تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     02-12-2021

مذہبی مقامات کا احترام واجب

گزشتہ روز یہ افسوسناک خبر نظر سے گزری کہ ایک سوشل میڈیا بلاگر ماڈل خاتون کرتار پور دربار صاحب میں ماڈلنگ کررہی تھی۔ جس برانڈ کے اس نے کپڑے زیب تن کررکھے تھے‘ اس نے بھی اس فوٹو شوٹ کو فوری طور پر اپنے سوشل میڈیا پیجز پر شیئر کردیا۔ مجھے برانڈ‘ ماڈل یا ماڈلنگ سے کوئی مسئلہ نہیں، نہ ہی فوٹوگرافی سے کوئی ایشو ہے‘ مجھے اس بات پر افسوس ہے کہ مذہبی مقامات کے تقدس کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ پورے پاکستان میں جب آپ ہزاروں دیگر جگہوں پر ماڈلنگ کرسکتے ہیں تو مذہبی مقامات پر یہ سب کرکے لوگوں کے دل کیوں دکھا رہے ہیں؟ جہاں چاہے‘ شوٹ کریں لیکن منادر‘ مساجد‘ درباروں‘ گوردواروں اور گرجا گھروں کو تو بخش دیں، لوگوں کے مذہبی عقائد کا احترام کریں۔
دربار صاحب کرتارپور کا قیام اس لیے عمل میں لایا گیا تھا کہ دنیا بھر سے سکھ برادری اس جگہ پر آسکے جہاں ان کے روحانی پیشوا بابا گرونانک نے اپنی زندگی کے آخری اٹھارہ سال بسر کئے۔ اس لیے کرتار پور دربار کی تعمیر کی گئی اور ایک راہداری بنائی گئی جہاں سے بھارت کے سکھ بھی اس گوردوارے میں آ سکتے ہیں۔ حسن ابدال ہو یا کرتارپور‘ تمام سکھ برادری پاکستان کی میزبانی کی بہت تعریف کرتی ہے۔ پاکستانی دل و جان سے سکھ یاتریوں کا احترام کرتے اور ان کی میزبانی کرتے ہیں۔تاہم سوشل میڈیا پر ایک ماڈل کی غیرذمہ دارانہ حرکت کی وجہ سے تمام سکھ برادری کے جذبات مجروح ہوئے۔ سکھ برادری نے اپنے غم اور غصے کا اظہار کیا اور حکومتِ پاکستان سے ایکشن لینے کا مطالبہ کیا۔ سکھ برادری کے مرد و خواتین اپنے مذہبی مقامات پر سر ڈَھک کرجاتے ہیں‘ مرد سر پر رومال باندھتے ہیں یا روایتی پگڑی پہنتے ہیں‘اسی طرح خواتین بھی مکمل لباس کے ساتھ سر کو ڈوپٹے سے ڈھانپ کر ہی مذہبی مقامات کی زیارت کو جاتی ہیں۔ اس لیے ایک ماڈل کی طرف سے ایسی تصویر کا سامنے آنا‘ جس میں وہ اپنے بال لہرا رہی ہے اور مختلف ادائیں دکھا کر اپنے لباس کی نمائش کررہی ہے‘ سب کو گراں گزرا۔یہ معاملہ سامنے آنے پر کپڑوں کے اس برانڈ نے معافی مانگی اور تصاویر فوراً ڈیلیٹ کردیں۔ اس حوالے سے پنجاب حکومت نے کاروائی کا فیصلہ بھی کیا ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹویٹ کیا کہ ماڈل اور ڈیزائنر اس حوالے سے معافی مانگیں کیونکہ یہ ایک مذہبی جگہ ہے‘ کوئی ماڈلنگ کا سیٹ نہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا صارفین نے بھی اس اقدام پر تنقید کی اور کہا کہ سیاحوں کو مذہبی مقامات کے تقدس کا خیال کرنا چاہیے۔
بہت سے صارفین نے مختلف مساجد کی بھی وڈیوز شیئر کیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مقامی سیاح غیر مناسب لباس میں وہاں پر فوٹوشوٹ کرا رہے ہیں‘ ناچ گا رہے ہیں اور ٹک ٹاک وڈیوز بنارہے ہیں جویقینا افسوسناک ہے۔ حال ہی میں شاہ فیصل مسجد کے دو کلپس وائرل ہوئے‘ ایک میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مسجد میں ہرطرف کچرا پھیلا ہوا ہے‘ بچا کھچا کھانا پڑا ہے اور لوگ مسجد کا احترام نہیں کر رہے، کوئی فوارے میں ٹانگیں ڈال کر بیٹھا ہوا ہے اور کوئی کسی اور نامناسب انداز میں، دوسرا کلپ ایک ٹرپ سے متعلق ہے جس میں بنا ڈوپٹہ اوڑھے جینز اور شرٹ پہنے بچیاں مسجد میں گھوم پھر رہی ہیں۔ لڑکے‘ لڑکیاں ہنس کھیل رہے ہیں‘ کوئی فون استعمال کر رہا ہے‘ کوئی وڈیوز بنانے میں مشغول ہے‘ کسی کو یہ خیال ہی نہیں کہ ہم مسجد میں موجود ہیں۔ شادی کے فوٹو شوٹس میں بھی مساجد کی حرمت کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ مسجد میں نکاح ضرور کریں مگر وہاں نماز پڑھیں، ایک‘ دو تصاویر لے کر چلے جائیں؛ تاہم یہاں کچھ اور ہی ہو رہا ہے۔ خواتین بنا دوپٹہ اوڑھے مسجد میں آجاتی ہیں‘ مرد بھی اکثر اپنے لباس کا خیال نہیں کرتے، مساجد میں ہنسی مذاق ہورہا ہوتا ہے‘ دُلہا‘ دلہن ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر فوٹوشوٹ کرانا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ وڈیوز اور تصاویر تو ایسی بھی دیکھنے کو ملیں جن میں دُلہا نے دلہن کو گود میں اٹھایا ہواتھا۔ اس کے علاوہ گول گول گھومتے ہوئے تصاویر اور وڈیوز بنانا اور یہ سب کچھ مساجد میں کرنا‘ عام ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے مناظر ہر دوسرے روز شاہ فیصل مسجد اسلام آباد، بادشاہی مسجد، مسجد وزیر خان اور گرینڈ مسجد لاہور کے حوالے سے عام دیکھنے کو ملتے ہیں۔ وہاں موجود نمازی افسوس کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔ فوٹوشوٹ کرنے والے انتظامیہ کو فیس دے کر سمجھتے ہیں کہ اب انہیں سب کچھ کرنے کی آزادی ہے۔ اگر آپ نے فیس دی ہے یا انتظامیہ سے اجازت لی ہے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ مسجد کے آداب بھول جائیں۔ مسجد نماز پڑھنے اور عبادت کی جگہ ہے۔یہاں پر ناچ گانا‘ فوٹوشوٹ سمجھ سے باہر ہیں۔ مسجد میں تو فون بھی سائلنٹ موڈ پر ہونا چاہیے تاکہ دیگر نمازی ڈسٹرب نہ ہوں۔ نکاح مسجد میں کرنے کے نام پر تمام فضول رسومات بھی مسجد کے احاطے میں ہو رہی ہیں۔ جس نے باقاعدہ فوٹو شوٹ کرنا ہے‘ وہ باغوں میں جائے‘ پارکس میں جائے۔ مسجد میں یہ سب کچھ کرنا بہت بری بات ہے۔ نکاح کے لیے مساجد میں ضرور جائیں مگر نکاح پڑھوائیں اور گھر کی راہ لیں۔ وہاں جاتے ہوئے خواتین بڑی چادر اور سر پر دوپٹہ لیں جبکہ مرد بھی ٹوپی پہن کر جائیں۔ مسجد میں خاموشی اختیار کی جائے اور عبادت میں مشغول رہیں۔
کچھ عرصہ قبل ایک اداکارہ اور ایک گلوکار کی مسجد وزیر خان میں ایک وڈیو شوٹنگ پر بہت تنقید ہوئی تھی، اس سے بہت سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے تھے جبکہ پروڈکشن ٹیم سمیت ان پر مقدمہ بھی دائر ہوا تھا؛ تاہم یہ سلسلہ اب بھی رک نہیں رہا۔ اداکار ہوں یا گلوکار یا بلاگر اور ٹک ٹاکر‘ سب ایسی حرکتیں کر رہے ہیں۔ مساجد ہوں‘ مندر یا گرجا گھر اور گواردوارے‘ جس کا دل کرتا ہے فون نکال کر وڈیو بنانا شروع کردیتا ہے یا فوٹوگرافی کرنے لگتا ہے۔ بہت دل کررہا ہے تو ایک دو تصاویر لے کر کیمرہ بند کر کے رکھ دیں اور پھر عبادات پر توجہ مرکوز کریں۔ ایسی کوئی حرکت مت کریں جس سے نمازیوں اور عبادت گزار افراد کی عبادت میں خلل پڑے یا اس جگہ کا تقدس مجروح ہو۔ انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ اس ضمن میں اقدامات کرے کیونکہ مساجد کوئی تفریح گاہ نہیں ہیں۔ اگر یہاں نکاح ہورہے ہیں تو عوام کو پابند کریں کہ وہ نکاح کے فوراً بعد دو‘ تین تصاویر لینے کے بعد مسجد کا احاطہ خالی کر دیں گے۔ انتظامیہ کو سیاحوں پر سختی کرنی چاہیے تاکہ مذہبی مقامات کا احترام بحال ہو۔ مذہبی مقامات مسلمانوں کے ہوں‘ سکھوں کے‘ ہندوئوں کے یا عیسائیوں کے‘ سب کا احترام کریں، ایسی جگہوں پر مکمل لباس پہنیں اور سر کو ڈھانپ کر رکھیں، کوئی ایسی کوئی حرکت نہ کریں جس سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوں۔ فوٹوشوٹس کی اجازت صرف پارکس میں ہونی چاہیے۔ کیا پورے ملک کے پارکس ختم ہوگئے ہیں جو لوگ مذہبی جگہوں پر بھی یہ سب کچھ کرنا شروع ہوگئے ہیں؟ شاہ فیصل مسجد ، بادشاہی مسجد اور وزیر خان مسجد جیسی جگہیں کوئی پکنک پوائنٹ نہیں ہیں کہ یہاں پر پارٹی شروع کردی جائے۔ لوگ یہاں آتے ہیں اور پیچھے کچرا چھوڑ جاتے ہیں‘ بچا کھچا کھانا بھی یہیں پھینک جاتے ہیں۔ اس سے تعفن پھیلتا ہے اور نمازیوں کو دقت ہوتی ہے۔ کرتارپور میں جو ہوا‘ اس پر برانڈ اور ماڈل نے معافی مانگی ہے ، یقینا ماڈل کا فعل غیرذمہ دارنہ تھا اور انتظامیہ کو اسے روکنا چاہیے تھا؛ تاہم میری رائے میں اس کو کوئی سخت سزا نہیں دینی چاہیے ؛اس سے کمیونٹی سروس کرانی چاہیے اور تنبیہ کے بعد معاملہ رفع دفع کردینا چاہیے۔ البتہ مستقبل کے حوالے سے حکومت اور انتظامیہ کو ان جگہوں پر ڈسپلن کی پابندی یقینی بنانی چاہیے۔
گزشتہ دنوں ایک خاتون ایئرفورس کے میوزیم کے باہر شہدا کی یادگارپر ناچ کر ٹک ٹاک بنارہی تھی‘ اس وڈیو کو دیکھ کر شہدا کے لواحقین کو بہت تکلیف ہوئی، اس سے قبل اسلام آباد میں ایک متنازع فوٹو شوٹ ہوا تھا، انتظامیہ کو چاہیے کہ لوگوں کو ان چیزوں پر سزا دے اور جرمانہ عائد کرے جس سے ایسی جگہوں کا تقدس پامال ہوتا ہے۔ عوام کوبھی اپنے تعلیم یافتہ ہونے کا ثبوت دینا چاہیے اور اس چیز کا احساس کرنا چاہیے کہ آپ کی تفریح کسی کے لیے باعثِ زحمت تو نہیں بن رہی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved