اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اقتدارکی راہداریوں میں ہونے والی سرگوشیاں عام طورپرکان پھاڑ دینے والی خبروں میں بدل جاتی ہیں۔ اس شورشرابے میں حکمرانوں کا یہ کلب‘ جسے ہم جمہوریت کا پشتیبان تصور کرتے ہیں‘ اپنے طبقاتی مفادات کیلئے وہ سب کچھ کرگزرتا ہے جسے قانون سے کوئی میل ہوتا ہے نہ اخلاق سے کوئی تعلق۔ جمہوریت کو جزِ ایمان قرار دینے کے باوجود کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ اپنی جمہوریت کہیں وہ بساط تو نہیں جس پرہم سب مہروں کی طرح سجے ہیں اور اپنی اپنی قوت کے ساتھ اپنے اپنے شاطر کے ارادے کے تابع ہیں؟ ہمارے لیے جمہوریت کا مطلب صرف یہی ہے کہ ہم سب چار چھ ناموں کی تکرار کرتے رہیں اور یہ پوچھتے رہیں فلاں نے کیا کہا‘ فلاں کب جائے گا اور فلاں کب آئے گا؟اگر ہمارا مبلغ سیاسی شعور چند فلانوں کے کہنے اور کرنے کا محتاج ہے تو پھر آئیے کم ازکم اتنے حقیقت پسند تو ہوجائیں کہ اچھے مستقبل کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ کم ازکم یہ تو سمجھ ہی لیں کہ جو 'فلانے‘ ہمارے نصیب میں آئے ہیں یا آتے رہے ہیں‘ یہ ہماری نہیں ان کی خوش نصیبی ہے جو انہیں ہم جیسے لوگ ملے جن پر وہ خم ٹھونک کر حکومت کرتے ہیں‘ ہمارے ہی وسائل پرعیاشیاں کرتے ہیں اور عام آدمی کو اختیار دینے کی بات ہو تو منہ پھیر کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
عام آدمی کواختیارصرف اسی صورت میں ملتا ہے‘ جب اس کا ووٹ وزیراعظم کے انتخاب سے لے کر محلے کے نمائندے کے چناؤ تک استعمال ہو۔ جس ملک میں بلدیات کی سطح پر ووٹ کام نہ کرے تو سمجھ لیں کہ ایسا ملک جمہوری نہیں بلکہ ہماری طرح کا ہے جہاں جمہوریت تین چارافراد کے کھیل سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہمارے دستور کے آرٹیکل 140 اے میں صاف لکھاہے کہ صوبے قانون کے ذریعے سیاسی‘ انتظامی اور مالی اختیارات نیچے تک منتقل کریں گے۔ دستور کے اس حکم کی تعمیل جب بھی کرائی سپریم کورٹ نے مارباندھ کر ہی کرائی۔ تبدیلی کی نقیب تحریک انصاف‘ ووٹ کی عزت کی بحالی میں جتی ہوئی مسلم لیگ (ن)‘ جمہوریت کی مشعل بردار پیپلزپارٹی اورشرافت کی سیاست کی دعویدارمسلم لیگ (ق) سمیت پاکستان میں کوئی ایسی جماعت نہیں جس نے اپنے زیرنگیں صوبے میں بغیرسپریم کورٹ کی مداخلت کے‘ رضاکارانہ طور پر بلدیاتی ادارے بنانے یا الیکشن کرانے کی کوشش بھی کی ہو۔
عجیب اتفاق ہے کہ بلدیاتی اداروں کی ضرورت کو کوئی سمجھا تو وہ پرویز مشرف تھے۔ انہوں نے 2001 ء میں پاکستان کو ایک بامعنی بلدیاتی نظام سے روشناس کرایا۔ اس نظام نے ملک بھر میں یونین کونسل سے لے کر ضلع تک کی اکائیوں میں اختیارات تقسیم کیے۔ اس کے تحت بڑی تعداد میں لوگ منتخب ہوکر آئے اورانہوں نے پاکستان بھر میں ترقی کا ایک نیا سفر شروع کیا۔ چودھری پرویز الٰہی 2002 ء میں پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے اس نظام کو کمزور کرنے کیلئے کمرکس لی۔ دلیل ان کی یہ تھی کہ اس نظام کے ہوتے ہوئے 'سانوں کون پچھے گا‘۔ نظام کی اصلاح یا اس میں کوئی مثبت تبدیلی تو خیر ان کے بس میں تھی ہی نہیں‘ بس سازش کے سے انداز میں وہ اس کی تباہی میں مصروف رہے۔ 2008 ء میں شہباز شریف کی حکومت آئی تو وہ اس نظام کی تباہی میں کئی قدم آگے بڑھ گئے۔ انہوں نے اس نظام کو نہ صرف مکمل طور پر تباہ کیا بلکہ اس زمانے میں ضلع ناظمین کے خلاف باقاعدہ اخباروں میں اشتہار دے کر ایسے الزامات لگائے جو آج تک ثابت نہیں کیے جاسکے۔ ان کے دورِحکومت میں جب سپریم کورٹ نے ملک میں بلدیاتی اداروں کی عدم موجودگی کا سوال اٹھایا تو مسلم لیگ (ن) لیت و لعل کرتی ہوئی یہ معاملہ 2013ء کے الیکشن تک کھینچ لے گئی۔ الیکشن جیتنے کے بعد اس نے پنجاب میں بلدیاتی اداروں کے لیے جو قانون بنایا وہ ایک تماشے سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ اس میں سارے اختیارات صوبائی حکومت نے اپنے پاس رکھ لیے اور نمائشی طور پر بلدیاتی ادارے بھی بنا دیے۔ خود مسلم لیگ( ن) کی نظر میں ان اداروں کی یہ عزت تھی کہ 2015 ء میں بلدیاتی الیکشن کرانے کے باوجود منتخب نمائندوں کو ایک سال تک حلف نہیں اٹھانے دیا۔ پھرعمران خان کی حکومت آئی تو انہوں نے ان کمزور اداروں کو بھی توڑ دیا اور نئے سرے سے نظام ایجاد کرنے پر جہانگیر خان ترین کو لگا دیا۔انہوں نے کئی ماہ کی مشقت کے بعد جو کچھ ایجاد کیا ‘ایمانداری کی بات یہ ہے‘ اس قابل بھی نہیں تھا کہ اسے سنجیدہ بھی قراردیا جاسکتا۔ انہوں نے سب سے بڑی غلطی کی کہ ضلع کی بنیادی انتظامی اکائی کو ہی ختم کردیا۔ اس کے نتیجے میں ایک لایعنی سا ڈھانچہ بن گیا جس میں یہ پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ کون کیا کرے گا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس ڈھانچے کو بھی اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ آزما ہی لیا جائے۔ اب پھر سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی الیکشن کی تیاری ہورہی ہے تو پنجاب میں جہانگیر خان ترین کا دیا ہوا نظام ہی زیرِبحث ہے اور اس میں الٹ پھیر کرکے نیا نظام بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ لاہور میں صوبائی حکومت کے بڑے سے بڑے لیڈر کو بھی اب تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ صوبے میں یونین کونسل ہوگی یا نہیں‘ شہر کا تو میئر ہوگا لیکن ضلع کا وجود ہوگا یا نہیں؟
جہانگیر ترین کا ایجاد کردہ نظام وہ ہے جس کے تحت اب خیبرپختونخوا میں الیکشن ہورہے ہیں۔ جو نظام اس سے پہلے تھا اس کی بنیاد میں وہی تصور کارفرما تھا جو پرویز مشرف کے دیے ہوئے بلدیاتی نظام میں تھا یعنی صحیح معنوں میں عام آدمی تک اختیار پہنچانا۔ سچ پوچھئے تو یہی وہ نظام تھا جس نے عمران خان کو دوسری مرتبہ خیبرپختونخوا میں الیکشن جتوا دیا۔ معلوم نہیں کس کے مشورے پر یہ نظام ختم کیا گیا اور اب جو کچھ ہے وہ پیسے اور وقت کے ضیاع کے سوا کچھ بھی نہیں۔ لوگ الیکشن لڑرہے ہیں اور انہیں یہ بھی نہیں پتا کہ ان کے پاس اختیارات کتنے ہوں گے اور وسائل کی تقسیم کیسے ہوگی۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کا حال ملاحظہ ہو۔ روشن خیالی اور وفاق کی دعویداریہ جماعت جب سندھ میں ہوتی ہے تو بعض اوقات اس پر نسل پرستی کا الزام بھی درست معلوم ہوتا ہے۔ اگرچہ اس جماعت نے پہلے بھی جو بلدیاتی نظام صوبے میں متعارف کرایا تھا وہ محض ایک تماشا تھا کیونکہ ہر قسم کا اختیار صوبائی حکومت نے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ اب جو نظام وہاں لایا جارہا ہے اس کے مطابق کراچی جیسے شہر میں جو بلدیہ بنے گی اس کے پاس کل اختیاریہ ہوگا کہ وہ شہر میں سرکاری طور پر بیت الخلاؤں کی تعمیر کرے اور صفائی کا بندوبست کرے۔ اگر صوبائی حکومت کے گزشتہ طرزِعمل پر غور کیا جائے تو عملی طور یہ اختیار بھی خود صوبائی حکومت ہی استعمال کرے گی۔ اس بے معنی نظام کی تشکیل کی واحد وجہ کراچی اور حیدرآباد میں اردو بولنے والوں کو اختیار سے محروم رکھنا ہے کیونکہ اسی طرح سندھی بولنے والوںسے اپنے لیے ووٹ کشید کیے جاسکتے ہیں۔
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں کے غالب سیاسی طبقے کے نزدیک جمہوریت کا مطلب بس یہ ہے کہ ان کے اقتدار کا راستہ ہموار ہو جائے۔ حالانکہ طاقتور بلدیاتی نظام کسی بھی جمہوری ملک میں سیاسی استحکام کی بنیادبنتا ہے۔ یہ سیاسی اور انتظامی طور پر اتنا ضروری ہے کہ دنیا کے طاقتور ترین ملکوں کی فہرست میں وہی ملک اوپر ہیں جہاں طاقتور بلدیاتی نظام موجود ہے۔ جن ملکوں میں یہ نظام موجود نہیں وہاں‘ پاکستان کی طرح ایک مسلسل زوال کی کیفیت ہے۔ ملک نیچے سے نیچے گرتے چلے جارہے ہیں اور وہاں کے عمران خان‘ نواز شریف اور آصف زرداری ایک دوسرے کی آڈیووڈیو نکل آنے کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں۔