تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     30-11-2021

کتاب کی کرامات

ایک روز ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم اپنی کتابِ زندگی کے اوراق پلٹ رہے تھے۔ اِن اوراقِ زندگی میں میرے لیے سمجھنے اور سیکھنے کو بہت کچھ تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا تعلق برصغیر پاک و ہند کے ایک ممتاز دینی خانوادے سے تھا۔ آپ نے ابتدائی دینی تعلیم جامعہ علومِ اسلامیہ بنوری ٹائون کراچی اور پھر اس کی تکمیل دارالعلوم تعلیم القرآن راولپنڈی سے کی۔ میرے لیے حیرت کی بات یہ تھی کہ دینی مدارس سے فارغ التحصیل شخص بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی جیسی جدید دانش گاہ کا رئیس جامعہ اور ملک کا وزیر مذہبی امور کیسے بنا۔
اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں میرے عرصۂ قیام کے دوران ڈاکٹر صاحب کے ساتھ خاصی بے تکلفی ہوگئی تھی۔ ایک روز میں نے اُن سے پوچھ لیا کہ ''قدیم‘‘ سے جدید دنیا کا سفر اُنہوں نے کیسے طے کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ عربی اور اردو میں تو اُن کی استعداد غیرمعمولی تھی مگر انگریزی زبان کے ساتھ اُن کے روابط بس علیک سلیک کی حد تک تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ایک روز میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں انگریزی کے ساتھ اپنی اجنبیت ختم کر کے دم لوں گا۔
ڈاکٹر صاحب نے خواہش، ارادے اور عمل کے درمیان ہر طرح کا فاصلہ مٹا دیا اور اُسی روز وہ پرانی کتابوں کے ایک تھڑے پر جا پہنچے اور وہاں انہوں نے تلاشِ بسیار کے بعد گوہرِ مقصود حاصل کر لیا۔ وہ ''انگریزی سیکھیے‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی ایک پرانی کتاب خرید لائے اور چند ماہ کی مسلسل محنت شاقہ کے بعد انہوں نے انگلش میں علمی و ادبی کتب کا مطالعہ شروع کر دیا اور مزید چند ہفتوں میں انہیں انگلش تحریرو تقریر میں بھی ملکہ حاصل ہو گیا۔
ایک روز ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کتاب بینی کے خوشگوار لمحات کی بات چل نکلی۔ انہوں نے کہا کہ کتاب کی رفاقت میری زندگی کا سب سے بڑا نشاط ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے بتایا کہ میری زندگی کے اداس ترین وہ دو تین دن تھے جب مجھے کتاب کی رفاقت میسر نہ تھی۔ میں دو تین روز کے لیے اپنے کسی عزیز افسر اعلیٰ کا منگلا میں مہمان ہوا۔ اُن کے گھر میں مطلقاً کوئی کتاب نہ تھی۔ رشتے کی نزاکت کچھ ایسی تھی کہ مجھے یہ ایام وہاں گزارنا تھے مگر کچھ دل ہی جانتا ہے کہ میں نے دل گرفتگی کا یہ وقت کیسے گزارا۔
مجھے یہ معلوم کرکے مسرت ہوئی کہ اختتامِ ہفتہ کو فیصل آباد کے ورچوئل لٹریری فیسٹیول سے خطاب کرتے ہوئے بعض اہل فکروفن اور اصحاب علم و دانش نے نہایت فکرانگیز باتیں کیں اور کتاب بینی کے ذوق و شوق کو پروان چڑھانے کے لیے بعض عملی تجاویز بھی پیش کیں۔ معروف صحافی غازی صلاح الدین نے کہا کہ بک شاپس، لائبریریاں، تعلیمی ادارے اور علمی و ادبی ماحول لٹریچر کی تخلیق و ترویج کے لیے بڑا بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ انہوں نے عالمی شہرت یافتہ ترکی کے مصنف اورحان پاموک اور جاپان کی ماروکی موراکمانی کی مثالیں دیتے ہوئے واضح کیا کہ دنیا میں معروف ہونے سے پہلے اُن کی کتابیں اپنے ملکوں میں مقبولیت عامہ حاصل کرچکی تھیں۔ انہوں نے ایک فکرانگیز بات یہ کہی کہ ایک نئی کتاب اپنی سوسائٹی میں تبدیلی لے کر آتی ہے۔
جب وطن عزیز میں کتابوں کا کلچر عام تھا تو ایک نئی کتاب جب بھی منظرعام پر آتی تو طلبہ و طالبات کے علاوہ باذوق قارئین کتاب کی طرف لپکتے تھے۔ ممتاز تاریخ داں، دانشور اور شہرت یافتہ رائٹر نگار سجاد ظہیر نے حال ہی میں منظرعام پر آنے والی کتاب میں مختار مسعود کی شہرہ آفاق ''آوازِ دوست‘‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ''1975ء کی بات ہے، کراچی یونیورسٹی میں ہمارا پہلا سال تھا کہ ہمارے گروپ میں آوازِ دوست آئی اور پھر دست بدست گردش کرنے لگی، گردش تیز سے تیز ہوتی رہی، ہم میں سے جو بھی کتاب پڑھتا وہ اس پر ایک نئے جوش اور ولولے سے اظہارِ خیال کرتا۔ اُن کے جو نثرپارے حفظ ہوتے ہم انہیں ایک صوتی آہنگ کے ساتھ بیان کرکے گرمیٔ محفل کو بڑھاتے۔ ہم میں سے جو بھی آوازِ دوست پر تبصرہ کرتا وہ خود کو کسی دانشور سے کم نہ سمجھتا۔‘‘
کم و بیش اُس زمانے میں یہی صورتِ حال سرگودھا میں ہمارے حلقۂ دوستاں میں تھی۔ لوگ نئی کتاب پڑھتے، اس پر تبصرے کرتے، اس میں بیان کی گئی باتوں پر نہ صرف سر دُھنتے بلکہ اُن کے بارے میں سوچتے بھی تھے۔ مرصع اور دل کش نثر میں لکھی گئی کتاب کی ایک ایک سطر میں جہانِ دانش و حیرت موجود ہے۔ اصحابِ ذوق کو بالعموم شعراء کے اشعار یاد ہوتے ہیں لیکن مختار مسعود وہ نثر نگار تھے جن کے نثر پارے اہلِ ذوق کو حفظ تھے۔ اپنی متاع گم گشتہ اور اپنے زعماء کے جاں فزا تذکروں سے کتاب معمور ہے۔
اس شاہکار سے صرف دو مثالیں ہی کالم کی حدود و قیود میں پیش کی جا سکتی ہیں۔ مصنف چین کے حوالے سے لکھتے ہیں ''دیوار بھی دیکھی اور اہلِ دیوار بھی۔ جہاں شانہ بشانہ صف بصف ایک دوسرے سے پیوست ہو جائیں تو وہی سدِ سکندری ہے اور وہی سدِ یاجوج۔‘‘ ''قحط الرجال‘‘ کے باب میں مختار مسعود لکھتے ہیں ''قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔ مرگِ انبوہ کا جشن ہو تو قحط۔ حیاتِ بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال۔‘‘
فیصل آباد کے لٹریری فیسٹیول میں ممتاز ادیب اور نقاد ناصر عباس نیر نے کہا کہ عالمی سطح پر ہمارے ادیب اور شعراء جانے اور پہچانے نہیں جاتے۔ اُن کے خیال میں اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی یہ کہ ہمارے اکثر رائٹرز کی کتابوں کی اندرونِ ملک پذیرائی نہیں کی جاتی دوسری یہ کہ ان کتابوں کے انگریزی تراجم سے دنیا کو روشناس نہیں کروایا جاتا۔ وگرنہ ہمارے مصنفین کسی سے کم نہیں۔ البانوی، ٹرکش اور فارسی و عربی زبانوں میں لکھی ہوئی کتابیں دنیا بھر میں اس لیے مقبولیت حاصل کرتی ہیں کہ ان ملکوں میں اپنی قومی زبان میں کتاب کی اشاعت کے ساتھ ساتھ اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کروانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
لاہور بک کلب کے حالیہ اجلاس میں ماضی کے ایک ماہانہ میگزین ''دھنک‘‘ کے چیف ایڈیٹر سرور سکھیرا صاحب بھی تشریف لائے تھے۔ ماہنامہ دھنک کا آغاز مئی 1972ء میں ہوا اور اوائل 1980ء میں اس کی اشاعت بند کر دی گئی۔ یہ اپنے دور کا مقبول ترین فیشن میگزین تھا۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے سکھیرا صاحب انگلستان میں مقیم ہیں۔ وہ برطانیہ کے جس شہر میں مقیم ہیں اُس کے بک کلب کے برطانوی ممبران کو اردو اور پنجابی کے نثرپاروں اور شعروں کا انگریزی میں ترجمہ کرکے سناتے ہیں تو وہ سر دُھنتے اور حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔ ہمارے لٹریچر میں واقعی عالمی قارئین کے دلوں پر دستک دینے اور اُن کے قلوب و اذہان میں ہلچل مچا دینے کی پوری قوت موجود ہے۔ سکھیرا صاحب کی یہ براہِ راست گواہی ناصر عباس نیر صاحب کے تجزیہ و تشویش کی تصدیق کرتی ہے۔
آج بھی ہزار سوشل میڈیا ایک طرف اور ایک نئی فکر انگیز کتاب کا جہانِ حیرت ایک طرف۔ اِن دنوں انگریزی اور یورپی زبانوں میں بالخصوص اور دنیا کی دیگر زبانوں میں بالعموم ایسی کتابیں لکھی جا رہی ہیں جو قارئین کو یاس سے نجات دلا کر آس کا درس دیتی ہیں۔ دنیا میں ایسے لاکھوں مشاہیر موجود ہیں کہ جو برملا اعتراف کرتے ہیں کہ اُن کو زندگی کو ناکامی سے نکال کر شاہراہِ کامیابی پر ڈالنے، انہیں گمنامی سے نکال کر شہرت کی بلندیوں تک پہنچانے اور اُن کی زندگی کا رُخ تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف موڑنے میں کتاب کی کرامات نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved