جسم کو سیراب کرتے، ٹھنڈک پہنچاتے سبز پانیوں کے لیگون سے نکلنا مشکل کام تھا لیکن پانچ اور جزیرے ہمارے منتظر تھے۔ ہر جگہ کے لیے وقت بس اتنا ہی نکل سکتا تھا۔ موٹر بوٹ پھر روانہ ہوئی اور اس بار ایک اور لیگون پر رکی جو پہلے سے بھی بڑا تھا۔ تہ میں بچھے چمکیلے پتھر، کنکر اور کہیں کہیں ننھی منی مچھلیاں نظر آتی تھیں۔ کشتی کے مسافر اس لیگون میں بھی پانی میں غوطے لگا رہے تھے۔ کچھ مسافر تو بلا کے تیراک تھے لیکن ذرا ہی دیر میں طے ہو گیا کہ زیادہ اچھے تیراک وہ ہیں یا وہ خوبصورت مرغابیاں جو آس پاس تیر رہی تھیں۔ سرخ چونچ، سرمئی گردن، سرمئی پر اور براق جسم والی ایک مرغابی سب سے قریب اور سب سے نڈر تھی۔ لگتا تھا کہ وہ ان دو تیراکوں کو چیلنج دے رہی ہے جو آپس میں دوست اور کشتی کے مسافروں میں سب سے بہتر تھے۔ وہ مرغابی بہت دیر ان کے قریب اور ان کے ساتھ تیرتی رہی اور جلد ہی ثابت ہو گیا کہ وہ ہم سب سے بہتر تیراک ہے۔ میں پانی سے نکل آیا اور کشتی کے کنارے جھلملاتی دھوپ میں بیٹھ گیا۔ باقی مرد اور خواتین بھی ایک ایک کرکے بھیگے جسموں اور ٹپکتے بالوں کے ساتھ نکل رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ نہ یہاں کوئی جٹی ہے، نہ چھپڑ اور نہ یہ پنجاب ہے لیکن حالات اور منظر سب اسی خوب صورت پنجابی بولی والے ہیں:
جٹی نہا کے چھپڑ چوں نکلی تے سلفے دی لاٹ ورگی
(جٹی چھپر سے نہا کر نکلی تو ایسی تھی جیسے سلفے کا بلند شعلہ)
اس بار کشتی روانہ ہوئی تو کافی دیر سمندر میں چلتی رہی۔ کچھ دور جا کر ایک جزیرہ نظر آیا اور کشتی بان نے رخ اس کی طرف موڑ دیا۔ ہماری اگلی منزل یہی سرسبز جزیرہ تھا اور یہ سب جزیروں میں منفرد بھی تھا۔ یہ جزیرہ بہت الگ سا تھا۔ کارا کا مطلب کالا اور اڈا یعنی جزیرہ۔ اڈا کا لفظ کئی سال پہلے بھی پرنسس آئی لینڈ کے سفر میں سن چکا تھا جب ہم ''بیوک اڈا‘‘ اور ''کیاسیکی اڈا‘‘ وغیرہ کے سفر پر نکلے تھے۔ کالا جزیرہ پر کشتی ساحل کے قریب رکی اور ایک رسی نے اسے ساحل سے اسی طرح باندھ دیا جس طرح اونٹ کو کھونٹے سے باندھا جاتا ہے۔ ہم نے جزیرے کے نیم ویران مختصر ساحل پر اس چھوٹے سے سائبان کو دیکھا جہاں کچھ خستہ حال کرسیاں اور میزیں پڑی تھیں۔ میری توجہ اس بڑے بورڈ نے اپنی طرف مبذول کروالی جس پر کالا جزیرہ کی تاریخ تحریر تھی‘ لیکن ابھی میں تحریر پڑھ رہی رہا تھا کہ اس سے پیچھے کے خوبصورت منظر نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ دراصل جہاں ہماری کشتی لیگون کے سبز پانیوں میں کھڑی تھی وہاں ایک آٹھ دس فٹ چوڑی لیکن کافی لمبی ساحلی پٹی تھی اور اس کی چوڑائی ختم ہوتے ہی اس کے ساتھ ایک خوبصورت تالاب یا چار طرف سے بند لیگون تھا۔ ایک طرف یہ ساحلی پٹی اسے باقی سمندر سے الگ کرتی تھی اور دوسری طرف ساحلی چٹانیں اسے بند کر دیتی تھیں۔ اس تالاب کے پانیوں کا رنگ بھی ذرا مختلف سا تھا۔ میں جہاں کھڑا بورڈ کی تحریر پڑھ رہا تھا اس کے قریب ہی چھوٹی سی سیڑھی اس تالاب میں اترتی تھی۔ لمبوترے اور پندرہ سولہ فٹ چوڑے تالاب میں شفاف پانی جھلملاتا تھا۔ میں نے تجسس سے دیکھا کہ ساحلی چٹانوں کے اندر غار تھے جن کے منہ تالاب میں کھلتے تھے۔ ان غاروں کے اندر پانی تھا اور لوگ ان پانیوں میں تیر کر غاروں کے اندر جا رہے تھے۔ یہی ان میں داخلے کا واحد راستہ تھا۔ میں پانی میں اترا تو پانی نسبتاً گرم محسوس ہوا۔ معلوم ہوا کہ ان غاروں کے اندر گرم پانیوں کے قدرتی چشمے ہیں۔ بظاہر باقی سمندر سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایک غار کے منہ پر پہنچا تو اندازہ ہوا کہ اندر نیم تاریک خلا ہے۔ یہ چشمے اور یہ تالاب اپنے صحت افزا پانی کے لیے مشہور تھے اور دور دور سے لوگ اس تالاب میں نہانے کے لیے آتے تھے۔ یہ پانی ایسا گرم تو نہیں تھا جیسا مثلاً چترال میں گرم چشمہ نامی مقام‘ جس کے ابلتے پانی میں ہم نے غسل کیا تھا، لیکن یہاں نیم گرم پانی جسم کو ٹکور کرتا محسوس ہوتا تھا۔
کارا اڈا قدیم زمانوں سے اپنے گرم چشموں کے لیے مشہور تھا۔ قلوپطرہ کا نام کس نے نہیں سنا۔ ہیلی نسٹک (Hellenistic) دور کی آخری مصری ملکہ۔ ہیلی نسٹک دور بحر روم خاص طور پر یونانی علاقے کی تاریخ کا 323 قبل مسیح میں سکندر اعظم کی موت سے شروع ہوکر سلطنت روما کے آغاز تک کے زمانے پر مشتمل ہے۔ اسی زمانے میں یونانیوں نے مصر پر قبضہ کیا۔ (آپ کو شیکسپیئر کا ڈرامہ Antony and Cleopetra یاد آیا؟)۔ کہا جاتا ہے کہ قلوپطرہ نے انٹونیو کی سرپرستی سے بچنے کے لیے راہ فرار اختیار کی تھی اور تارسس پہنچنے سے پہلے تین سال تک اسی کالے جزیرے پر چھپی رہی تھی۔ کہتے ہیں کہ ان چشموں کے پانیوں اور غاروں کی مٹی نے قلو پطرہ کے حسن میں بہت اضافہ کردیا تھا۔ قدیم زمانوں میں جو بحری جہاز بودرم سے لکڑی اور انگور لے کر مصر جاتے تھے، ان لوگوں کو بھی لے جایا کرتے جو آشوب چشم، گٹھیا اور جلدی بیماریوں میں مبتلا ہوتے تھے۔ یہاں ان چشموں میں نہا کر انہیں شفا ہوا کرتی تھی۔ گویا صحت کے لیے سیاحت کی ابتدا اسی زمانے سے ہوئی۔ بعد میں یونانیوں نے اور پھر نائٹس نے جزیرے پر قبضہ کرلیا۔ پھر عثمانیوں کو ملا۔ 1919میں ایک معاہدے کے تحت سلطنت عثمانیہ نے جزیرہ اطالویوں کے حوالے کر دیا اور 1932 میں عثمانیوں کو واپس کردیا گیا۔
اس تالاب میں جب ہماری کشتی کا ہر مرد خود کو انٹونیو اور ہر عورت خود کو قلوپطرہ سے کم سمجھنے پر راضی نہیں تھے، نیم گرم پانی میں چمکیلی دھوپ میں چاندی جیسے جسم چمکتے تھے۔ بالآخر ہم نے لیگون سے ہم آغوشی ختم کی اور تولیوں سے جسم پونچھتے کشتی کی طرف روانہ ہوئے۔ بھوک لگ چکی تھی اور یہ مژدہ بھی سن لیا تھا کہ کشتی کے نچلے عرشے پر‘ جہاں میزیں اور سیٹیں لگی تھیں، کھانا پیش کیا جانے والا ہے۔ کھانا ہم پاکستانیوں کے ذائقے کا نہ سہی، لذیذ مچھلی کے بڑے بغیر کانٹے کے ٹکڑے میں نمک مرچ مطلب کی نہ سہی، بھوک میں اسی نے مزا دیا۔ میرے حصے کی روٹی کا ایک ٹکڑا اتفاق سے کشتی کے باہر چند فٹ نیچے پانی میں گرا تو میں نے دیکھا کہ ننھی ننھی سیاہ مچھلیاں فوراً ہی اس پر جھپٹ پڑیں۔ یہ پیارا منظر تھا۔ پرندے ہوں، مچھلیاں ہوں یا جانور انہیں اپنے ہاتھوں سے کھلا کر جو خوشی میسر آتی ہے، اس کا کوئی بدل ہے؟ میں نے روٹی کے باقی ٹکڑے بھی ایک ایک کرکے پانی میں ڈالے اور پھر تو کشتی کے ہر مسافر نے ننھی مخلوق کو رزق رسانی شروع کردی۔
خدا کا شکر کہ رزقِ پرندگاں کے طفیل
سعودؔ مجھ کو بہت آب و دانہ ملتا ہے
دو تین بجے کے قریب تھکن اور کھانے کے خمار نے سب پر غنودگی طاری کردی۔ اس دن کرنوں کا سنہرا مشروب جرعہ جرعہ پیتے، جزیرہ در جزیرہ پھرتے، ہم نے وہ منظر دیکھا جو اپنے شہروں، اپنی مصروفیات میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ ہم نے سورج کو سفر کرتے دیکھا۔ ہم نے دیکھا کہ وہ دن ڈھلنے کے ساتھ ساتھ آسمان کے وسط سے مغرب کی طرف جھکتا چلا گیا۔ یہ سنہری تھال بتدریج سرخ پھر زرد اور پھر نارنجی ہوا‘ اور جب تانبے کا یہ تھال سمندر میں غرق ہونے کے قریب تھا تو اس نے دیکھا کہ ہم واپس بودرم کے ساحل پر اتر رہے تھے۔