم جیسی ہے‘ ویسے ہی جامد کر دی جائے، کہیں کوئی نیا سکول نہ کھولا جائے، کہیں تعلیم کے شعبے میں روزگار کے مواقع نہ پیدا کیے جائیں‘ اور سب سے بڑھ کر سب تنخواہیں بیک جنبش قلم بند کر دی جائیں۔ ایک مرحوم اخبار 'پاکستان ٹائمز‘ ہوتا تھا جس میں نامی گرامی صحافی ایڈیٹر ہوتے تھے۔ 14 دسمبر 1950ء بروز جمعرات(خیرات کے عالمی دن ) پر اس میں ایک کارٹون چھپا تھا۔ ہیری ٹرومین نے وزیراعظم لیاقت علی خان کو چھ کروڑ ڈالر کی امداد دی تھی۔ وہی اس کارٹون کا پس منظر تھا۔ ڈالر کا جو سائن استعمال ہوتا ہے یعنی انگلش حروفِ تہجی کا ایس اور اس پر دو لائنیں‘ ان کو غور سے دیکھیں تو یہ بیساکھیاں لگتی ہیں۔ قائدِ ملت اسی بیساکھی کے سہارے پر چلتے دکھائے گئے تھے۔ اسے ترقی پذیر ممالک کو دی جانے والی ''تکنیکی امداد‘‘ کہا گیا۔ انکل سام نے کیسی تکنیک استعمال کی کہ آج تک وہ اسی گر کو آزمائے جا رہے ہیں۔
ہمارے بچپن میں ایک NAM یعنی غیر وابستہ ممالک کی تحریک ہوتی تھی۔ یہ بزعم خود امریکا بہادر کے مقابل میں روس نے کھڑی کی تھی۔ نام غیر وابستہ تھا مگر سارے روس سے وابستہ تھے۔ کیا نہرو، کیا مارشل ٹیٹو، کیا مصر کے جمال عبدالناصر، انڈونیشیا کے سوکارنو اور گھانا کے نکرومہ۔ پیسے میں کیا طاقت ہے‘ وہ غیر وابستہ ممالک بھی افسانہ ہوئے اور بیان کردہ سارے بڑے بڑے نام بھی انکل سام کی طرف کشاں کشاں بڑھتے گئے۔ اب انکل کے سامنے سد ِ ذوالقرنین ہمالہ کے چشموں والا اور کسی زمانے میں‘ گراں خواب کھڑا ہو سکتا ہے۔ ایک وہی! بارہ ہزار سال پہلے انسان زراعت سے وابستہ ہو چکا تھا۔ حضرت انسان نے پچاس ہزار سے دو لاکھ سال پہلے بولنا سیکھ لیا تھا۔ نہیں سیکھا تو حکمرانوں نے محکوموں کی زبان کو سمجھنا نہیں سیکھا۔ بادشاہ تو اشاروں سے بات سمجھ جاتے تھے۔ اب دمشق میں کیسا قحط پڑا کہ یار عشق کرنا ہی بھول گئے۔
چناں قحط سالے شد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کردند عشق
کرۂ ارض پر بسے تینتیس آلودہ ترین شہروں میں چھ برصغیر پاک و ہند میں اور دو اپنے وطن عزیز میں ہیں۔ ایک وہ جہاں سولہ ہزار بے گناہ مار دیے گئے، ایک وہ جہاں میں رہتا ہوں‘ جو دنیا کا سب سے آلودہ شہر ہے۔ کوئی اس طرف دھیان دے تو بات بنے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے باقی شہروں کی کیا حالت ہو گی۔ یہ مسائل ہیں جن کی طرف توجہ دینا ضروری ہے اور اسی طرف توجہ ہے ہی نہیں۔ کام کرنے کی نیت ہونی چاہیے اور دوم، اس کی اہلیت بھی۔ اہلیت اور نیت لازم و ملزوم ہیں۔ یہاں کون سمجھے کہ کیا نیت ہے اور کیا اہلیت۔ اہلیت تو ظاہر و باہر ہو چکی؛ البتہ نیت کا معاملہ ہم کیا کہیں۔ حضرت عمرؓ بن خطاب نے کہا تھا کہ ہمارے پاس جو ظاہر ہے‘ اسی کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے۔ اس مہنگائی اور اس کی رفتار ِ بلاخیز کے بارے میں حکمائے حکومت کیا سوچیں گے۔ ہمالہ کے پہاڑوں کے پار سے خبر آئی ہے کہ اکتوبر میں شدید بارشوں کی وجہ سے سبزیوں کی قلت کے پیش ِ نظر چین نے سبزیوں کے ریزرو کو مناسب وقت یعنی موسم سرما میں عوام تک پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے۔ چین نے سڑسٹھ لاکھ ہیکٹر پر سبزیاں کاشت کی ہوئی ہیں جو ہنگامی صورت کے لیے ہیں کہ قیمتیں عوام کی قوتِ خرید سے بڑھ نہ جائیں۔ مغرب والے حیران ہیں کہ کیا سبزیوں کے بھی ریزرو ہو سکتے ہیں؟ یہاں گندم کے لیے گودام تک میسر نہیں۔ کھلے میدان میں گندم پڑی ہوتی ہے۔ ترپال کی حفاظت کے ساتھ۔ پنجاب میں سولہ لاکھ ہیکٹر قابلِ کاشت رقبہ ہے جس میں سے آدھے میں سال کی ایک فصل اگائی جاتی ہے۔ اس طرف توجہ دینے کے بجائے‘ کیا کہنے اس وژن کے اور سوچ کے‘ جو کٹے پال مرغ پال تک محدود ہے۔ کٹے پالنے کے بجائے یہ روزانہ ایک نیا کٹا کھول دیتے ہیں، پھر اس کو باندھنے کی نہ ہمت ہوتی ہے نہ فراست۔ کٹے باندھنے کے لیے بڑوں کو ضامن بناتے ہیں، ضمانت کی سیاہی خشک نہیں ہوتی کہ دبیر الملک یعنی وزیرِ باتدبیر ایک نیا کٹا کھولنے کو بے چین ہو جاتے ہیں۔ یہ کٹے پال ہیں۔ حضور! اصل کٹوں کی طرف دھیان دیں۔
موجودہ حکمرانوں کی نظریں 2023ء کے انتخابات پر ہیں، ہماری آنکھیں آج کے منظر نامے پر ٹکی ہیں۔ کوئی پوچھے کہ دو سال کے بعد یہ لوگ کیسے ووٹ کے حقدار ہوں گے اور انہوں نے کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں کہ ہم لوگ ان کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیں؟ حال ہی میں اہم لوگوں کی تعیناتی کا معاملہ تھا‘ ایسی گرد اڑائی کہ کٹا کہیں نظر ہی نہیں آتا تھا۔ جب نظر آیا تو ہمت کہاں سے آنی تھی کہ واقعہ سخت ہے اور جان عزیز۔ کوئی ایک کل سیدھی‘ کوئی ایک قدم درست نہیں۔ کسی کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ جسم و جان کا رشتہ بحال کرنا مشکل ہو چکا۔ آئے دن اشیاکی قیمتیں بڑھتی ہیں۔ حکمرانوں میں اہلیت مفقود اور سننے کی تاب غیر موجود۔ یوسف خالد نے سچ کہا ہے ؎
ہم نے اپنے ہاتھوں سے جھاڑیاں اگائی تھیں
اب ہمیں شکایت ہے راستہ نہیں ملتا
اب ہمیں رہ رہ کے حضرت آدم علیہ السلام کے اشعار یاد آتے ہیں کہ زمین گرد آلود ہو گئی ہے، سرخ رنگت سفید ہو گئی ہے۔