تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     30-11-2021

پولیس، کچہری اور وڈیوز

کاوشیں تو بہت ہو رہی ہیں کہ عوام میں پولیس کے تاثر کو بہتر بنایا جائے۔ پنجاب کے آئی جی اِس حوالے سے بہت متحرک نظرآرہے ہیں،سی سی پی او لاہور، ڈی آئی جی آپریشنز، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن، ایس ایس پی انویسٹی گیشن بھی اس حوالے سے کافی فعال ہیں۔ پولیس کے اعلیٰ حکام یہ دعویٰ بھی کرتے رہتے ہیں کہ ان کامحکمہ ماضی کی نسبت بہت بہتر ہوچکا ہے۔ یہ سب باتیں درست لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخرعوامی سطح پرکیوں پولیس کا تاثر بہترنہیں ہو رہا؟ آخر کیوں تھانوں کی سطح پر حالات کو بہتر بنانے میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوپارہی؟تمام دعووں کے باوجود آج بھی کیوں شہری کسی کام کے لیے پولیس سٹیشن جانے سے پہلے سفارش ڈھونڈتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر پولیس سٹیشن میں جانا مجبوری نہ ہو تو کوئی اِس طرف کا رخ بھی نہ کرے کہ معلوم نہیں وہاں اُن سے کس لہجے میں بات کی جائے‘ کس کے اشارے پر کس کو 'لمبا لٹا‘ لیا جائے۔ اِس پس منظر کو حال ہی میں سامنے آنے والی ایک وڈیو کے پس منظر میں بخوبی سمجھا جاسکتا ہے اور یہ بھی کہ کس طرح ایک غلط حرکت سب کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ یہ وڈیو صرف دیکھنے والوں کو رنج و غم میں ہی مبتلا نہیں کررہی بلکہ اِس میں حکام کے لیے بھی بہت سے سوالات ہیں اور اِن سوالات کے جوابات بھی۔
وڈیو میں دکھائی دینے والا پہلا منظر ہی انتہائی تکلیف دہ ہے۔ ایک بند کمرے میں دوخواتین منہ کے بل لیٹی ہوئی ہیں‘ جن کے سروں پر ایک خاتون کھڑی تھی۔ یہ خاتون زمین پر لیٹی ہوئی خواتین کو انتہائی درشت لہجے میں کہہ رہی تھی کہ اپنے ہاتھ اپنی پشت پر سے ہٹاؤ۔ جیسے ہی خواتین اپنے ہاتھ اپنی کمر سے ہٹاتی ہیں تو اُن پر جوتوں کی بارش شروع کر دی جاتی ہے۔ تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین انتہائی تکلیف میں آہ و بکا کرتی ہیں لیکن تشدد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ دراصل تشدد کرنے والی خاتون کی خدمات حاصل ہی اِس لیے کی گئی تھیں کہ تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کی چیخیں اُن تک بھی پہنچیں جنہوں نے اِس کے لیے مبینہ طور پر بھاری رقم خرچ کی تھی۔ جوتے برسانے کے دوران وڈیو بنانے کا سلسلہ بھی جاری رہا جس کا مقصد یقینا یہی ہوسکتا تھا کہ رقم دینے والوں کو ثبوت فراہم کیا جاسکے کہ ہم نے تمہارا کام کردیا ہے۔ یہ شرمناک سلسلہ کافی دیر تک جاری رہتا ہے ۔ اس وڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد تحقیق ہوتی ہے تومعلوم پڑتا ہے کہ یہ کارنامہ پنجاب پولیس نے سرانجام دیا ہے۔ وہی شیر جوان‘ جن کے حوالے سے عوام میں پائے جانے والے منفی تاثر کو بہتر بنانے کے لیے اعلیٰ حکام ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ تحقیقات آگے بڑھتی ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ دلخراش واقعہ ضلع قصورکے تھانہ صدر میں پیش آیا۔ تشدد کا نشانہ بننے والی دونوں خواتین دفعہ 302اور395کے مقدمات میں شاملِ تفتیش تھیں۔ اِس دوران مبینہ طور پرمخالفین سے ساز باز کرکے ایک خاتون کوشاملِ تفتیش خواتین تک رسائی دی گئی جس نے ان خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ دورانِ تشدد نہ صرف مرد اہلکار موقع پر موجود تھے بلکہ یہ پوری وڈیو ایک خاتون کانسٹیبل نے بنائی۔
وڈیو منظرعام پر آنے کے بعد اعلیٰ حکام حرکت میں آتے ہیں اورتمام ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔ ڈی پی اوقصورنہ صرف ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ درج کراتے ہیں بلکہ سب انسپکٹر اور خاتون کانسٹیبل کومعطل کردیا جاتا ہے۔ ڈی پی او سے بات ہوئی تو اُنہوں نے نہ صرف اِس واقعہ پرانتہائی افسوس کااظہارکیا بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ ذمہ داروں کواپنے کیے کی سزابھی ضرورملے گی۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو‘ ورنہ ایسی مثالیں خال خال ہی ملتی ہیں۔ اگر ماضی میں پیش آنے والے ایسے واقعات کے ذمہ داروں کوسخت سزائیں ملتیں توشاید یہ واقعہ پیش نہ آتا۔ تسلیم کہ اب کے ذمہ دارضرور کیفرِ کردارتک پہنچیں گے لیکن جو خواتین تشدد کانشانہ بنی ہیں‘ اُن کی عزتِ نفس کا کیا؟جسمانی تکلیف تو ختم ہو جائے گی لیکن کیاوہ اپنی روح پرلگنے والے زخموں کو بھلا پائیں گی؟وہ اُن لمحات کو فراموش کرپائیں گی کہ جب مرد اہلکاروں کی موجودگی میں انہیں فرش پر لٹا کر تشددکا نشانہ بنایا گیا تھا؟ ممکن ہے کہ شاملِ تفتیش خواتین واقعتاً قصور وار نکلیں لیکن اس کے باوجود قانون کی کون سی کتاب اور پولیس کا کون سا مینوئل ان پر اس طرح تشدد کرنے کا درس دیتے ہیں؟ معلوم نہیں اہلکار اِس انداز میں تشدد کرکے کیا ثابت کرنا چاہتے تھے۔ سچی بات تویہ ہے کہ اِن خواتین کی وڈیو توسامنے آگئی اور ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لے لیا گیا وگرنہ ایسے واقعات ہمارے تھانوں میں معمول بن چکے ہیں۔ قصور کے ہی ایک تھانے میں ایک بے گناہ کے خلاف ڈکیتی اور اغوا کا جھوٹا مقدمہ درج کرائے جانے کی روداد ہم کچھ عرصہ پہلے ہی سنا چکے ہیں۔ وہ توتب کے ڈی پی او قصور متاثرہ نوجوان کے لیے فرشتۂ رحمت بن گئے ورنہ اُس نوجوان نے جیلوں میں ہی گل سڑ جانا تھا۔ دراصل ایسے ہی واقعات اعلیٰ حکام کی تمام محنت ضائع کر دیتے ہیں۔ ہمیں اِس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ تحسین وہی ہوتی ہے جو عوام کی زبانوں سے نکلے‘ ورنہ اپنے اچھا ہونے کے دعوے تو ہم سب ہی کرتے ہیں۔
لگے ہاتھوں ایک اور وڈیوکا احوال بھی سن لیجئے اورخودہی اندازہ لگا لیجئے کہ ہم اخلاقی رفعتوں کی کس سطح کو چھورہے ہیں۔ یہ منظرکراچی کی ملیرکورٹ کا ہے جہاں ایک دو نہیں‘ درجنوں افراد ایک خاتون اور ایک مرد کوتشدد کانشانہ بنارہے ہیں۔ موقع پر موجود بیشتر افراد اِس کارِ خیر میں حصہ لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ تحقیق پر معلوم ہوتا ہے کہ تشدد کانشانہ بننے والی خاتون حکمران جماعت کی کارکن یا کوئی رہنما تھی۔ اُس کا اپنے سابق شوہر کے ساتھ کوئی لین دین کا معاملہ تھاجس کے لیے وہ اپنے بھائی کے ساتھ عدالت میں آئی تھی۔ خاتون کے مطابق‘ اُس کے سابق شوہر جو کہ ایک قانون دان ہے‘ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اسے اور اُس کے بھائی کو تشدد کانشانہ بنایا۔ یہ وڈیو دیکھ کر کتنی ہی دیر تک حواس گم رہے کہ یہ سب کچھ وہاں ہورہا تھا جہاں سائلین حصولِ انصاف کے لیے جاتے ہیں۔
قصور واقعہ کی وڈیو سامنے آنے کے بعد متعلقہ اہلکاروں کے خلاف کارروائی ہوگئی۔ کراچی میں خاتون کو تشددکا نشانہ بنائے جانے کے بعد تقریباً 22 افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوچکا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم جا کہاں رہے ہیں؟ تھانوں میں خواتین کو اُلٹا لٹاکر تشدد کانشانہ بنانے والی پولیس کے بھی کچہریوں میں پَر جلتے ہیں لیکن وکلا تنظیمیں تو آزاد ہیں‘ آخروہ کثرت سے پیش آنے والے ایسے واقعات کی روک تھام کیوں نہیں کراتیں۔ ایسے معاملات میں ازخود نوٹسز کی روایت بھی دکھائی نہیں دیتی۔
شاید یہی ہمارا المیہ ہے کہ بحیثیتِ مجموعی ہم سب دوسروں کو سدھارنے میں لگے ہوئے ہیں‘ کوئی بھی اپنا کام کرنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا۔ جس دن سب اپنے اپنے دائرۂ کار تک محدود ہوجائیں گے، اُس دن کے بعد کسی کو تھانوں میں تشدد کا نشانہ بنایاجائے گانہ جھوٹے مقدمات میں ملوث کیاجائے گا۔ اُس دن کے بعد سے کچہریوں میں مارپیٹ کے واقعات بھی ختم ہوجائیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved