تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     03-12-2021

18کروڑ 70لاکھ انسان اور دو انجان …(3)

یہ ہے گیمبیا کا صدارتی الیکشن جہاں گزشتہ60سال سے ٹیکنالوجی کے مخالفوں نے الیکٹورل پراسیس کو ٹرانسپیرنٹ بنانے کے لئے ڈرم خرید رکھا ہے۔اصرار اس بات پر ہے کہ عہدہِ صدارت کی شان کو بڑھانے کا ایک ہی طریقہ ہے‘ اپنی روایت سے دور نہ ہوں۔پھر کانچ کے کنچے منگوا کر انہیں بطورووٹ ڈرم میں ڈال کر ووٹ کو عزت دی گئی۔اپنے ہاں بھی کچھ خواتین و حضرات ذاتی زندگی میں ٹیکنالوجی کے علاوہ سانس بھی نہیں لے سکتے لیکن اجتماعی زندگی میں دھاندلی کے خاتمے کے لئے ٹیکنالوجی سے شدید نفرت کرتے ہیں۔
نفرت سے یاد آیا کہ اس طبقۂ خیال کے لوگوں کی وڈیوز دیکھیں‘اُن میں تبدیلی کے جو جمہوری طریقے وہ اپنی قوم کے لئے تجویز کررہے ہیں وہ بھی سال 2021میں اُن عین جمہوری طریقوں میں سر پھوڑنا‘ بڑے پیمانے پر آگ‘گھیرائو اور زور زبردستی سے منتخب حکومت کو وقت سے پہلے گھر بھجوانے کی کھلم کھلا ترغیب جیسے اقدامات شامل ہیں اور یہ سب کچھ کرنے کے لئے بھی ان عظیم جمہوریت پسندوں نے یہ باتیں کوہِ ندا پر چڑھ کر نہیں کیں بلکہ فروغِ وائلنس کے لئے وڈیو ریکارڈنگ اور سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کا ہی استعمال کیا ہے۔ان کے خیال میں اگر کسی چیز سے اُن کے ووٹ کی عزت کو خطرہ ہے تو وہ انٹرنیٹ ووٹنگ ہے یا پھر الیکٹرانک ووٹنگ مشین۔
اس وقت پاکستان کی 54 فیصد آبادی کو انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے۔ان میں سے 66 فیصد انٹرنیٹ یوزرز شہروں سے جبکہ 47 فیصد انٹرنیٹ استعمال کرنے والی آبادی دیہات میں رہتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی جدید ٹیکنالوجی کے تمام عالمی ذرائع پاکستان کے کونے کونے میں استعمال ہورہے ہیں۔سال 2021اکتوبر کے مہینے تک کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں 4کروڑ 69لاکھ سے زیادہ لوگ فیس بک کا استعمال کرتے ہیں۔اس تعداد میں‘ ہر مہینے اور ہر ہفتے نہیں‘ بلکہ ہر دن اور ہر گھنٹے میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا جارہاہے۔
یہ وکالت نامہ 3دسمبر کو آپ کے ہاتھ میں پہنچے گا‘اس لئے اب سال 2021ء کو تقریباً گزشتہ کہا جاسکتا ہے۔اسی سال جنوری تک پاکستان میں انسٹاگرام استعمال کرنے والے شہریوں کی تعداد1کروڑ 7لاکھ 87 ہزار سے زیادہ ریکارڈ کی گئی۔اس میں اضافہ بھی روز افزوں ہے۔ ٹویٹر اکائونٹس کے ذریعے سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد پاکستان کی کل آبادی کے 8.59فیصد لوگ بتائے جا رہے ہیں۔یہ ہمارے 1کروڑ 88 لاکھ98 ہزار ووٹرز بنتے ہیں۔ٹویٹر اکائونٹ نسبتاً ایلیٹ طبقے کی دنیا سمجھی جاتی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق اپریل 2021ء میں پاکستان کے تمام رجسٹرڈ ووٹرز کی جو تعداد ریلیز کی گئی اُس کے مطابق پورے ملک سے 11کروڑ 82لاکھ 24ہزار 697 ووٹرزہیں جن میں سے مرد ووٹرز کی تعداد 6کروڑ 53 لاکھ 73ہزار 500 بتائی جارہی ہے جبکہ خواتین کے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد مردوں سے کم یعنی 5کروڑ 29لاکھ23ہزار 962بتائی گئی ہے۔اس وقت ہمارے پاس ای بینکنگ استعمال کی سہولت رکھنے اور استعمال کرنے والے سارے خواتین و حضرات کا ڈیٹا موجود نہیں ہے۔نہ ہی آن لائن ایجوکیشن یا مختلف انٹرنیٹ سائٹس پر فری لانس جاب یا کاروبار کرنے والوں کا ڈیٹا۔اس کے باوجود ہم اس سلسلے کے پہلے وکالت نامہ کے پہلے پیراگراف میں پڑھ چکے ہیں کہ ملک میں سیلولر سبسکرائبرز کی تعداد18کروڑ 70لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔اس تفصیل کو جس طریقے سے مرضی دیکھیں اور اس کا تجزیہ کرلیں۔ایک بات طے ہے کہ ہمارے ملک میں ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے والے خواتین و حضرات کی تعداد ملک میں رجسٹر ووٹرز کی تعدا د سے کہیں زیادہ ہے۔آپ ابھی باہر تشریف لے جائیں‘آپ کو جاروب کش سے لے کر سڑک پر بیٹھے مزدور تک‘کھیت میں کام کرنے والے کسان سے بھٹے پر اینٹیں تھاپنے والے تک‘ ہر کسی کے پاس موبائل نظر آئے گا۔پٹرول کی مہنگائی کے باوجود پورے ملک کے ہر چوک‘ سڑک میں اس قدر ٹریفک ہے کہ پانچ منٹ کا سفر 25منٹ میں طے ہوتا ہے۔ٹیکنالوجی کے استعمال کا Craze‘اسے ہم نے اردو میں پاگل پن جان کر نہیں لکھا‘اس قدر ہوگیا ہے کہ شاید ہی کوئی اب ایسا موٹر سائیکل سوار‘ چنگ چی ڈرائیور‘کار ڈرائیور یا کوئی اور ڈرائیور ایسا نظر آجائے جس کا ایک ہاتھ ڈرائیونگ پر اور دوسرے ہاتھ سے موبائل کان کے ساتھ جڑ اہوا نظر نہ آئے۔
ایسے میں اگر کوئی سربراہ حکومت یا کسی سیاسی پارٹی کی کوئی سربراہ الیکشن میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے خلاف یہاں تک پہنچ جائے کہ اسے کہنا پڑے‘مجھے وٹس ایپ استعمال کرنا نہیں آتا اور پھر اس کی وڈیو وائرل ہوجائے تو ہمیں سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں واقع سَرن کے ادارے میں جانا ہوگا۔یہ ادارہEuropean Organization fo Nuclear Research کہلاتا ہے جہاں 17دسمبر 2019ء کے دن ایک تحقیقی مباحثہ ہوا۔جس کے لیڈ سپیکر TEDx Talksمیں ڈیٹا سائنٹسٹ اور انویسٹر مسٹر Sinan Aralنے بہت چشم کشا گفتگو کی۔ایسی گفتگو جسے سننے والے حیرانیوں کے سمندروں میں اُترتے گئے۔یہ گفتگو جھوٹ بولنے والوں‘جھوٹ ریکارڈ کرنے والوں اور جھوٹ لیک کرنے والوں کے بارے میں ہے۔آئیے اُس کے کچھ اہم حصے‘جو اس وقت گلوبل ویلیج کے ہر کونے میں بحث کا موضوع ہیں‘یہاں شیئر کرلیتے ہیں۔
پہلا حصہ :ڈیٹا کی دنیا کے ممتاز سائنسدان مسٹر سینان ایرال نے کہا ''فیک نیوز‘فیک وڈیو اور فیک آڈیو کے عروج کے ساتھ ہم حقیقت کی کھائی کے کنارے پر کھڑے ہیں۔یہ وہ جگہ ہے جہاں پہنچ کر ہم اصل اور فیک کے درمیان کا فرق نہیں بتا سکتے۔یہ ہمارے معاشروں اور ٹروتھ کے لئے ایک بہت خطرناک منزل ہے‘‘۔مسٹر سینان ایرال نے 23اپریل2013ء کے دن کا خاص طور پر ذکر کیا جس دن یو ایس اے کے سب سے بڑے خبر رساں ادارے ہونے کے دعویدار کے ٹویٹر اکائونٹ پر ایک دھماکا خیز ٹویٹ اس خبر کے ساتھ جاری ہوئی''بریکنگ نیوز:وائٹ ہائوس میں دو دھماکے ہوئے‘جس میں صدر اوباما زخمی ہوگئے‘‘۔اس ٹویٹ کے سامنے آنے کے پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں اسے چارہزار سے زیادہ دفعہ ری ٹویٹ کردیا گیا جس کے بعد یہ ٹویٹ وائرل ہوگئی۔حقیقت میں یہ بریکنگ نیو ز متعلقہ پریس کی اپنی ٹویٹ نہیں تھی بلکہ یہ فیک نیوز تھی‘ جو شامی ہیکرز نے متعلقہ پریس کے ٹویٹر اکائونٹ کو ہیک کرنے کے بعد وہاں اسے بطور پروپیگنڈا پوسٹ کر دیا تھا۔ان کا مقصد سوسائٹی اور اکانومی میں افراتفری پھیلانا تھاجس میں انہیں ٹارگٹ سے کہیں زیادہ افراتفری پھیلانے کا موقع مل گیا۔وہ اس لئے کہ آٹومیٹڈ ٹریڈ نگ ایلگوریتھمز نے Market Sentimentسے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس پوٹینشل پر ٹریڈنگ شروع کی کہ متحدہ امریکہ کا صدر زخمی ہوگیا ہے یا نہیں؟ جیسے جیسے انہوں نے ٹویٹ کی ویسے ہی فوراً سٹاک مارکیٹ کریش ہوتی گئی جس کے نتیجے میں 140ارب یو ایس ڈالر کی ایکویٹی ویلیوز کا ایک دن میں صفایا ہوگیا۔
اب ذار چلئے آکسفرڈ یونیورسٹی کی ایک سٹڈی کی جانب جس سے یہ ظاہر ہوا کہ صرف سوئیڈش الیکشن میں سوشل میڈیا پر الیکشن سے متعلق پھیلنے والی تقریباً آدھی کے قریب معلومات فیک تھیں۔(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved