تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     28-07-2013

عام آدمی کا فسانہ

آئیے، عام آدمی کی بات کریں۔ وہ عام آدمی جسے گنڈیریوں کی طرح چُوس کر پھینک دیا گیا ہے۔ حساب کتاب کے معاملے میں دُنیا بہت آگے جاچکی ہے مگر اب تک ماہرین وہ گِنتی رائج نہیں کر پائے جس میں عام آدمی پایا جاسکے۔ شمار کرنے کو بہت کچھ ہے اور قطاریں بھی بہت ہیں مگر عام آدمی بے چارا کسی قطار میں ہے نہ شمار میں۔ زندگی گزرتی ہے مگر یوں کہ اُس پر سے گزر جاتی ہے! اور زندگی کیا گزرتی ہے، قیامت ہی گزر جاتی ہے۔ انسانوں کی دنیا بھی عجیب ہے۔ تمام معاملات کا شعور ہے، عقل ہر جگہ کام کرتی ہے۔ ایک بس حقوق کا معاملہ ہے جس میں مَت ماری جاتی ہے یا اُسے مار ہی دیا جاتا ہے۔ حقوق دینے کا معاملہ ہو تو انسان کو اللہ کی طرف سے بخشا ہوا نیابت کا منصب راس نہیں آتا اور وہ جھٹ حیوانوں کو بھی شرمندہ کرنے والی سطح پر اُتر آتا ہے۔ اور اپنا حق وصول کرنے کا معاملہ ہو تو ایسی تیزی دکھاتا ہے کہ روشنی کی رفتار بھی دیکھے تو شرمسار ہو۔ عام آدمی کی بھی کیا زندگی ہے۔ یہ امر بھی غور طلب ہے کہ ایسے جینے کو زندگی قرار دیا جاسکتا ہے؟ غریب زندگی کیا گزارتا ہے، گویا سانسوں کی گنتی پوری کرتا ہے۔ گننے کے لیے عام آدمی کے پاس ارمانوں اور حسرتوں کی بھی کمی نہیں۔ اور داغ ہائے دل بھی تو ہیں۔ جب اِتنی ’’مصروفیت‘‘ ہو تو کِسی اور کام میں کیا جی لگے اور اُس کے لیے کہاں سے وقت آئے یا نکل پائے؟ دیوار اینٹوں سے بنتی ہے۔ ایک ایک اینٹ پوری احتیاط اور توازن سے رکھی جاتی ہے تاکہ دیوار ٹیڑھی نہ ہو، سیدھی اُٹھے اور ثریّا تک سیدھی ہی جائے۔ ایسا بے وقوف کون ہوگا جو دیوار میں کہیں سے بھی دو چار اینٹیں نکالنے کا سوچے گا؟ دیوار گر پڑے گی نا! عقل یہی کہتی ہے کہ بگاڑ کو روکنے کا پہلے سے اہتمام کئے بغیر دیوار سے کوئی اینٹ نہ نکالی جائے۔ حسرت سی ہے کہ جتنی توجہ اینٹ اور دیوار کے معاملے پر دی جاتی ہے کاش اُتنی ہی توجہ عام آدمی اور معاشرے کے تعلق پر بھی دی جائے۔ معاشرہ ایک دیوار ہے جس میں عام آدمی اینٹ کا کردار پوری ایمانداری سے اور کماحقہ ادا کر رہا ہے۔ اُسے ستائش کی آرزو ہے مگر ہائے ری بے حِسی اور عدمِ تشکر کہ اِس زندہ اینٹ سے مستفید ہونے والے اُس کا احسان ماننے اور اُسے کریڈٹ دینے کو تیار نہیں۔ دیوار سے اینٹ نکالنے کی کوشش کیجیے تو لوگ روکتے اور ٹوکتے ہیں کہ کہیں دیوار گر نہ پڑے۔ مگر اِس زندہ اینٹ کو معاشرے کی دیوار سے نکال کر پھینکنے کے عمل پر کوئی روکتا ہے نہ ٹوکتا ہے۔ اِس دِل خراش حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اینٹ کی تیاری میں استعمال ہونے والی ریت اور روڑوں کی کچھ وقعت ہو تو ہو، عام آدمی اِتنی حیثیت کے لیے بھی ترستا ہے۔ معاشرے کی دیواریں کمزور پڑتی ہیں تو پڑا کریں۔ کِسے پروا ہے، کون سوچتا ہے؟ زندگی ایک بار ملتی ہے۔ ہم سبھی اِس عقیدے کی بنیاد پر سانس لیتے ہیں مگر کبھی ہم نے سوچا ہے کہ عام آدمی کتنی بار مرتا اور کتنی بار جیتا ہے؟ قدم قدم پر موت اُس کے استقبال کے لیے کھڑی ہوتی ہے مگر وہ کمال ہوشیاری سے جھکائی دے کر نکل جاتا اور نئی زندگی پاتا ہے۔ بچ نکلنے میں کامیاب ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرنے ہی میں اُس کی زندگی بسر ہوتی ہے۔ عام آدمی کو شکر گزار بنانے میں ہماری حکومتوں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ وہ قدم قدم پر ایسے حالات پیدا کرتی ہیں جن کے دام میں آنے سے بچنے کی کوشش ہی سے عام آدمی کی رگوں میں لہو گرم رہتا ہے۔ یعنی لہو گرم رکھنے کے بہانے قدم قدم پر بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ بھی حکومتوں کی مہربانی ہے کہ عام آدمی کی رگوں میں جو خون بچا ہی نہیں اُسے بھی گرم رکھنے کا سامان کرتی رہتی ہیں۔ عام آدمی کو اپنے مقدر پر ناز کرنا چاہیے کہ اُس کے لیے قدم قدم پر حالات کی للکار ہے۔ مشکلات سے بچنے کی کوشش ہی اُسے مہم جُو بنائے ہوئے ہے۔ ہماری حکومتیں جس طرح کے حالات پیدا کرتی رہتی ہیں اُن کی دست بُرد میں آنے سے بچنے کے لیے اب انسان کو مہم جُو ہونا ہی چاہیے! لیجیے، جس مہم جُوئی کے لیے لوگ سلسلۂ ہمالیہ کی چوٹیاں سَر کرنے کو سرگرداں رہتے ہیں وہ ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ، بلکہ خاصہ ہوئی۔ عام آدمی مہم جُو نہیں تو اور کیا ہے؟ زندگی بھر مخدوش حالات کی چوٹیاں ہی تو سَر کرتا رہتا ہے۔ حکمرانوں سے سماجی کارکن تک سبھی عام آدمی کو نحیف و ناتواں گردانتے ہوئے اُس کے حقوق کے لیے گریہ کُناں دکھائی دیتے ہیں۔ مگر یہ مگرمچھ کے آنسو ہیں۔ عام آدمی کمزور ہے؟ کہاں ہے کمزوری؟ جس ضعف اور بے کسی کا رونا رات دن رویا جاتا ہے وہ تو اُس میں پائی ہی نہیں جاتی۔ حکومتیں عام آدمی کو رات دن نشانے پر لیے رہتی ہیں۔ اِس کا سیدھا اور سادہ مفہوم اِس کے سِوا کیا ہے کہ حکومتیں اُسے طاقتور گردانتی ہیں؟ اقدامات پر اقدامات ہو رہے ہیں کہ عام آدمی ڈھنگ سے جی نہ سکے، سَر نہ اُٹھاسکے، بول نہ سکے، مانگ نہ سکے، چھین نہ سکے‘ یعنی حکومتوں کو اب بھی یقین ہے کہ ادھ موؤں کی طرح جینے اور زندگی کے نام پر چند اُکھڑی ہوئی سانسوں کو زہر مار کرنے والا عام آدمی موقع ملتے ہی کِسی بھی ساعت اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر ’’سِسٹم‘‘ کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ کمال دیکھیے کہ جس کی ناتوانی پر خود ناتوانی بھی شرمندہ ہو اُس سے خطرات لاحق ہیں۔ کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے جسے جلا ڈالا ہے اُسی کے خاکستر سے ڈر لگ رہا ہے۔ سبحان اللہ! یہ رُتبۂ بلند مِلا جس کو مِل گیا عام آدمی اپنے رُتبے کو سمجھ لے تو خوشی کے مارے (مزید) پاگل ہو جائے۔ ہارے ہوؤں کو ہرانے کے منصوبے تیار کئے جاتے ہیں۔ حکومتیں باؤلی ہوئی جاتی ہیں کہ عام آدمی کو کِس طور پکڑ کر، جکڑ کر رکھا جائے تاکہ وہ خطرہ نہ بن سکے۔ اب سوال یہ رہتا ہے کہ بے چارا عام آدمی کرے تو کیا کرے۔ اُس کا زندہ رہنا زندگی پر الزام سا ہے۔ دعوے کئے جاتے ہیں کہ اُس کے مفاد کو ہر حال میں ترجیح دی جائے گی، ہر شے پر مقدم رکھا جائے گا‘ مگر پھر پتا چلتا ہے کہ بڑی بڑی باتیں بھی آخر باتیں ہی تو ہیں۔ حکومتوں کے وعدوں اور دعووں میں کیا ہے؟ صرف جذبات ہیں، جذبات میں کیا رَکّھا ہے؟ اقبالؔ نے کہا تھا شیرازہ ہوا ملّتِ مرحوم کا ابتر اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کِدھر جائے؟ عام آدمی کا بھی کچھ ایسا ہی فسانہ ہے۔ جائے تو کہاں جائے؟ فریاد کرے تو کِس سے کرے؟ داد پائے تو کِس سے پائے؟ حادثے میں مر جائے تو دو تین لاکھ کی امداد۔ بس یہی وقعت رہ گئی ہے۔ اور کہیں کہیں تو اِتنا بھی نہیں۔ عام آدمی کو یہ بات کون سمجھائے کہ کہیں سے کوئی نہیں آئے گا؟ کوئی نجات دہندہ یا مسیحا اب مقدر میں نہیں۔ جو کرنا ہے خود کرنا ہے۔ اپنے ہی زورِ بازو کو آزمانا ہے۔ مگر اِس سے بہت پہلے زورِ بازو پیدا بھی کرنا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved