حکومتِ پاکستان نے مختلف مقاصد اور شکایات کے اندراج کے لیے'' پاکستان سٹیزن پورٹل (PCP)‘‘ قائم کیے ہیں۔ اس کی تعریف گوگل پر یہ درج ہے: (ترجمہ) ''حکومت کی قائم کردہ موبائل ایپلی کیشن ''پاکستان سٹیزن پورٹل (PCP)‘‘، یہ انڈرائیڈ اور آئی فون آپریٹنگ سسٹم دونوں پر دستیاب ہے‘ اس میں پاکستان کے شہریوں کو مرکزیت حاصل ہے، اس کے ذریعے حکمرانی (Governance) میں شہریوں کی شراکت مطلوب ہے‘‘۔ اسی تناظر میں مختلف محکموں اور شعبوں کے لیے بھی پورٹل اپلیکیشنز متعارف کرائی گئی ہیں۔ قومی ادارۂ شماریات (NADRA) کی اپلیکیشن کی بابت کہا جاتا ہے کہ استعمال جاننے والوں کے لیے مفید ہے، یعنی اگر شناختی کارڈ پہلے بنا ہے اور گم ہو گیا ہے یا تجدید کرانی ہو یا پتا تبدیل کرانا ہے تو اس اپلیکیشن کا استعمال مفید ہے؛ البتہ پہلی بار شناختی کارڈ بنانے والوں کو نادرا کے مرکز میں جانا ہوگا، پاسپورٹ یا ویزے کے لیے یہ سہولت غیر ملکی سفارت خانوں کی طرف سے بھی دستیاب ہے۔ اب بہت سے ادارے براہِ راست اشتہار دینے یا درخواستیں وصول کرنے کے بجائے آن لائن درخواستیں لے لیتے ہیں تاکہ اپنے مطلوبہ معیار پر مختلف مراحل سے گزارنے کے بعد مطلوب شخص کا انتخاب کر لیں اور سفارشوں اور دبائو سے بھی نجات مل جائے‘ لیکن کسی حاکمِ وقت کا یہ سمجھنا کہ وہ ہفتے میں چند گھنٹے شہریوں کے ٹیلی فون سن کر یا سٹیزن پورٹل قائم کر کے مثالی اور معیاری حکومت اور حاکمیت قائم کر سکتا ہے‘ یہ خوش فہمی اور فریبِ نفس ہے۔ ایک وزیرِاعظم چند گھنٹے ٹیلی فون پر بیٹھ کر تئیس کروڑ شہریوں میں سے کتنوں کے مسائل حل کرلے گا، جبکہ اُسے ان مسائل کے حل کے لیے بھی متعلقہ اداروں سے رجوع کرنا ہوگا یا انہیں حکم جاری کرنا ہوگا، لیکن درحقیقت مسائل متعلقہ شعبے اور محکمے ہی حل کر سکتے ہیں‘ وہی سارے ریکارڈ اور حقائق کو دیکھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ شکایت درست ہے یا نہیں اور اس کا حل ممکن ہے یا نہیں یا اگر ہے تو اس کا طریقۂ کار کیا ہے۔ اگر اچھی حکمرانی (Good Governance) کا یہ شعار سب سے سہل اور مؤثر ہوتا تو وائٹ ہائوس اور ٹین ڈائوننگ سٹریٹ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ایوانِ صدر یا ایوانِ وزیراعظم میں یہ نظام کام کر رہا ہوتا۔
مثالی حکمرانی اُسے کہتے ہیں کہ حکومت کے قائم کردہ تمام محکمے، ادارے اور عُمّال اپنی اپنی جگہ صحیح اور بروقت کام کریں، ہر حق دار کو بلا روک ٹوک اور کسی سفارش یا دھونس دبائو کے بغیر اس کا حق ملے، رشوت کا چلن نہ ہو۔ ہمارے ہاں اداروں کی اتنی کثرت ہو چکی ہے کہ وہ ریاست پر بہت بڑا مالی بوجھ (Financial Liability) بنتے جارہے ہیں، مثلاً: بدعنوانی کے انسداد اور دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لیے اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ، سی آئی اے، ایف آئی اے، انٹیلی جنس بیورو، کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (CTD)، نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی (NACTA)، وفاقی وصوبائی محتسب (Ombudsman) اور قومی ادارۂ احتساب (NAB) وغیرہ، آئی ایس آئی اور ایم آئی کا غالب تعلق انٹیلی جنس کے داخلی اور عالمی نظام سے ہے، یہ ادارے کثیر المقاصد ہیں۔
اسی طرح حکومت بنیادی اشیائے خوراک کے لیے زرِ تلافی اور زرِ اعانت کے پروگرام بناتی ہے، اُس کے لیے مستحقین کا انتخاب حکومتوں کے لیے ایک مسئلہ ہوتا ہے، اُسی میں خرابیاں نفوذ کرتی ہیں۔ ماضی میں سابق صدر ایوب خان کے زمانے میں اور بعد میں سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں راشن ڈپوئوں کا نظام قائم کیا گیا تھا، اُس وقت تک یہ نظام آٹا اور چینی تک محدود تھا، لیکن بعد میں یہ سلسلہ ختم کردیا گیا۔ پھر یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کا قیام عمل میں آیا اور اس میں دیگر اشیائے صَرف کا بھی اضافہ کردیا گیا، لیکن ہرصارف کے لیے یوٹیلٹی سٹور پر جانا مشکل ہوتا ہے، پھر اُس میں بھی معیار کی گراوٹ اور کرپشن کی داستانیں آنا شروع ہوئیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں حکومتیں بنیادی اشیائے صَرف کی قیمتوں کو حدود میں رکھتی ہیں، خود کاروبار نہیں کرتیں، اسی طرح امریکہ میں بے روزگار اور معمر لوگوں کے لیے فوڈ سٹمپ کا نظام ہے، لیکن وہ کسی خاص سٹور سے خریدنے کے پابند نہیں ہیں، کسی بھی جگہ سے جاکر خرید سکتے ہیں۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے ملک کے لیے بنیادی اشیائے ضرورت کی حد تک ایک ایسا جامع نظام تشکیل دیا جائے کہ وہ ہر شہری کی رسائی میں ہو۔ موجودہ حکومت سابق حکومتوں پر طنز کرتی رہتی ہے کہ وہ اعلیٰ درجے کے ہسپتال نہیں بناسکے، لیکن خود موجودہ حکومت بھی اپنے سوا تین برسوں میں ایسا کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکی، بس ''انصاف صحت کارڈ‘‘ جاری کیے ہیں، جو قابلِ تحسین بات ہے، لیکن آگے چل کر اس میں بھی کرپشن کے راستے کھل جائیں گے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بجٹ میں مختص کردہ اس رقم سے ڈسٹرکٹ یا ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کی سطح تک اچھے ہسپتال بنائے جاتے، پہلے سے موجود ہسپتالوں کی استعدادِ کار بڑھائی جاتی، جہاں معیاری دوائیں مفت فراہم ہوتیں۔ ہر طرح کے آپریشن کی سہولت ہوتی اور جو لوگ پرائیویٹ ہسپتالوں کے اخراجات کے متحمل نہیں ہو سکتے، انہیں علاج کی سہولتیں مفت دستیاب ہوتیں۔
ہمارے ہاں کورونا کی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی اداروں اور بعض ممالک کی طرف سے اعانتی رقوم آئیں، جن کی مقدار ساڑھے گیارہ کھرب روپے بتائی جا رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی بابت آئی ایم ایف کی ہدایات تھیں کہ حکومتِ پاکستان اس کی آڈٹ رپورٹ اپنی وزارتِ خزانہ کی ویب سائٹ پر ڈالے۔ پوری رقم کی بابت کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں، لیکن تقریباً ساڑھے تین سو ارب کی رقم کا آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے آڈٹ کیا اور اس میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی۔ پہلے اس رپورٹ کو چھپایا گیا اور اب مجبوراً ویب سائٹ پر ڈال دیا گیا ہے اور میڈیا کے ذریعے عوام کو پتا چلا کہ اس میں شفافیت نہیں ہے، بے ضابطگیاں ہیں۔ خرید وفروخت کے لیے حکومت کے جو مسلّمہ معیارات ہیں، اُن سے انحراف کیا گیا ہے اور اس طرح پورے نظام پر اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں مختلف سکینڈل آئے، مثلاً: چینی سکینڈل، آٹا سکینڈل، میڈیسن سکینڈل، پٹرول جب عالمی سطح پرحالیہ تاریخ کی سب سے نچلی سطح پر تھا، تو اُس وقت اسے کیوں نہ درآمد کیا گیا۔ اسی طرح سابق حکومت کو تو ایل این جی کے مہنگے درآمدی سودوں کی بابت ملامت کیا جاتا رہا ہے، مگر اب اُس سے کئی گنا زیادہ قیمت پر ایل این جی درآمد اور فروخت کی جا رہی ہے اور اس کے باوجود ملکی ضروریات کے لیے ناکافی ہے، بروقت منصوبہ بندی نہیں کی گئی اور نااہلی کے سبب پوری قوم یہ سزا بھگت رہی ہے‘ مگر کبھی بھی اس بحران کے ذمے داروں کا تعیّن نہیں کیا گیا۔ براڈ شیٹ معاہدہ جو فوجی جنرلوں اور اُس وقت کے پراسیکیوٹر جنرل شیخ عظمت سعید نے کیا، جو بعد میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج بنے، اس معاہدے سے پاکستان کو حاصل تو کچھ نہ ہوا، مگر کئی ملین ڈالر جرمانے کے طور پر ادا کر دیے گئے، پھر اسے بھی دفن کر دیا گیا ۔
خود رائی، خود بینی، خود غرضی، انا پرستی اور برخود راستی ایک نفسیاتی بیماری ہے اور اس میں ہمارے وزیراعظم مبتلا ہیں۔ سوا تین برس حکومت سے لطف اندوز ہونے کے باوجود وہ ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن کی داستانوں پر جی رہے ہیں، اُن کے کشکول میں اپنا کوئی ایسا کارنامہ نہیں ہے جسے مارکیٹ میں عوام کی پذیرائی کے لیے پیش کر سکیں۔ بس اُن کی ایک جیسی تقریریں اور خطابات ہیں جو قوم گزشتہ ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے سُن رہی ہے، لیکن اب بھی وزیراعظم کو یقین نہیں آ رہا کہ یہ تقریریں قوم کو اَزبر ہوچکی ہیں اور اب ان میں کوئی کشش باقی نہیں رہی، بلکہ لوگوں کی طبیعت پر گراں گزرتی ہیں اور جن لوگوں کو سنانے کے لیے کی جا رہی ہیں، انہیں ٹی وی سے دور رکھنے کا سبب بن رہی ہیں۔
اب ماہرینِ معیشت کے نزدیک تازیانۂ عبرت برسنے کو ہے، ملک کے مجموعی قرضے عنقریب جی ڈی پی کے برابر ہونے جا رہے ہیں، ملک کے اثاثے گروی رکھے جا رہے ہیں، آئی ایم ایف کا حالیہ پیکیج اور سعودی عرب سے جو تازہ ترین قرض لیا ہے، اس کی شرائط ہولناک ہیں اور اگر ملک اسی ڈگر پر چلتا رہا تو کسی کے لیے بھی اس کا سنبھالنا مشکل ہو جائے گا، یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے سوا پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے، کیونکہ جب تک کوئی پارٹی عوام سے واضح مینڈیٹ لے کر نہ آئے، اس کے لیے جاری نظام میں کوئی جوہری تبدیلی لانا ممکن نہیں ہوگا۔ مسائل بدستور ناقابلِ حل ہوتے جا رہے ہیں، لیکن وسط مدتی تازہ انتخابات کے سوا کوئی اور قابلِ عمل فارمولا نہیں ہے۔ جو باتیں سرگوشیوں میں کی جا رہی تھیں، اب سوشل میڈیا پر اس کا صوت و آہنگ بلند ہو گیا ہے اور موجودہ نظام کوناکام ہائی برِڈ نظام سے تعبیر کیا جا رہا ہے، الغرض منصوبہ بندی کرنے والوں نے 2018ء میں جو خواب دیکھا تھا، اس کی تعبیر نہایت بھیانک ہے، لیکن وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو یا تو اس کا اِدراک نہیں ہے یا تجاہلِ عارفانہ، خود فریبی وفریب دہی سے کام لے رہے ہیں۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وزیراعظم کے مقرّبین میں سے کسی کی مجال نہیں ہے کہ وہ اُن کے سامنے حقائق بیان کریں یا ناکامیوں کی نشاندہی کریں یا بیتُ الجِنّ (ایوانِ اقتدار) سے باہر جو حالات ہیں، اُن کی صحیح تصویر اُن کے سامنے پیش کریں؛ البتہ کچھ لوگ اُن کو ''امام العاشقین‘‘ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور اس کی قسم کھانے کے لیے تیار ہیں، حالانکہ فارسی ضرب المثل کا ترجمہ ہے: ''مشک وہ ہے جو خود خوشبو دے، نہ کہ عطر فروش اس کے قصیدے پڑھے‘‘، نیز: ''خوب رو اور دلربا چہرے کو بنائو سنگھار کی ضرورت نہیں ہوتی‘‘۔