اسلام آباد کی ایک اداس ڈھلتی شام جب بہت سارے چہروں پر پھیلی افسردگی کے درمیان ضیاالدین صاحب کو قبر میں اتارا جارہاتھا تو مجھے جولائی 1998ء کی ایک صبح یاد آئی جب میں پوری رات ملتان سے بس کا سفر کر کے زیرو پوائنٹ پر ڈان کے دفتر میں بیٹھا ان کا انتظار کررہا تھا۔
عجیب سا خوف تھا جس کی گرفت مجھے محسوس ہورہی تھی۔ بے یقینی کی سی صورتحال۔ دفتر میں صبح صبح کوئی نہیں تھا‘صرف صفائی والے لڑکے موجود تھے‘ بتایا کہ ڈان ملتان سے آیا ہوں اور ضیاالدین صاحب سے ملنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ تو دفتر گیارہ بجے تک ہی آئیں گے۔ اس وقت صبح کے شاید سات‘ آٹھ بج رہے تھے۔ اسلام آباد شہر میں کوئی واقف بھی نہیں تھا کہ جس کے پاس جا کر تین گھنٹے گزار لیتا۔ بیورو آفس کی صفائی کرتے کسی لڑکے کو پتا نہیں کیا خیال آیا‘ یا میری شکل دیکھ کر اسے ترس آگیا کہ کہیں سے وہ چائے کی پیالی میرے آگے رکھ گیا۔ میں نے شکریہ ادا کیا تو وہ مسکرا پڑا۔ آج برسوں بعد بھی اس کی وہ مہربان مسکراہٹ یاد ہے۔
میں ضیاالدین صاحب سے کبھی نہیں ملا تھا۔ ان کی خبروں اور سیاسی تبصروں کو پڑھتا تھا اور میرے لیے ان کا امیج ایک سخت اور کم گو صحافی کا تھا۔ اب مجھے پتا نہیں تھا کہ وہ مجھے مل کر کیا ردعمل دیتے ہیں۔ ان کا رویہ میرے جیسے ایک دور دراز سے آئے ضلعی نمائندے کے ساتھ کیا ہو گا؟ کہاں ملتان اور کہاں اسلام آباد۔
اس وقت میں اگر صبح سویرے یہاں دفتر بیٹھا ضیاصاحب کا انتظار کررہا تھا تواس کی وجہ کل کا ایک ایسا واقعہ تھا جس نے میری ایک لمحے میں زندگی بدل دی تھی۔ایک ایسا فیصلہ ہوا جس کا مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا۔ڈان ملتان میں مجھے رپورٹنگ کرتے دو برس ہوگئے تھے۔ لاہورکے ریذیڈنٹ ایڈیٹر طاہر مرزا مجھ سے زیادہ خوش نہ تھے؛ تاہم نیوز روم میں عمران اکرم صاحب‘ امجد صاحب اور شیخ عمران مہربانی کر کے مجھے چلائے ہوئے تھے۔ایک دن عمران اکرم نے مجھے کہا: اسلام آباد میں ایک رپورٹر کی سیٹ خالی ہے کوشش کر کے دیکھو اگر تمہارا تکا لگ جائے۔ انہوں نے کچھ اشارے دیے کہ طاہر مرزا کسی دن مجھے شاید نکال ہی دیں۔ عمران اکرم نے ہمیشہ بڑی سپورٹ دی‘ میری نوکری بچائے رکھی۔ کہنے لگے: لیکن فیصلہ کراچی میں احمد علی خان صاحب نے کرنا ہے۔وہ اس وقت تک غور نہیں کریں گے جب تک طاہر مرزا آپ کی درخواست انہیں نہیں بھیجیں گے اور وہ تو آپ کو نکالنے پر تلے ہوئے ہیں‘ بہرحال آپ دیکھ لیں۔
میں نے عمران اکرم کا شکریہ ادا کیا۔ پتا نہیں کیا دل میں سمائی‘ اللہ کا نام لے کر احمد علی خان صاحب کے نام درخواست ٹائپ رائٹر پر ٹائپ کی۔ کراچی دفتر فون کیا‘ان کے سیکرٹری کو بتایا کہ میں درخواست بھیجنا چاہتا ہوں کہ مجھے اسلام آباد بھیج دیں۔وہ حیران ہوا اور بولا: رئوف صاحب اتفاق دیکھیں کہ آج ہی خان صاحب نے فیصلہ کرنا ہے۔ کچھ آٹھ‘ دس رپورٹرز پہلے ہی درخواستیں لاہور‘کراچی سے بھیج چکے ہیں۔ مجھ سے پوچھا کہ آپ کی درخواست طاہر مرزا صاحب نے ریکمنڈ کی ہے کیونکہ ملتان براہِ راست لاہور کے نیچے آتا ہے؟میں نے کہا: نہیں سر! وہ مزید حیران ہوئے اور بولے: آپ ایسا نہ کریں‘ ڈان کا اپنا کلچر ہے‘ یہاں اس طرح کام نہیں ہوتے۔ جب تک طاہر مرزا آپ کی درخواست نہیں بھیجیں گے‘ آپ کی درخواست اس فائل میں نہیں لگائی جا سکتی۔ اگر طاہر مرزا کو پتا چل گیا تو وہ آپ کو فوراً برطرف کر دیں گے۔ خان صاحب بھی ان کی سفارش کے بغیر نہیں کریں گے۔میں نے کہا: سر جی میری تو کوئی سفارش نہیں کہ طاہر مرزا میرا کام کریں۔ احمد علی خان صاحب تک اپروچ کرنا تو میرے بس میں نہیں۔ وہ بولے: پھر آپ درخواست نہ بھیجیں۔ پھر کہا: وہ فائل میرے سامنے پڑی ہے‘ تھوڑی دیر تک خان صاحب آرہے ہیں اور کسی ایک رپورٹر کو اسلام آباد بھیج دیا جائے گا۔میں نے کہا: سر جی آپ سے ایک ریکوسٹ ہے‘ میں آپ کو فیکس کررہا ہوں آپ اس درخواست کو بھی اس فائل میں دیگر درخواستوں کے ساتھ رکھ دیں۔ بے شک سب سے نیچے رکھ دیں۔ سیکرٹری صاحب کا قہقہہ ابھرا اور مجھے کہا: آپ کے اس اعتماد نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ آپ لاہور ایڈیٹر طاہر مرزا کو بائی پاس کر کے احمد علی خان صاحب کو اپروچ کررہے ہیں۔میں نے کہا: سرجی ریکوسٹ ہے‘ باقی آپ کی مرضی۔ ایک لمحے کے لیے فون پر خاموشی چھا گئی۔ کچھ دیر بعد ان کی آواز دوبارہ ابھری اور ایک گہرا سانس لیا اور کہا: اوکے رئوف صاحب! مجھے فیکس کردیں۔ یہ بہت رسکی کام ہے۔ آپ کی نوکری بھی جاسکتی ہے۔ میں نے کہا: سر جی اللہ مالک ہے‘ دیکھا جائے گا۔ آپ اسے بھی فائل میں رکھ دیں۔
میں نے فیکس کر دی۔ اب میں نے درخواست بھیج تو دی تھی لیکن انجانے خوف نے جکڑ لیا کہ یہ میں نے کیا حرکت کی ہے۔ بھلا کیسے طاہر مرزا کو بائی پاس کر کے میں اسلام آباد جا سکتا تھا اور میرے چانسز ہی کتنے تھے کہ لاہور اور کراچی کے اچھے اچھے رپورٹرز پہلے ہی اپنے اپنے ایڈیٹرز سے ریکمنڈ ہو چکے تھے۔ اب مجھے خود پر غصہ آنا شروع ہوگیا کہ بیٹھے بٹھائے خود کو نئی مصیبت میں ڈال دیا۔ چلیں کچھ نہ کچھ تو ڈان ملتان میں کام چل رہا تھا‘ کچھ رپورٹنگ ہورہی تھی‘ لیکن پھر خود کو تسلی دی کہ جلد یا بدیر طاہر مرزا نے مجھے نکال دینا تھا کیونکہ وہ میری فائل کی ہوئی سٹوریز اور سکینڈلز سے تنگ تھے۔ وہ مختلف قسم کے ایڈیٹر تھے‘ جو سکینڈلز کو پسند نہ کرتے تھے۔ وہ چڑ جاتے اور کہتے :بھائی ایشوز پر لکھا کرو۔ میں جواب دیتا : سر ایشوز بھی تو لوگوں کے بارے میں ہوتے ہیں۔ ان کا نام اور کارنامے بھی سامنے آئیں گے۔ انہوں نے کئی دفعہ مجھے جھاڑا۔
اب میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ میرا کیا انجام ہونے والا ہے۔ ڈان کی نوکری بڑی مشکلوں سے ملی تھی۔ وہ بھی اللہ بھلا کرے‘ ظفر اقبال مرزا صاحب کا جنہیں سب ZIM کہتے تھے‘جنہوں نے دو سال قبل طاہر مرزا کے کمرے سے نکلتے وقت میرا اترا منہ دیکھ کر اپنے کمرے میں بلا کر تین ماہ کا لیٹر لکھ کر دیا کہ ملتان سے رپورٹنگ کرو اور تین ماہ بعد میرے کام سے مطمئن ہوکر جاری رکھنے کو کہا تھا۔پھر سوچا شاید ٹھیک ہی کیا۔
اتنی دیر میں اچانک دفتر کے فون کی گھنٹی بجی۔ میں اپنے خیالوں میں اتنا گم تھا کہ مجھ لگا جیسے کوئی بم پھٹا ہو۔میں نے ڈرتے ڈرتے فون کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ دوسری طرف سے کراچی دفتر سے احمد علی خان صاحب کے سیکرٹری کی آواز تھی۔ آواز میں سنجیدگی تھی۔ مجھے لگا اب خان صاحب میری کلاس لیں گے کہ میں نے ڈان کی روایت کے برعکس یہ کیا حرکت کی اور یہ کہ وہ مجھے برطرف کررہے تھے۔سیکرٹری بولے: آپ ہولڈ کریں‘ احمد علی خان صاحب آپ سے بات کریں گے۔میری حالت یہ ہوگئی کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ سُن ہو کر بیٹھا رہا۔ مجھے لگا کہ یہ نوکری بھی گئی۔ خان صاحب کا صحافت کی دنیا میں بڑا نام تھا۔ بہت بڑے ایڈیٹر تھے جن سے وزیر اور حکومتیں تک ڈرتی تھیں۔ ان کا بڑا رعب‘ دبدبہ تھا۔ مجھے لگا کہ میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور ریسیور ہاتھ سے چھوٹ جائے گا۔
دوسری طرف سے ایک میٹھی اور پیاری آواز ابھری۔ رئوف صاحب میں احمد علی خان بول رہا ہوں۔(جاری)