تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     02-12-2021

جدید ریاست اور انصاف

دوسری جنگ عظیم (1938ء۔ 1945ء) کے ابتدائی برس اتحادیوں‘ خصوصاً برطانیہ کے لیے بڑے تشویشناک تھے۔ جرمنی فرانس پر قبضہ مکمل کرنے کے بعد برطانیہ پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھا۔ اس کی فضائیہ لندن اور برطانیہ کے دوسرے شہروں پر دن رات بمباری کر رہی تھی۔ شمالی افریقہ میں مشہور جرمن جرنیل ارون رومیل (Erwin Romail) کی قیادت میں جرمن فوجیں برطانیہ کی فوجوں کو مراکش سے پیچھے دھکیلتے ہوئے مصر کی سرحد تک پہنچ چکی تھیں۔ مشرق میں جاپانی افواج برق رفتاری کے ساتھ کوریا، تائیوان، فلپائن، ہند چینی، انڈونیشیا اور ملایا پر قبضہ کرنے کے بعد ہندوستان کی سرحد پر پہنچ چکی تھی۔ سنگا پور کا فوجی اڈا‘ جسے ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا، جاپان کی فوجوں کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ اس کے بحری جنگی جہاز آبنائے ملاکا پر قبضہ کرنے کے بعد خلیج بنگال میں داخل ہو گئے تھے اور بحر ہند کے مغربی حصے یعنی افریقہ کے مشرقی ساحل اور خلیج فارس، ایران اور جزیرہ نما عرب کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ایسے میں کسی نے وزیر اعظم ونسٹن چرچل سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے برطانیہ کی سلامتی کو لاحق سنگین خطرے کی طرف اشارہ کیا تو چرچل نے اپنے مشہور الفاظ پر مشتمل سوال پوچھا ''کیا برطانیہ کی عدالتوں سے لوگوں کو انصاف مل رہا ہے؟‘‘ اس سوال کا جواب 'ہاں‘ میں سن کر دوسری جنگ عظیم کے اس عظیم ہیرو نے کہا ''تو پھر ہمیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ جس ملک کے عوام کا اپنے اداروں پر اعتماد ہو، انہیں اطمینان ہو کہ ان سے امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا اور سب کو انصاف میسر ہو گا، وہ ملک بڑی سے بڑی قوت کے سامنے ناقابل تسخیر ہوتا ہے‘ اور دوسری جنگ عظیم میں برطانوی قوم نے یہ ثابت کر دکھایا۔ جنگ کے دوران ایک ایسا وقت آیا کہ سارا یورپ ہٹلر کے قدموں میں تھا۔ صرف برطانیہ اکیلا رہ گیا تھا اور برٹش چینل کے اِس پار جرمن فوج کے بکتربند دستے اپنے بمبار طیاروں کی چھاؤں میں برطانیہ پر حملہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ یورپ پر قبضہ کرنے کے بعد جرمنی کی طاقتور فوجوں کیلئے برٹش چینل عبور کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا‘ لیکن معلوم نہیں کہ ہٹلر نے ارادہ کیوں ترک کیا؟ مگر ممکنہ جرمن حملے کا مقابلہ کرنے کیلئے برطانوی قوم کے ہر فرد نے جس بے مثال ایثار اور جرأت کا مظاہرہ کیا، دیگر عوامل میں یقیناً اس کا بھی ہٹلر کو باز رکھنے میں اہم کردار ہوگا۔
اس لمبی چوڑی تمہید کا مقصد ان دنوں ایک سابق چیف جسٹس پر سنگین الزامات لگائے جانے سے پیدا ہونے والی بحث کا مناسب سیاق و سباق میں جائزہ لینا ہے۔ یہ الزامات کسی تفتیشی ادارے یا سیاسی پارٹی کی طرف سے نہیں لگائے گئے۔ ان کا منبع ایک حلف نامہ اور ایک مبینہ آڈیو ٹیپ ہے۔ گلگت بلتستان کے چیف جج کا الزام ان کے ایک حلف نامے کی صورت میں ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ سابق چیف جسٹس نے ان کی موجودگی میں ہائیکورٹ کے ایک جج کو 2018ء کے انتخابات سے قبل سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو ضمانت پر رہا کرنے سے منع کیا تھا۔ آڈیو ٹیپ میں بھی مبینہ طور پر یہی سابق چیف جسٹس اسی نوعیت کی گفتگو کرتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ حلف نامہ ہو یا آڈیو ٹیپس، دونوں کا موضوع چونکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز ہیں‘ جنہیں ایک احتساب عدالت نے سزا دے رکھی ہے‘ اس لیے وہ ان الزامات کو اپنے دیرینہ موقف کے حق میں بطور ثبوت پیش کر رہے ہیں کہ ان کو کیس کے میرٹ پر نہیں بلکہ بیرونی دباؤ اور مداخلت کی بنا پر سزا دی گئی۔ مریم نواز‘ جو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وائس پریذیڈنٹ بھی ہیں‘ اس حوالے سے خاصی سرگرم ہیں۔
حسب معمول حکومت کی طرف سے جو بیانات آئے وہ متضاد تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ آڈیوز جعلی ہیں اور یہ سب ڈرامہ ہے۔ اس پر جب سوال اٹھایا گیا کہ اگر آڈیوز جعلی ہیں تو حکومت ان کی تحقیق کر کے قصور واروں کو سزا کیوں نہیں دیتی؟ اس پر وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ حکومت کا اس سے کیا لینا دینا، اگر شریف خاندان سمجھتا ہے کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے تو اسے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے۔ چند معاونین خصوصی اور حکومت کے ترجمانوں نے اسے نون لیگ کی پرانی روش کا تسلسل قرار دیتے ہوئے، اعلیٰ عدلیہ پر حملہ قرار دیا۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ یہ نان ایشو کو ایشو بنانے والی گھٹیا سیاست ہے اور عوام کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ ان کے سامنے بڑھتی ہوئی مہنگائی، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گرتی ہوئی قدر، بے روزگاری اور حکومت آئی ایم ایف حالیہ ڈیل کے نتیجے میں پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اندیشہ، اصل مسائل ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلے بھی اس قسم کے انکشافات ہوتے رہے ہیں‘ ان کا کچھ نہیں بنا‘ ممکن ہے حالیہ انکشاف کا بھی یہی حشر ہو اور یہ کہ ان پر بحث پانی میں مدھانی چلا کر مکھن نکالنے کی کوشش کے مترادف ہے۔ کچھ حلقوں کی رائے میں یہ انکشافات قطعاً کسی حیرانگی کا باعث نہیں اور نہ انہیں خلاف توقع کہا جا سکتا ہے۔ عوام نہ صرف معاملات کی اصلیت سے واقف تھے بلکہ انہیں یہ بھی یقین تھاکہ ایک نہ ایک دن حقیقت سامنے آئے گی۔
1955ء میں چیف جسٹس مسٹر جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں پاکستان کی فیڈرل کورٹ نے گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کو جائز قرار دے دیا تھا حالانکہ سپیکر اسمبلی مولوی تمیزالدین خان کی اپیل پر سندھ ہائیکورٹ نے گورنر جنرل کے اقدام کو غیرقانونی قرار دے کر اسمبلی بحال کر دی تھی‘ لیکن پہلے ٹیکنیکل بنیادوں پر اور پھر ایک طویل قانونی اور آئینی بحث کے بعد، فیڈرل کورٹ نے گورنر جنرل کے حکم کو بحال رکھا اور اسمبلی کی معزولی کو جائز قرار دیا۔ ایک عرصے کے بعد پاکستان کے نامور مؤرخ اور سکالر کے کے عزیز نے ایک مضمون میں لکھا تھاکہ دوران سماعت چیف جسٹس اور گورنر جنرل مسلسل رابطے میں تھے‘ لیکن اس انکشاف سے کوئی طوفان برپا نہیں ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔ اس سانحے کے کئی سال بعد بنچ کے ایک فاضل رکن جسٹس نسیم حسن شاہ نے اعتراف کیا کہ ان پر فیصلے کیلئے دباؤ تھا۔ ان حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو شریف خاندان کے بارے میں بھی حالیہ انکشافات کا فی الحال کوئی نتیجہ برآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ مگر 2021ء کا زمانہ 1955ء کے زمانے سے بہت مختلف ہے۔ یہ انٹرنیٹ، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ مسئلہ بے شک کوئی ڈرامائی نتیجہ نہ دکھائے، مگر اسے زیادہ دیر تک نہیں دبایا جا سکتا کیونکہ ان انکشافات نے ایک بہت بڑا سوال پیدا کر دیا ہے۔ تمام لیگل کمیونٹی تشویش میں مبتلا ہے کیونکہ ساکھ کا مسئلہ ہے۔ اس سے سسٹم پر لوگوں کا اعتماد متزلزل ہوا ہے۔ پاکستان کی عدلیہ نے بنیادی انسانی حقوق اور جمہوریت کی ترقی کیلئے بعض مواقع پر شاندار کردار ادا کیا ہے اور آئندہ بھی اس سے بجا طور پر یہی توقع ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved