تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     29-11-2021

تھوڑا بلند ہوکر

اِس وقت یہ بحث فضول ہے کہ ملک کو درپیش حالات میں کس کا کردار کتنا رہا ہے اور کسے کتنی سزا ملنی چاہیے۔ سوال سزا و جزا سے کہیں بڑھ کر بقا کا ہے۔ جی ہاں! ملک جس نوعیت کی کیفیت کا شکار ہے وہ تو ہمارے وجود ہی کے درپے ہوسکتی ہے۔ ہمارے معاشرے کو درپیش مسائل کے حل کی طرف بڑھنے کے لیے اپنے اندر بھولنے کی بیماری پیدا کرنی ہے یعنی بہت سے معاملات کو بھول بھال کر آگے بڑھنا ہے۔ یہ وقت ایک دوسرے پر الزام تراشی سے کہیں زیادہ حتمی مقاصد پر نظر رکھنے کا ہے۔ ایسی حالت میں درگزر بنیادی شرط ہے۔ اس حقیقت کو جتنی جلد تسلیم اور قبول کرلیا جائے اُتنا ہی اچھا ہے۔ عوام کے لیے سب سے بڑا مسئلہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی قیمت چکانے کا ہے۔ عام آدمی کی تو جان پر بنی ہوئی ہے یعنی جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے ہی پر سب کچھ لگ رہا ہے۔ ایسے میں بہتر تعلیم، معیاری تربیت، اعلیٰ درجے کی معاشی جدوجہد، مطالعے، اعلیٰ ذوق پروان چڑھانے اور اُس کی تسکین کا اہتمام کرنے کے بارے میں کیونکر سوچا جائے؟ جو لوگ صبح کو شام کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہوں اُن سے تہذیب و ثقافت اور فنونِ لطیفہ پر متوجہ ہونے کی توقع رکھنا عبث ہے۔ اور تلخ تر حقیقت یہ ہے کہ جنہیں اللہ نے بہت کچھ دے رکھا ہے اور اپنے اور اپنے بچوں کے لیے بہتر علمی ماحول پیدا کرسکتے ہیں، فنون کے بارے میں سوچ سکتے ہیں وہ بھی ایسا نہیں کر رہے! کاروباری طبقہ صرف کاروبار کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ دنیا بھر میں یہ ہوتا ہے کہ جب کسی کو عام سطح سے کہیں زیادہ دولت حاصل ہو جائے تو وہ ذوقِ لطیف کی طرف جاتا ہے، دو وقت کی روٹی ہی کے بارے میں سوچتے رہنے کے بجائے وہ اِس سطح سے بلند ہوکر علوم و فنون سے رغبت پیدا کرتا ہے، صرف اپنے وجود کے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ کائنات سے اپنے ربط پر بھی غور کرتا ہے۔ جس نے اس کائنات کو سوچا اور خلق کیا‘ وہ ہستی بھی تو یہی چاہتی ہے۔ ظاہر ہے یہ کائنات محض اس مقصد کے لیے تو نہیں ہوسکتی کہ انسان کو خلق کیا جائے، وہ دنیا میں اپنے قیام کے دوران محض حیوانی سطح پر زندہ رہے، کھانے پینے اور سونے جاگنے کے معمولات کا اسیر رہے اور اپنے قیام کی مدت پوری ہونے پر آنکھیں مُوندے اور چلتا بنے۔ جس نے یہ کائنات بنائی ہے اُس نے یقینا ہمارے لیے اعلیٰ و ارفع مقاصد بھی متعین کیے ہوں گے۔ اور کیے کیا ہوں گے‘ رب نے ہمیں اُن سے آگاہ بھی کیا ہے۔
کسی بھی معاشرے کے لیے حقیقی زوال کی ابتدا اُس وقت ہوتی ہے جب وہ صرف لمحۂ موجود کا سوچے، دن رات صرف اس فکر میں غلطاں رہے کہ صبح کو شام کیسے کیا جائے۔ ہم سرِدست ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہیں۔ ہماری ساری توانائی، تمام صلاحیتیں اور تمام عزائم صرف اور صرف اس بات پر صرف ہو رہے ہیں کہ کس طور زندہ رہا جائے، یعنی صرف حیوانی سطح کی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھ کر اُس کی دُم پکڑ کر چلنے کو کافی سمجھ لیا گیا ہے۔ ہم دیکھا دیکھی والا معاشرہ واقع ہوئے ہیں۔ ہر طرف نقالی کا بازار گرم ہے مگر یہ نقالی بھی محدود نوعیت کی ہے۔ ہم صرف بُری باتوں میں ایک دوسرے کی نقل کر رہے ہیں۔ اچھے کاموں کو دیکھ کر بھی ہم تحریک نہیں پاتے۔ کوشش صرف یہ ہے کہ بگاڑ پیدا کرنے والی باتوں کو اپنایا جائے، ہر بُری عادت کو یوں گلے لگایا جائے کہ دنیا دیکھے اور ایسی مسحور ہو کہ داد دینا بھی بھول جائے۔ کیا یہ سطح کافی ہے جس پر ہم جی رہے ہیں؟ کیا زندگی صرف اس لیے عطا کی گئی ہے کہ ہم صبح کو شام کرنے کی مشقّت کے ہوکر رہ جائیں؟ کیا ہمارے لیے کچھ اور کرنے کی گنجائش نہ رہے؟
کسی بھی بگڑے ہوئے معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں قدرت دوسروں کو بھلائی کی تحریک دینے کے کام پر لگاتی ہے۔ ایسے لوگ زندگی کو اعلیٰ و ارفع مقاصد سے ہم کنار کرنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ اِن کی کوششوں سے عام آدمی بھی زندگی کے بارے میں زیادہ سنجیدہ ہوکر کچھ کرنے کے بارے میں سوچتا ہے اور کچھ نہ کچھ کرتا بھی ہے۔ اب ایک بڑا مسئلہ یہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ معاشرے کو عام حیوانی سطح سے بلند ہوکر کچھ کرنے کی تحریک دینے والوں کی تعداد خطرناک حد تک کم ہے۔ اہلِ علم و فن کی زندگی کا ایک بنیادی مقصد اپنے معاشرے کے لوگوں کو بہتر زندگی کیلئے تیار ہونے کی تحریک دینا ہوتا ہے۔ یہ مقصد اب وہ بھول چکے ہیں۔ جنہیں معاشرے کو راہ دکھانا ہے‘ وہ خود بھٹک گئے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ مال کمانے کی دوڑ میں حصہ لیتے رہنے سے اب وہ بھی محدود فکر کے حامل ہوچکے ہیں۔ وہ بھی کمائی کی بُھول بھلیوں میں گم ہوچکے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ سب کچھ ختم ہوچکا ہے۔ اب بھی بہت کچھ باقی ہے۔ پاکستانی معاشرہ بہت سے معاملات میں شدید عدم توازن کا شکار ہے مگر یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اب بھی بہت سے معاملات میں ہم اُس منزل پر ہیں جہاں اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے، کم ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ ہمارے ہاں اب تک خاندانی نظام برقرار ہے۔ اگرچہ اس نظام کی نوعیت زیادہ حوصلہ افزا نہیں اور اِس میں کسی کو بہتر زندگی کے لیے کچھ کرنے کی تحریک کم ہی ملتی ہے مگر مقامِ شکر ہے کہ یہ معاشرتی ڈھانچہ سلامت ہے اور ہم اِس کی مدد سے بہت کچھ کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ کمر توڑ مہنگائی نے عام آدمی کو دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کی منزل میں پھنسادیا ہے۔ یہ ایسا منحوس دائرہ ہے جس میں گھومتے رہنے سے انسان کہیں کا نہیں رہتا، کوئی بامقصد کام نہیں کر پاتا۔ اس دائرے سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ یہ خود بخود تو ہوگا نہیں۔ عام آدمی کو اگر بامقصد اور بارآور انداز سے جینا ہے تو لازم ہے کہ عمومی سطح سے بلند ہوکر کچھ کرے، اپنی زندگی کو محض اَپ ڈیٹ نہ کرے بلکہ اَپ گریڈیشن کی طرف بھی جائے۔ کوئی وقت کے نہ ہونے کا کتنا ہی شکوہ کرے، حقیقت یہ ہے کہ تھوڑی محنت اور منصوبہ سازی سے وقت نکالا جاسکتا ہے۔ ہم اب بھی یومیہ بنیاد پر اچھا خاصا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ عام آدمی وقت کے نہ ہونے کا صرف رونا روتا رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ وقت کو محض ضائع کرنے پر مائل رہتا ہے۔ جتنی محنت وہ کرسکتا ہے اول تو وہ اُتنی محنت کرتا نہیں اور اگر کرتا بھی ہے تو قدرے بے دِلی اور عدم توجہ کے ساتھ۔ کسی بھی کام کو پوری توجہ، دلچسپی اور تندہی سے کرنے کی صورت میں مطلوب نتائج حاصل نہ ہوں‘ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ محنت کا کماحقہٗ اجر دینے کا وعدہ تو اللہ کی طرف ہے جو ہر حال میں پورا ہوکر رہتا ہے۔ یہ وقت یومیہ بنیاد پر کچھ دیر ٹھہر کر سوچنے، اپنے حالات و واقعات کا جائزہ لینے اور زندگی کا معیار بلند کرنے کی منصوبہ سازی کا ہے۔ یکسر عمومی سطح پر زندگی بسر کرتے ہوئے کوئی بھی کچھ بامقصد نہیں کر پاتا۔ زندگی وہی ہے جو عمومی سطح سے کچھ بلند ہوکر بسر کی جائے۔
ہم اگر چاہیں تو پس ماندہ معاشروں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ جی ہاں! پس ماندہ معاشروں سے! ترقی یافتہ معاشرے ہمیں سکھاتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور پس ماندہ معاشرے سکھاتے ہیں کہ کیا نہیں کرنا۔ انسان دوسروں کی خامیوں اور کوتاہیوں سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ یہی معاملہ معاشروں کا بھی ہے۔ ہر ناکام معاشرے کا حقیقت پسندانہ تجزیہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم کس طور ناکامی سے بچ سکتے ہیں۔ آج ہم پر بھی یہی وقت آن پڑا ہے۔ ہم مکمل ناکامی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایسے میں ہمیں اُن معاشروں سے بہت کچھ سیکھنا ہے جو مکمل ناکامی کے گڑھے میں گر کر اپنی وقعت اور افادیت سے محروم ہوچکے ہیں۔ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی جدوجہد اپنی جگہ مگر ہمیں اِس سطح سے بلند ہوکر وہ زندگی یقینی بنانی ہے جو ہمارے خالق نے ہمارے لیے طے کر رکھی ہے۔ عمومی سطح سے بلند ہوکر جینا ہی بہترین آپشن ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved