تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     04-12-2021

احمد علی خان سے ضیاالدین تک… (2)

احمد علی خان صاحب بول رہے تھے اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ کہاں اتنے بڑے اخبار میں ایک معمولی سا نمائندہ جس کو کوئی بھی نہیں جانتا تھا اور کہاں چیف ایڈیٹر‘ جو خود فون اسے کر رہا تھا۔
میں نے اپنے حواس مجتمع کیے‘ خود کو کچھ سنبھالا اور توجہ سے سننے کی کوشش کی کہ میرے مستقبل کا کیا فیصلہ ہوا تھا۔
میری قسمت مجھے آگے لے کر جا رہی تھی یا میں 'ڈان‘ ملتان کی عارضی نوکری سے بھی برطرف کیا جارہا تھا‘ اور چند لمحوں بعد بیروزگار ہو کر میں نے کوئی نئی نوکری ڈھونڈنا تھی یا پھر گائوں لوٹ جانا تھا‘ جہاں سے برسوں پہلے اپنا سفر شروع کیا تھا‘ اور زمینوں پر کاشت کاری کرنا تھی۔
میرے خوف کی وجہ وہی تھی کہ اس وقت تک اس اخبار کی تقریباً پچاس سالہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا تھا کہ ایک دور دراز علاقے کے ایک نمائندے نے براہ راست چیف ایڈیٹر کو درخواست بھیج دی تھی کہ لاہور‘ کراچی کے رپورٹرز چھوڑ کر اسے اسلام آباد بھیج دیا جائے۔ سونے پر سہاگا یہ ہوا تھا کہ لاہور کے ایڈیٹر طاہر مرزا مجھے سخت ناپسند کرتے تھے‘ ان کی سفارش بھی نہیں تھی۔ طاہر مرزا صاحب کو روز میرے خلاف شکایتیں ملتی تھیں کہ یہ سکینڈل فائل کرتا ہے۔ ایک دفعہ ملتان یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے شکایت کی تو ڈانٹ پڑی۔ اس اخبار میں سکینڈلز کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی‘ یہ کلچر وہاں نہ تھا‘ بلکہ مجھے یاد ہے میں نے اس وقت بھی یعنی 1998 میں جہانگیر ترین کے خلاف خبریں فائل کی تھیں۔ وہ اس وقت شہباز شریف کی زرعی ٹاسک فورس کے سربراہ تھے۔ ترین صاحب نے فون کر کے شکایت کی تو مرزا صاحب نے ایک طرف مجھے ڈانٹا اور دوسری جانب نیوز روم کو کہہ دیا کہ اس کی خبریں نہ چھاپیں‘ صرف ملتان ڈیٹ لائن ویکلی چھاپا کریں۔ مرزا صاحب صحافیوں کی اس ایڈیٹر کلاس سے تعلق رکھتے تھے جنہیں کوئی بھی بڑا آدمی فون کر دیتا تو وہ رپورٹر کی بات سننے کے بجائے اسے سیدھے قصوروار سمجھ کر اس بڑے آدمی کو خوش کرتے۔ مرزا صاحب نے اس وقت تک فیلڈ رپورٹنگ نہیں کی تھی لہٰذا نیوز روم کے بندے تھے۔ رپورٹنگ اور نیوز روم کے مابین ہمیشہ ایک سرد جنگ جاری رہتی ہے۔ طاہر مرزا صاحب کلچرل اور ادبی سرگرمیوں یا پریس ریلیز جرنلزم کے قائل تھے جبکہ مجھے شروع سے ہی سکینڈل ڈھونڈ رہے ہوتے تھے کہ ہمیں اخبار میں فائل کرو۔ اس وجہ سے آج تک بہت مشکلیں بھی دیکھیں، عدالتوں کے چکر کاٹے، پیمرا میں درجنوں پیشیاں بھگتیں بلکہ کم و بیش پچاس کے قریب لیگل نوٹس موصول ہوئے۔ اللہ کا شکر کہ اس نے ہمیشہ سرخرو کیا۔
اس لیے اس اخبار کے کلچر کو سامنے رکھتے ہوئے جہاں عہدوں کو بائی پاس کرنے کا تصور نہ تھا، وہیں میرا ملتان بیٹھ کر ایک معمولی نامہ نگار کی حیثیت سے طاہر مرزا کو بائی پاس کر کے احمد علی خان صاحب کو براہ راست لکھنا یقینا ایک ایسی بغاوت تھی‘ جس کی معافی کا تصور ہی مشکل تھا۔ جن دوستوں نے 'ڈان‘ میں کام کیا ہے وہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں‘ میں کیا کہہ رہا ہوں۔
خیر خان صاحب (احمد علی خان) بولے: رئوف صاحب، میں نے آپ کی درخواست منظور کر لی ہے۔ آپ کے تبادلے کا آرڈر بھی جاری کر دیا ہے‘ ابھی آپ کو فیکس ہو جائے گا‘ میری اسلام آباد کے بیوروچیف ضیاالدین صاحب سے بات بھی ہوگئی ہے‘ آپ جب بھی اسلام آباد جوائن کرنا چاہیں کر سکتے ہیں‘ میرا خیال ہے بہتر ہوگا آپ جا کر ضیاالدین صاحب کو مل لیں تاکہ انہیں یہ محسوس نہ ہو کہ اس فیصلے میں وہ شامل نہیں‘ وہ یقینا اس فیصلے کی توقع نہیں کر رہے ہوں گے کہ لاہور‘ کراچی کے رپورٹرز چھوڑ کر اسلام آباد جیسے اہم سٹیشن کے لیے ملتان کے نامہ نگار کو بھیجا جا رہا ہے‘ ضیاالدین صاحب بہترین انسان اور پروفیشنل ہیں‘ امید ہے آپ کو وہ پسند کریں گے‘ مجھے بتا رہے تھے کہ وہ بھی آپ کی ملتان سے خبریں پڑھتے رہتے ہیں‘ میں آپ کی ملتان سے خبریں اور ڈیٹ لائن دو سال سے پڑھ رہا ہوں‘ آپ نے ملتان اور سرائیکی علاقوں کے ایشوز پر اچھا لکھا ہے‘ آپ نے سائوتھ میں ہیومن رائٹس زیادتیوں پر اچھی سٹوریز فائل کی ہیں‘ زراعت اور کسانوں کو آپ نے آواز دی ہے‘ اس لیے جب میں نے ابھی اس فائل میں موجود سب رپورٹرز کے سی وی پڑھنے شروع کیے جن میں سے ایک رپورٹر اسلام آباد جانا تھا تو آپ کی درخواست ساتھ کوئی سی وی نہیں تھا‘ آپ کی کوئی ریکمنڈیشن نہ تھی‘ لیکن آپ کی خبریں مجھے یاد تھیں‘ آپ سمجھے ہوں گے کہ آپ کی خبریں ضائع جا رہی ہیں‘ ایسا نہیں تھا‘ وہ رجسٹرڈ ہو رہی تھیں اور وہی آپ کی سی وی بنی ہیں‘ اگرچہ آپ کی درخواست اس فائل میں سب سے نیچے رکھی تھی‘ میں کچھ حیران ہوا کیونکہ آپ کی درخواست پر طاہر مرزا صاحب کی ریکمنڈیشن نہ تھی‘ طاہر مرزا صاحب پہلے ہی دو تین رپورٹرز ریکمنڈ کر چکے تھے۔
خان صاحب کچھ رکے اور پھر بولے: لیکن اس میں ایک مسئلہ ہے۔
میرا سانس جیسے رک گیا ہو کہ ساحل کے اتنے قریب آ کر قسمت پھر دھوکا دینے والی ہے۔
خان صاحب بولے: باقی تو ٹھیک ہے لیکن طاہر مرزا صاحب بہت ناراض ہوں گے کہ لاہور کے ایڈیٹر کی ریکمنڈیشن کے بغیر آپ کا تبادلہ کیسے کر دیا گیا ہے‘ خیر ان کی بات ٹھیک ہے کہ پروسیس فالو ہو‘ لیکن وہ اچھے بندے ہیں‘ میں ان سے آپ کی وجہ سے معذرت کر لوں گا‘ ان سے ریکویسٹ کر لوں گا‘ انہیں منا لوں گا۔
خان صاحب پھر بولے: آپ کو پتہ ہے آپ کو کیوں اسلام آباد بھیج رہا ہوں؟
میں خاموش رہا۔
خان صاحب نے وقفہ لیا اور بولے: دراصل لاہور اور کراچی والے رپورٹرز کو پہلے ہی اچھے مواقع ملے ہوئے ہیں‘ وہ بڑے شہروں میں رپورٹنگ کر رہے ہیں‘ لیکن سائوتھ اور سرائیکی علاقے والوں کو یہ مواقع نہیں ملتے کہ وہ بڑے شہر جا کر جرنلزم کریں‘ میں یہ موقع آپ کو دینا چاہتا ہوں‘ مجھے یقین ہے‘ آپ اسلام آباد جا کر اپنی جگہ بنائیں گے‘ اسی طرح وہاں بھی کسانوں کی آواز بنیں‘ غریبوں اور کمزور لوگوں کی آواز بنیں۔
خان صاحب بولتے رہے: ہاں‘ میں نے آپ کی تنخواہ بھی بڑھا دی ہے کیونکہ اسلام آباد میں گزارہ ملتان کی نسبت مشکل ہو گا۔
خان صاحب پھر رکے اور بولے: ہاں میاں‘ یاد آیا آپ کو ملتان چھوڑنے کی اجازت ایک شرط پر ملے گی‘ آپ کو اس سے پہلے میرا ایک کام کرنا ہو گا۔
میرا پھر سانس رک گیا اور حوصلہ چھوڑ گیا کہ یہ قسمت میرے ساتھ کیا کھیل کھیل رہی ہے کہ کام ہوتے ہوتے رک رہا ہے۔ میں پھر سانس روک کر خان صاحب کی شرط سننے لگا کہ وہ کون سی بات تھی جسے پوری کیے بغیر میں ملتان سے اسلام آباد نہیں جا سکتا تھا۔ ایک نیا امتحان میرا منتظر تھا۔ خان صاحب نے اپنے مخصوص انداز اور لہجے میں اپنی وہ شرط مجھے سنانا شروع کی۔
میں نے ان کی وہ سخت شرط سن کر فون نیچے رکھا تو محسوس ہوا کہ دفتر میں اے سی چلنے باوجود میرے ماتھے پر پسینہ تھا۔ ایک اور دریا کا سامنا تھا۔ قسمت کا کھیل ابھی جاری تھا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved