تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     30-11-2021

فرق

ذہن میں کچھ سوالات تھے۔
پہلے ایک واعظ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ رعب تھا اور طمطراق! دستار بھی تھی، قبا بھی اور عصا بھی! حاضرین ہمہ تن گوش تھے۔ بیان میں روانی تھی۔ الفاظ موسلا دھار بارش کی صورت برس رہے تھے۔ کہیں آبشار، کہیں میدان میں چلتی ہوئی ندی کی طرح خوش خرام! کہیں اشعار! کہیں امثال! کہیں قصے! کہیں حور و غلمان کے تذکرے اور ایسے کہ دماغ نہ مانے مگر واہ واہ کے ڈونگرے برسیں! تشریف لے جانے لگے تو خوش عقیدگی رخصت کرنے دور تک آئی! تاہم میرا مسئلہ حل نہ ہوا۔ ذہن میں جو سوالات تھے ان کے پوچھنے کی نوبت ہی نہ آئی۔ ان کے متوسّلین سے بات کی تو انہوں نے اسے گستاخی پر محمول کیا۔ ان کا موقف تھا کہ وعظ سنتے رہیے۔ آہستہ آہستہ سوالات کے جواب مل جائیں گے‘ مگر براہ راست ان سے سوال پوچھنا؟ یہ سُوئِ ادب ہے۔ اس کی اجازت حضرت دیں گے نہ ان کے جاں نثار!
پھر استاد کے پاس گیا۔ وہاں دستار تھی نہ عبائے فضیلت! نہ ہاتھ میں عصا! جاہ و جلال تھا نہ تزک و احتشام! قالین پر تشریف فرما تھے۔ سامنے کچھ کتابیں تھیں۔ ارد گرد شاگرد، نصف دائرہ باندھے، بیٹھے تھے۔ یہ علم کے متلاشی تھے! یہ سوال پوچھتے۔ استاد جواب دیتے۔ طالب علم مطمئن نہ ہوتا۔ پھر پوچھتا۔ یہاں تک کہ سوال کبھی بحث کی صورت بھی اختیار کر لیتا‘ مگر استاد ہر سوال کا جواب دیتے۔ جب تک شاگرد مطمئن نہ ہوتا سوال جواب کا سلسلہ جاری رہتا۔ حاضرین مجلس میں سے کوئی بھی استاد کے جواب پر مزید گفتگو کر سکتا تھا۔ مجھے بھی موقع ملا۔ سوالات کیے۔ کچھ سے تشفی ہوئی۔ جن سے نہ ہوئی، ان پر مزید سوال پوچھے۔ استاد نکتے سے نکتہ نکالتے جاتے۔ مثالیں دیتے۔ گزشتہ سکالرز کا حوالہ دیتے۔ کبھی ان سے بھی اختلاف کرتے۔ علم کا سمندر تھے‘ مگر اپنی بات کو حرف آخر نہیں گردانتے تھے۔ خدا کا شکر ادا کیا کہ مکالمہ ہوا۔ تشنگی بجھی۔
قومیں استاد سے بنتی ہیں‘ واعظ سے نہیں۔ واعظ تو لوری دے کر سلاتا ہے‘ مسحور کرتا ہے‘ جوش دلاتا ہے‘ خوابوں کی دنیا میں لے جا کر، وہاں چھوڑ کر اگلے مجمع کی طرف لپکتا ہے‘ یہ ہمیشہ درباروں میں پایا جاتا ہے‘ بادشاہوں کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے‘ بادشاہ کے پاس آتا ہے تو خاموش ہو کر بادشاہ کی باتیں سنتا ہے‘ بادشاہ اپنی تعریفوں کے پل باندھتا ہے‘ یہ حکمران کے سامنے 'نہی عن المنکر‘ کی ہمت ہی نہیں کرتا‘ اس کی تعریف صرف اس وقت تک ہوتی ہے جب تک اس کے لچھے دار الفاظ ہوا میں مرغولے بناتے رہتے ہیں۔ جیسے ہی یہ مرغولے تحلیل ہو کر ناپید ہوتے ہیں، کہے گئے الفاظ اپنا اثر کھو دیتے ہیں۔ یہ واعظ ہے جس کے بارے میں کبھی شاعر کو کہنا پڑتا ہے:
واعظان کین جلوہ بر محراب و منبر می کنند
چون بہ خلوت می روند آن کار دیگر می کنند
کہ محراب و منبر پر جلوہ افروز ہونے والے واعظ خلوت میں کیا کرتے ہیں، کچھ نہ پوچھو!
اور کبھی شاعر کہتا ہے:
بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں
لرز جاتا ہے آوازِ اذاں سے
استاد جھنجھوڑتا ہے‘ جگاتا ہے اور سونے نہیں دیتا۔ استاد سِحر کو اور سِحر کے اثرات کو زائل کرتا ہے۔ استاد ہوش میں لاتا ہے‘ خواب سے حقیقت کی دنیا میں لاتا ہے‘ مسائل سمجھاتا ہے اور جینے کا ہنر سکھاتا ہے۔ استاد اپنے حلقۂ درس کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاتا۔ بادشاہ استاد کی بارگاہ میں حاضری دیتا ہے۔ استاد کا سامنا بادشاہ سے ہو جائے تو یہ بادشاہ ہے جو خاموش رہ کر استاد سے فیض یاب ہوتا ہے۔ بادشاہ استاد کے سامنے یاوہ گوئی کی جسارت ہی نہیں کرتا کجا کہ اپنی تعریفوں کے انبار لگائے۔ یہ استاد ہے جو بادشاہ کو روکتا ہے اور ٹوکتا ہے۔ آج تک کسی شاعر نے استاد کی شان میں گستاخی نہیں کی‘ اس لیے کہ مادر فطرت نے استاد کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ اس کا احترام کیا جائے۔ استاد اپنا احترام دلوں میں خود پیدا کرتا ہے۔
سقراط سے گیلی لیو تک یہ استاد تھے جو اپنے شاگردوں سے مکالمہ کرتے تھے۔ ان کے آثار جو موجود ہیں، ان کے نام ہی ڈائیلاگ ہیں۔ سقراط کے شاگرد افلاطون نے مکالمات ترتیب دیے۔ پھر یہ اس کا شاگرد ارسطو تھا جس نے دنیا بھر کو بالعموم اور یورپ کو بالخصوص تحقیق کے اسالیب سکھائے اور جستجو کی تعلیم دی۔ پھر مسلمان اس سے فیض یاب ہوئے۔
یہ جن آئمہ کی آج مسلمانان عالم اتباع کر رہے ہیں، امام جعفر صادقؒ ہیں یا امام ابو حنیفہؒ یا امام مالکؒ یا امام شافعیؒ یا امام احمدؒ بن حنبل۔ یہ سب استاد کے مقام پر فائز تھے۔ ان کی مقدس مجالس میں سوال جواب ہوتے، بحث ہوتی، مکالمہ ہوتا تب جا کر کسی رائے کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوتا۔ کون نہیں جانتا کہ امام ابو حنیفہؒ کے دونوں بڑے شاگردوں، امام محمدؒ اور قاضی ابو یوسفؒ نے اکثر معاملات و مسائل میں اپنے استاد سے اختلاف کیا اور یہ اختلاف اصول اور فروع دونوں میں تھا۔ یہاں تک کہ لوگوں نے سوال اٹھایا کہ ان دونوں شاگردوں کی آرا اور فیصلوں کو حنفی مسلک میں کیوں شمار کیا جاتا ہے جبکہ ان کی آرا امام ابو حنیفہؒ کی آرا سے بالکل مختلف ہیں؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ امام ابو حنیفہؒ ہی نے ان دونوں شاگردوں اور دوسرے تمام شاگردوں کو اختلاف کا طریقہ سکھایا تھا۔ امام ابو حنیفہؒ پہلے ایک رائے قائم کرتے۔ پھر خود ہی اس کا رد کرتے۔ پھر ایک اور احتمال پیدا کرتے۔ اس کے حق میں دلائل دیتے۔ پھر خود ہی اس کے خلاف دلائل دیتے اور ایک نیا احتمال پیدا کرتے۔ اس طرح انہوں نے اپنے شاگردوں کو لکیر کا فقیر ہونے سے بچایا۔ تنقید اور جرح سکھائی۔ بحث کرنے کے انداز بتائے۔ منطق اور عقل کو بروئے کار لانے اور تقلید سے بچنے کا ہنر سکھایا۔ مرحلہ وار مشق کرائی۔ پھر یہ شاگرد استاد سے کبھی اتفاق کرتے تو کبھی اختلاف! واعظ وہیں کھڑا ہے جہاں یہ آئمہ چھوڑ کر گئے تھے۔ یہ استاد ہے جو آج کے مسائل کی روشنی میں نئے راستے دکھاتا ہے۔ کچھ سوچنے سمجھنے والے علما نے جب اسلامی بینکاری کا راستہ کھولا تو واعظین نے مخالفت کی۔ جب متبادل کا پوچھا گیا تو ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
واعظ کی مجلس میں اس کے سوا کوئی اور نہیں بولتا نہ بول سکتا ہے‘ وہ سوال کا جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا‘ اس سے اگر جمہوریت کا پوچھا جائے تو کہے گا کہ جمہوریت درست نہیں۔ پھر اس سے دلائل مانگے جائیں اور یہ پوچھا جائے کہ جمہوریت کا متبادل کیا ہو گا تو وہ آئیں بائیں شائیں کرے گا۔ یہ تو استاد کی شان ہے کہ اگر جمہوریت کو رد کرے گا تو دلائل کے انبار لگا دے گا۔ اس کا متبادل بتائے گا یا جمہوریت کی حمایت کرے گا تو اس کے حق میں دلائل دے گا۔ اختلاف سنے گا اور اختلاف برداشت کرے گا!
اب خود حساب لگا لیجیے۔ آئینہ دیکھ کر فیصلہ کر لیجیے۔ جو قومیں آگے بڑھی ہیں، ان میں استاد زیادہ ہیں یا واعظ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved