کبھی کبھی تو اپنی لا علمی اور حد سے زیا دہ بے خبری پر اس قدر افسوس ہونے لگتا ہے کہ سوچتا ہوں لکھنا لکھانا چھوڑ کر کوئی ڈھنگ کا کام شروع کر دوں لیکن پھر اپنے استاد محترم مرحوم گوگا دانشور کا دیا ہو ا وہ آخری حکم سامنے آ جاتا ہے کہ’’ اور تو کچھ کر نہ سکو گے مُنا بھائی بس اسی میں لگے رہو‘‘۔ چوبیس جولائی کو منظر عام پر آنے والی ایک دھماکہ خیز سروے رپورٹ نے سب کوچونکا کر رکھ دیا اور ہمیں اس سے پہلے پتہ ہی نہ چل سکا کہ پاکستان میں 47 فیصد لوگ ایسے موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ بجلی کے نرخ بے شک جتنے مرضی بڑھا دیے جائیں‘ انہیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا بس انہیں بجلی ملنی چاہیے۔ اس پر مجھے کسی سبزی منڈی کا کچھ عرصہ پہلے پیش آنے والا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ایک گاہک نے دکاندار سے آلو کا بھائو پوچھا تو اس نے ساٹھ روپے فی کلو بتایا۔ اس پر وہ گاہک بہت ناراضی سے بولا کہ تمہیں شرم نہیںآتی جو تم نے مجھے آلو کا نرخ ساٹھ روپے فی کلو گرام بتایا ہے۔ شور بڑھاتو ادھر ادھر سے لوگ اکٹھے ہو گئے۔ ماجرا پوچھا تو گاہک نے کہا کہ اس نے آلوکی قیمت صرف ساٹھ روپے کلو بتا کر میری توہین کی ہے۔ اب میں اپنے علاقے میں جا کرلوگوں کو کیا منہ دکھائوں گا کہ میں ساٹھ روپے والی سبزی کھاتا ہوں۔ میں اسے کہہ رہا ہوں کہ مجھ سے تین سو روپے فی کلو لو کیونکہ میرے پاس نوٹ ہی نوٹ ہیں‘ بڑی دولت ہے‘ مجھے پیسے کی کوئی پروا ہی نہیں ہے‘ یہ جتنے چاہے لے لیکن یہ دکاندار ہے کہ مان ہی نہیں رہا بلکہ اپنے نوکر کو کہہ رہا ہے اس پاگل کو دکان سے پرے کردو یہ ہمارے دوسرے گاہکوں کو بھی خراب کرے گا۔ اپنے کالموں میں عرصے سے مہنگائی اور کم آمد نی کا رونا رو رہا ہوں۔ مجھ جیسے اخباری دنیا سے تھوڑا بہت تعلق رکھنے والے کو اب تک پتہ ہی نہیں چل سکا کہ گیارہ مئی کے بعد سے اب تک یعنی صرف پچاس دنوں میں لوگوں کے پاس اس قدر پیسہ آ گیا ہے‘ ان کی قوت خرید اتنی بڑھ گئی ہے کہ انہیں دگنی قیمت پر بھی بجلی مہنگی محسوس نہیں ہو تی۔ ظاہر ہے کہ بجلی کے بعد یہ نصف پاکستان پانی، گیس اور پٹرول بھی سستے داموں نہیں لے گا وہ چاہیں گے کہ جس قیمت پر بھی انہیں یہ اشیا ملیں وہ ہنسی خوشی لینے کو تیا ر ہیں۔ بات یہیں پر نہیں رکے گی بلکہ بڑھتے بڑھتے گھریلو راشن سے لباس اور بچوں کی فیسوں اور دوسرے روز مرہ اخراجات پر بھی اثر انداز ہو گی۔ اس رپورٹ کے مطا بق پاکستان کی کل اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں سے آٹھ کروڑ دس لاکھ افراد کے پاس اس قدر پیسہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں‘ انہیں بجلی ملے‘ چاہے اس کی قیمت آج کے بجلی کے نرخوں سے تیس فیصد زیا دہ ہو۔ سروے کے مطا بق آدھے سے زیا دہ یعنی دس کروڑ سے بھی زائد پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ انہیں بس بجلی ملنی چاہیے‘ پاکستان چاہے بھارت سے بجلی خریدے یاا سرائیل سے‘ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ ان کا ایک ہی تقاضا ہے کہ بجلی لائو چاہے جہاں سے بھی خریدکر لائو۔ یہ چونکا دینے والی رپورٹ پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ کہیں یہ سروے کرنے والے وہی تو نہیں ہیں جنہوں نے انتخابات سے چھ ماہ قبل جناب نواز شریف کے سورج کے ہر طرف سے سر چڑھنے کی سروے رپورٹس جاری کی تھیں۔ اس وقت پاکستان کی کل آبادی اٹھارہ کروڑ کے قریب ہے۔ یہ تعداد مجھے اس لیے یاد رہ گئی ہے کہ ہمارے سبھی سیا ستدان اٹھتے بیٹھتے یہی تعداد بتاتے رہتے ہیں کہ پاکستان کی اٹھارہ کروڑ عوام ان کے ساتھ ہے۔ اب ظاہر ہے کہ سروے والوں نے پاکستان میں مرد یا عورت جس سے بھی بجلی کی فراہمی کے بارے میں سوال پوچھا ہو گا اس کی عمر کی کم از کم حد ہم اٹھارہ سال فرض کر لیتے ہیں کیونکہ اس وقت پاکستان میں ووٹ رجسٹر ڈکرانے کے لیے بھی عمر کی حد اٹھارہ سال ہی ہے۔ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطا بق پاکستان بھر میں رجسٹرڈ ووٹوں کی کل تعدادآٹھ کروڑ چون لاکھ ہے۔ ان میں مرد ووٹروں کی تعداد48259221اور خواتین کے ووٹوں کی تعداد 37162760 ہے ۔اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سروے والے پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے چھوٹے چھوٹے قصبوں، چکوک اور گوٹھوں میں رہنے والی آبادیوں میں بھی تشریف لے گئے ہوں حالانکہ پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی تو انہی جگہوں کی رہنے والی ہے۔ اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ سروے والوں نے پرائمری اور مڈل سکول کے بچوں کے پانچ کروڑ سے بھی زائد بچوں سے پوچھا ہو ؟تو پھر وہ آدھا پاکستان تو نہ ہوا۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو دس کروڑ بالغ لوگوں کا سروے ہی پورے پاکستان کا سروے کہلائے گا۔ اب میرے جیسے لوگوں کو اپنی علیحدہ ڈفلی بند کر دینی چاہیے جو بھارت سے خدا واسطے کا بیر رکھتے ہیں۔ اب مجھ جیسوں کو بھی پورے پاکستان کے ساتھ چلنا ہوگا نہ کہ پنڈی میں بیٹھے ہوئے چند لاکھ لوگوں کے پیچھے۔ پنڈی والوں کو بھی اب جان لینا چاہیے کہ سروے والوں کو سارے عاقل اور بالغ پاکستانیوںنے بتا دیا ہے کہ قوم اب ایران سے گیس نہیں بلکہ بھارت سے بجلی خریدنے کو ترجیح دینے لگی ہے۔ پچاس دنوں میں آنے والی اس حیران کن انقلابی تبدیلی کی وجہ پتہ نہیں کیا جس نے پاکستانیوں کے ذہن سے کشمیر، پانی، سیا چن، سر کریک سب کچھ نکال کر رکھ دیا ہے اور ان کے دلوں میں بھارت سے بجلی حاصل کرنے کی آشائیں اُچھل اُچھل کر اور بن سنور کر محو رقص رہنے لگی ہیں۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ اب پاکستان کی کل آبادی کا نصف سے بھی زیا دہ بالغ طبقہ یہ جاننے کے باوجود بھارت سے بجلی حاصل کرنے کا طلب گار ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کے ذریعے پاکستانیوںکے حصے میں آنے والے دریائے چناب کے پانی پر36 چھوٹے بڑ ے نئے ڈیم بنانے کے علا وہ پہلے سے بنائے گئے بگلیہار ڈیم سے بھی پانچ گنا بڑا ایک اور ڈیم بنانے کی تیاریوں میں ہے اور اس کے ٹینڈرز بھی جاری ہو چکے ہیں۔ بھارت سرکارکی رپورٹ کے مطابق یہ ڈیم مقبوضہ کشمیر کے علاقے کشتواڑ میں دریائے چناب پر ریٹل ڈیم کے نام سے بنایا جا رہا ہے۔ اب اگر پاکستان کی کل اٹھارہ کروڑکی آبادی میں سے دس کروڑ ہوش مند لوگوں نے سروے والوں کو یہ بتادیا ہے کہ وہ بھارت کی بجلی آج کی نسبت تیس فیصد زائد قیمت پر بھی خریدنے کو تیار ہیں تو یہ ان کے با خبر ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے۔۔کیونکہ وہ جان گئے ہیں کہ پاکستان نے تو اپنے پانیوں سے بجلی پیدا کرنے والے ڈیم بنانے نہیں اور اب اگر تنگ آ کر اور’’ بہت سوں‘‘ کی رضامندی سے پاکستان کے پانیوں پر بھارت ڈیم پر ڈیم بنائے جا رہا ہے تو کیوں نہ ان پانیوں پر بنائے جانے والے ڈیموں کی بجلی اسی سے ہی خریدی جائے۔۔۔ کیا ہوا اگر یہ ڈیم ہمارے نہیںاور ان سے پیدا ہونے والی بجلی ہماری اپنی نہیں۔۔۔۔ وہ پانی تو ہمارا ہی ہے ناں جس سے یہ بجلی پیدا کی جا رہی ہے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved