تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-12-2021

فکر و عمل کی ٹھوس بنیاد

نئی نسل کو بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنا پہلے مرحلے میں والدین کی ذمہ داری ہے۔ والدین کی پوری توجہ نہ ملے تو نئی نسل کو اپنے لیے درست سمت نہیں ملتی۔ اساتذہ بھی راہ نمائی کرتے ہیں مگر اُن کی حیثیت ثانوی ہے۔ وہ اگر کسی بچے میں بھرپور اعتماد پیدا کرنا بھی چاہیں تو اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک اُس کے والدین ایسا کرنے پر مائل نہ ہوں۔ والدین کی شخصیت بچے میں جو اعتماد پھونکتی ہے وہ اعتماد اساتذہ کی طرف سے کبھی نہیں مل سکتا۔ بہت سے اساتذہ طلبہ و طالبات میں ارفع زندگی کے حوالے سے اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر خاطر خواہ کامیابی نہیں مل پاتی کیونکہ متعلقہ طلبہ و طالبات کا گھریلو ماحول اُنہیں آگے بڑھنے سے روک رہا ہوتا ہے۔ بچوں میں مستقبل کے حوالے سے تیار ہونے کا جذبہ پیدا کرنے میں والدین بھی اُسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب وہ خود اس بات پر یقین رکھتے ہوں کہ بچوں کا کوئی مستقبل بھی ہے اور اُس کے لیے تیاری بھی لازم ہے۔ عمومی سطح پر والدین اِس پورے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ اُن کے خیال میں بچے کو مستقبل کے لیے تیار کرنا اساتذہ کا کام ہے۔ یقینا ایسا بھی ہے مگر حتمی تجزیے میں تو پہلی ذمہ داری والدین ہی کی ٹھہرتی ہے۔ اگر وہ سنجیدہ نہ ہوں تو بچے کے ذہن کے پردے پر آنے والے دور کی درست تصویر نہیں ابھرتی۔ آنے والا دور یعنی امکانات کا دور۔ امکانات کے بارے میں سوچنے کی توفیق اُسی وقت نصیب ہوتی ہے جب انسان میں بھرپور اعتماد ہو اور طرزِ فکر مجموعی اعتبار سے رجائی ہو۔ جو لوگ اُمید کا دامن تھامتے ہیں وہ مثبت طرزِ فکر کے ثمرات بھی حاصل کرتے ہیں۔
کسی بھی بچے میں بہتر زندگی کے لیے درکار اعتماد پیدا کرنے کی طرف پہلا اور ناگزیر قدم ہے علمی بنیاد کا ٹھوس ہونا۔ فکر و عمل کی ٹھوس بنیاد ہی بچے میں وہ اعتماد پیدا کرتی ہے جو بھرپور اور کامیاب زندگی کے لیے ناگزیر ہوا کرتا ہے۔ یہ سب کچھ بظاہر سکول کی سطح سے شروع ہوتا ہے مگر اِس سے بھی بہت پہلے اِس کی ابتدا اُس وقت ہوتی ہے جب بچہ گھر میں ہوتا ہے۔ ہر بچہ پیدائشی طور پر نقال ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ دیکھتا ہے وہی کرتا ہے۔ اگر گھر میں لوگ سگریٹ پینے کے عادی ہوں تو بچہ بھی سگریٹ پینے کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ سب زیادہ کھانے کے عادی ہوں تو بچہ بھی بسیار خور ہو جاتا ہے۔ سب چیخ کر بات کرتے ہوں تو بچہ بھی چیخنے چلانے کا عادی ہو جاتا ہے۔ اگر گھر کا ماحول بہت شوخ ہو تو بچے میں بھی شوخی پیدا ہوتی ہے۔ اگر گھر کے افراد سنجیدگی کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہوں تو بچہ بھی سنجیدہ رہتا ہے اور کسی مقصد کے بغیر یا بلا ضرورت شوخی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ اگر گھر میں فضول خرچ پائی جاتی ہو تو بچہ بھی فضول خرچ ہوتا جاتا ہے۔ بالکل اِسی طور اگر گھر میں علمی ماحول ہو تو بچہ بھی علمی رجحان کا حامل ہوتا جاتا ہے۔ اگر گھر میں کتابیں پائی جاتی ہوں اور گھر کے افراد مطالعے کے شوقین ہوں یعنی کتابیں پڑھتے ہوئے پائے جائیں تو بچہ بھی پڑھنے پر مائل ہوتا ہے۔ جہاں کتابیں ہوں وہاں گفتگو سلیقے سے کی جاتی ہے۔ مطالعے کا رجحان انسان کو بیشتر معاملات میں غور و خوض کا عادی بناتا ہے۔ ایسے ماحول میں سوچے سمجھے بغیر بولنے یا گفتگو کرنے کا رجحان زیادہ قوی نہیں ہوتا۔
آج کی نئی نسل مطالعے سے بہت دور ہے۔ گھروں میں کتابیں اول تو نہیں ہوتیں‘ اگر ہوتی بھی ہیں تو برائے نام۔ چند روایتی نوعیت کی کتابیں رکھ لینے سے گھر میں مطالعے کا رجحان یا ماحول پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ بچے میں مطالعے کا حقیقی رجحان اُسی وقت پنپ سکتا ہے جب یہ طے کرلیا جائے کہ اُسے معیاری کتابیں ملنی چاہئیں۔ سطحی نوعیت کی کتابیں پڑھنے سے کسی بھی بچے میں مطالعے کا رجحان قوی ہوتا ہے نہ اُس کی شخصیت پنپتی ہے۔ چند ایک جرائد یا ڈائجسٹ وغیرہ گھر پر منگانے سے مطالعے کا معقول اور معیاری رجحان پروان نہیں چڑھایا جاسکتا۔
نئی نسل بہت سے معاملات میں بے پناہ توانائی کے ساتھ ساتھ نامعقول قسم کی جذباتیت کی بھی حامل ہوتی ہے۔ فی زمانہ ایسا بہت کچھ ہے جو اُسے راہ سے ہٹانے کے لیے کافی ہے۔ سمارٹ فون نے آسانیاں اور مشکلات ساتھ ساتھ پیدا کی ہیں۔ بچہ اگر چاہے تو سمارٹ فون کی مدد سے اپنی زندگی کا معیار بلند کرسکتا ہے اور اگر چاہے تو سب کچھ داؤ پر بھی لگا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کی وبا نے نئی نسل کو وقت کے ضیاع کی راہ پر یوں گامزن کیا ہے کہ اب پلٹنا تو دور‘ اُن کے لیے رفتار کم کرنا یا رُکنا بھی آسان نہیں۔ ایسے میں یہ سوچنا سادہ لوحی کی انتہا کہلائے گا کہ کوئی بھی بچہ یا نوجوان اپنے طور پر ٹھوس اور علمی اعتبار سے بارآور مطالعے کی طرف جائے گا۔ کوئی بھی مثبت رجحان خود بخود پروان نہیں چڑھتا۔ اُسے پروان چڑھانے پر متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ زندگی کے ہر اہم معاملے کی طرح مطالعہ بھی ہم سے توجہ اور سنجیدگی چاہتا ہے۔ جو لوگ مطالعے میں منہمک رہتے ہیں وہ پیدائشی طور پر اِس رجحان کے حامل نہیں ہوتے۔ وہ مطالعے کی عادت کو پروان چڑھاتے ہیں، معیاری چیزیں پڑھنے پر متوجہ رہتے ہیں اور یوں اُن کی شخصیت میں وہ نکھار پیدا ہوتا ہے جو زندگی کے ہر معاملے کو تر و تازہ رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
فکر و عمل کی ٹھوس بنیاد اُس وقت پڑتی ہے جب بچوں اور نوجوانوں کو بتایا جائے کہ معیاری کتابیں پڑھنے سے کیا ہوتا ہے، کس طرح کی کتابیں کس طرح کے اثرات پیدا کرتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شخصیت کی تشکیل کے ساتھ ساتھ اُس کی تہذیب و تطہیر میں معیاری کتابیں کیا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ ہر دور میں انسان کو اگر معیاری زندگی کا حامل بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے تو معیاری کتابوں نے۔ معیاری کتابوں سے مراد محض مقبول کتابیں نہیں بلکہ وہ کتابیں ہیں جو خاصی محنت اور عَرَق ریزی سے لکھی گئی ہوں اور جن کے مطالعے سے ذہن کو نئی دنیاؤں کی سیر کرنے کا موقع ملتا ہوں۔ مغرب میں نشاۃِ ثانیہ کے دور میں ناول نگاری کا فن نقطۂ عروج کو پہنچا۔ ناول نگار معاشرے کو جس رنگ روپ میں دیکھنے کے خواہش مند تھے وہ انہوں نے ناولوں کے ذریعے پیش کیا۔ چارلس ڈکنز کے ناولوں میں یہ بات نمایاں ہے۔ بعد کے زمانے میں لیو ٹالسٹائی نے ناول کے ذریعے مطلوب و مقصود زندگی کا خاکہ عمدگی سے پیش کیا۔ نشاۃِ ثانیہ اور اُس کے بعد کے ادوار میں لکھے گئے ناولوں میں کہانی کے محض ایک پہلو یا کرداروں کے آپس کے معاملات اور تفاعل سے کہیں بڑھ کر پورے معاشرے کو پیش کیا گیا اور پورے عہد کو الفاظ میں سمونے کی کوشش کی گئی۔ یورپ میں لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد نے معاشرے کی مجموعی بہبود کو نظر میں رکھ کر لکھنے والے فکشن رائٹرز کو پڑھ کر سوچنا سیکھا اور یوں ایک ایسا عہدِ زرّیں شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ پاکستان کی نئی نسل کتابوں سے دور ہے۔ معیاری طریق سے اور موزوں موضوعات پر لکھی جانے والی کتابیں آج بھی ہمیں بہت کچھ دے سکتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر اِدھر اُدھر سے جمع کیے ہوئے اقتباسات یا اقوالِ زرّیں پڑھ لینے سے حقیقت کا مکمل تصویر تیار نہیں ہوسکتی۔ ٹھوس اور علمی انداز کے مطالعے ہی سے ہماری شخصیت پنپ سکتی ہے۔ معیاری کتابیں ہمیں سمجھنا، سوچنا اور بولنا سکھاتی ہیں۔ ہر معیاری کتاب ایک الگ دنیا کے مانند ہوتی ہے جس میں داخل ہونے کے بعد مطالعہ ختم کرنے تک ہم اپنی اصل دنیا سے دور ہو جاتے ہیں۔ ہر معیاری کتاب ہم پر سحر سا طاری کردیتی ہے۔ یہ بالکل فطری امر ہے۔ پھر ہمیں کچھ نیا سوچنے اور کچھ نیا کرنے کی تحریک ملتی ہے۔
نئی نسل کو کتاب کی طرف لانا ہے۔ کتاب یعنی ٹھوس، علمی سطح کا مطالعہ۔ مطالعے کی مضبوط بنیاد ہی کامیاب زندگی کی بنیاد ہے۔ چھوٹی عمر سے مطالعے کی عادت ڈالی جائے تو کالج کی سطح تک پہنچتے پہنچتے نئی نسل میں ٹھوس علمی مواد پڑھنے اور اپنی طرزِ عمل کو اُس کے مطابق تبدیل کرنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ اساتذہ بھی یہ کام کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں مگر بنیادی کردار تو والدین ہی کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس کیلئے لازم ہے کہ وہ خود بھی ٹھوس مطالعے کی طرف مائل ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved