تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     01-12-2021

الیکٹرانک ووٹنگ مشین…( 3)

ای وی ایم پر سب سے اہم اور قابلِ توجہ اعتراضات الیکشن کمیشن کے ہیں اور ہونے بھی چاہئیں تھے۔ آخر اس انقلابی تبدیلی کے نتائج کی ذمہ داری اور الزامات کا سامنا بھی اسی کو کرنا پڑے گا۔اسی لیے اس نے اپنی پوزیشن اور ای وی ایم کے بارے میں اپنا مؤقف شروع ہی سے بھرپور طو رپر پیش کردیا ہے۔ متعلقہ سینیٹ سٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے الیکشن کمیشن نے 37 اعتراضات پر مبنی اپنا مؤقف پیش کیا تھا۔میں ان اعتراضات کو بلا تبصرہ اسی طرح نقل کرتا ہوں۔ ای سی پی نے خبردار کیا کہ ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی ہے اور اور سوفٹ ویئر میں تبدیلی ممکن ہے۔ ہر مشین کے بارے میں یہ یقین کرنا کہ یہ دیانتدار مشین ہے‘تقریباً ناممکن ہوگا۔اس کے علاوہ اگر 2023ء میں انتخابات ہوتے ہیں تو یہ وقت بہت کم ہے اور اس دوران اتنے بڑے پیمانے پر خریداری‘مشینوں کی تنصیب اور متعلقہ مشین آپریٹر عملے کو بہت بڑی تعداد میں تربیت دینا بہت مشکل ہوگا اورجیساکہ آئین کا تقاضا ہے ایک ہی دن میں پورے ملک میں قومی اور صوبائی انتخابات کا انعقاد قریب قریب ناممکن ہوجائے گا۔ووٹ کو خفیہ رکھنا مشکل ہوگا۔مشینوں کو رکھنے کیلئے ہر سطح اور مرحلے پر جگہ کی فراہمی‘ ایک ہاتھ سے دوسرے میں مشینوں کی منتقلی‘اپنی جگہ پر اور نقل و حرکت کے دوران حفاظت کی ذمہ داری بھی لازمی ہے۔اگر گنتی پر کوئی تنازع اٹھ کھڑا ہوا تو حل کیلئے کوئی ثبوت نہیں ہوگا۔کسی حلقے میں عدالتی حکم کے باعث امیدواروں کے ناموں میں وقت پر کوئی تبدیلی ہوئی تو تمام ڈیٹا میں بالکل آخری لمحات میں رد وبدل ممکن نہیں رہے گا۔اس کے علاوہ مٹی‘گرد‘نمی سے پاک کنٹرولڈ درجہ ٔ حرارت والے گوداموں میں مشینوں کو رکھنا ضروری ہوگا۔علاوہ ازیں تمام سٹیک ہولڈرز کا اس نظام پر اتفاق ہونا ضروری ہے جو اس صورت میں نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ ای وی ایم کم ووٹنگ ٹرن آؤٹ‘خواتین کا کم ٹرن آؤٹ‘ریاستی اختیار کا غلط استعمال‘الیکشن فراڈ‘ووٹ کی خریداری‘امن و مان کی خرابی‘بد دیانت ووٹنگ‘بڑے پیمانے پر سیاسی اور انتخابی ٹکراؤ اور تشدد‘اور ریاستی وسائل کے غلط استعمال کو نہیں روک سکے گی۔ ای سی پی کے مطابق جلد بازی میں ٹیکنالوجی کو انتخابات میں شامل کرنے سے آئین کے تقاضوں کے مطابق منصفانہ‘ غیرجانبدارانہ اور شفاف انتخابات کے مقاصد پورے نہیں ہوسکیں گے۔یہ بھی قابل توجہ ہے کہ جرمنی‘ ہالینڈ‘آئر لینڈ‘اٹلی اور فن لینڈ نے ای وی ایم کا استعمال سکیورٹی خدشات کے پیش نظر ترک کر دیا ہے۔ای سی پی نے کہا ہے کہ ای وی ایم کے استعمال سے قبل پارلیمنٹ میں موجودسیاسی جماعتوں کا اتفاقِ رائے بھی نہایت اہم ہے۔ انفرا سٹرکچر کی فراہمی نیزقوانین‘ اور آئینی شقوں میں تبدیلی بھی ضروری ہوگی۔خدشات اور خطرات کیلئے ریکوری پلانز کا ہونا بھی لازمی ہے۔ ای سی پی کے خصوصی سیکرٹری نے میٹنگ میں کہا کہ ای سی پی اگرچہ ٹیکنالوجی کے استعمال کے حق میں ہے لیکن اس کا محفوظ ہونا اور آزمائشی مراحل میں قابلِ عمل ہونا لازمی ہے۔ان کے مؤقف کے مطابق اگلے انتخابات کے لیے یہ مشین استعمال نہیں ہونی چاہئے۔
یہ تو ہوئے الیکشن کمیشن کے اعتراضات اور مؤقف۔ پارلیمانی امور کے وفاقی وزیرنے اس کے جواب میں کہا کہ الیکشن کمیشن کی یہ دستاویز دراصل ای وی ایم کے خلاف ایف آئی آر ہے۔ انتخابات تک کی درمیانی مدت میں پائلٹ پراجیکٹس کیے جانے چاہئیں‘وفاقی وزیر نے ایک متبادل تجویز یہ پیش کی کہ موجودہ انتخابی کاغذی ووٹ نظام کو بھی اس تبدیلی کے ساتھ اختیا رکیا جاسکتا ہے کہ اس کے ساتھ ووٹر سلپ ریڈنگ مشین شامل کرلی جائے جو ووٹوں کی گنتی کرسکے۔اس تجویز کو کمیٹی کی طرف سے سراہا گیا۔حکومت کی طرف سے انٹر نیٹ ووٹنگ میں کچھ مسائل موجود ہونے کا بہرحال اعتراف کیا گیاجو اوورسیز ووٹنگ کے معاملے میں ہیں۔ انٹر نیٹ ووٹنگ پر بات کسی اور تحریر میں سہی۔
سچ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے بہت سے اعتراضات ای وی ایم کے حوالے سے درست نہیں۔ کم ٹرن آؤٹ‘خواتین کے کم ٹرن آؤٹ وغیرہ کے مسائل ای وی ایم کے حوالے سے نہیں بنتے‘عمومی انتخابی نظام کے حوالے سے ہیں۔ موجودہ کاغذی بیلٹ میں یہ کون سے حل ہوچکے ہیں۔ اسی طرح اور بھی کچھ اعتراضات جن پر بعد میں کسی وقت بات سہی۔ستمبر میں ہونے والی میٹنگ کے بعد سے اب تک پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہے۔تحریک انصاف نے عددی برتری کی بنیاد پر17 نومبر 2021 ء کو ای وی ایم کے بارے میں بھی پارلیمنٹ میں تبدیل شدہ قوانین منظور کروالیے ہیں۔حزبِ اختلا ف نے سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان کیا لیکن نامعلوم وجوہات پر ایسا کوئی قدم تاحال نہیں اٹھایا۔ اور اس کی کوئی وضاحت بھی نہیں کی(اگرچہ اسلام آباد کے ایک قانون دان نے اس بل کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے )۔ اگر عدالتی حکم نے مداخلت نہ کی تو اگلے الیکشن انہی کی بنیاد پر ہوں گے ؛ چنانچہ 23نومبر کو ای سی پی نے تین کمیٹیاں قائم کردی ہیں‘ایک کمیٹی اوورسیز ووٹنگ کے سلسلے میں ہے‘دوسری ای وی ایم پر اخراجات کے تخمینے کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہی کمیٹی مشینوں کے آزمائشی ٹیسٹ بھی کرے گی۔ اسی کمیٹی کی یہ ذمہ داری بھی ہوگی کہ وہ بجٹ‘نظام کار‘اور مشینوں کے رکھنے کے لیے جگہوں کے بارے میں رپورٹ دے۔ای سی پی نے اسلام آباد میںH-11/4 میں اس جگہ کی نشاندہی بھی کی ہے جہاں مشینیں رکھی جاسکتی ہیں۔ تیسری کمیٹی قوانین اور ضوابط میں ضروری تبدیلیوں کے بارے میں ہے جو اس مقصد کیلئے درکار ہوں گی۔ اکتوبر 2023 ء بھی انتخابات کے ماہ کے طور پر تجویز کیا گیا ہے۔ آٹھ لاکھ ای وی ایم خریدنے کی ضرورت بھی بتا دی گئی ہے۔ ای وی ایم پر اعتراضات کی ایک جہت اس پر آنے والے اخراجات ہیں۔ 2018 ء کے انتخابات میں 85ہزار سے زائد پولنگ سٹیشن تھے اور الیکشن کمیشن کے اخراجات 28ارب روپے تھے۔ کہا جارہا ہے‘معلوم نہیں اس میں کتنی صداقت ہے‘ کہ سابقہ مسلسل تین الیکشنوں پر آنے والے مجموعی اخراجات یکجا کیے جائیں تب بھی ان سے دگنے اخراجات ای وی ایم والے انتخابات پر ہوں گے۔یہ اعداد و شمار‘ جو مصدقہ بہرحال نہیں ہیں‘ تشویشناک ہیں۔ ملک اتنے بڑے اخراجات کا فی الحال متحمل نہیں۔ لیکن ان اعداد و شمار میں کافی چیزیں تحقیق طلب ہیں، مثلاً یہ فرض کرلیا جائے کہ 2023 ء کے انتخاب میں ایک لاکھ پولنگ سٹیشن ہوں اور ہر سٹیشن میں چار پولنگ بوتھ ہوں تو درکار مشینوں کی تعداد چار لاکھ بنتی ہے۔اس میں زائد ضروری تعداد بھی شامل کرلی جائے تو اصولاً یہ پانچ لاکھ سے اوپر نہیں بننی چاہیے جبکہ ای سی پی نے یہ تعداد آٹھ لاکھ بتائی ہے۔ اس کی وجہ معلوم نہیں۔ نیز اگر آپ سابقہ تین الیکشنز کو ملا کر ایک موازنہ کر رہے ہیں تو آئندہ تین الیکشنز کو بھی ملا کر یہ دیکھا جائے کہ طویل دورانیے میں اخراجات میں کتنی اور کہاں کہاں کمی ہو گی۔ہم بہت سے فیصلے اپنی زندگیوں میں وہ کرتے ہیں جن میں کوئی فوری خرچ ہوتا ہے لیکن آئندہ کے لیے اخراجات میں کمی ہوجاتی ہے۔یہ بھی ابھی علم نہیں کہ ای وی ایم کس سے خریدی جائیں گی۔ کسی بھی غیر ملکی کمپنی سے ای وی ایم خریدنے کی صورت میں شبہات اور اعتراضات میں بھی اضافہ ہوجائے گا اور اخراجات میں بھی۔یہ نہیں ہونا چاہیے۔
سوال وہی لوٹ کر آجاتا ہے کہ اگر پی ٹی آئی یہ سب کھیل من مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے کر رہی ہے تو کلیدی عہدوں سے الگ ہونے اور نگران حکومت کی موجودگی میں اس کا کوئی طریقہ تو سوچا گیا ہو گا۔ وہ کیا ہے ؟ یہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب معترضین کے ذمے ہے۔ مشین پر اصرار کرنے والوں کی نیت پر شبہ جائز ہوگا لیکن کیا یہ مطالبہ نا جائز ہے کہ ممکنہ فراڈ کے طریقے کی نشاندہی کی جائے۔(ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved