تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     04-12-2021

انڈیا ایک عالمی قوت؟

انڈیا کا عالمی قوت بننے کا خواب کافی پرانا ہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کا کہنا تھا کہ انڈیا لا محالہ ایک عظیم عالمی طاقت بنے گا اور اس عظیم ورلڈ پاور کے دو بڑے ستون ہوں گے۔ ایک ترقی یافتہ معیشت کی طاقت اور دوسرے بحر ہند پر کنٹرول۔ یاد رہے کہ عالمی بحری تجارت کا 70 فیصد حصہ بحر ہند سے ہو کر گزرتا ہے۔ لیکن اکھنڈ بھارت کا تصور اس سے بھی قدیم اور توسیع پسندانہ ذہنیت کا غماز ہے۔ اکھنڈ بھارت کا نقشہ افغانستان سے شروع ہو کر برما تک جاتا ہے۔ اگرچہ سنجیدہ مبصروں کی نظر میں اکھنڈ بھارت اب ایک دیومالائی تصور سے زیادہ کچھ نہیں لیکن یہ اصطلاح بھارت کے دائیں بازو کی قیادت میں اب بھی مقبول ہے۔ حال ہی میں آر ایس ایس کے لیڈر موہن بھگوت نے اکھنڈ بھارت کا راگ پھر الاپا اور 1947ء کی تقسیم کو ختم کرنے پر بھی زور دیا۔
انڈیا نے پچھلے تیس سالوں میں قابل قدر اقتصادی ترقی کی ہے۔ اس کا بین الاقوامی قد کاٹھ بھی بڑھا ہے۔ نیوکلیئر سپلائر گروپ کی ممبرشپ اور امریکہ سے دوستی انڈیا کے بڑھتے ہوئے عالمی اثرورسوخ کے غماز ہیں‘ لیکن انڈیا ابھی تک سلامتی کونسل کا‘ بے تحاشا کوشش کے باوجود‘ دائمی ممبر نہیں بن سکا ہے۔ نوبیل انعام یافتہ دانشور وی ایس نئے پال (V.S. Naipaul) نے انڈیا کو مجروح تہذیب کا وارث کہا تھا اور ان کا اشارہ واضح طور پر انڈیا کی ہزار سال کی غلامی کی جانب تھا۔
اکیسویں صدی کے آغاز میں اکثر مبصر کہتے تھے کہ موجودہ صدی ایشیا کی ہے اور ایشیا کو چین اور انڈیا مل کر آگے لے کر جائیں گے اور پھر یوں ہواکہ چین اقتصادی ترقی میں انڈیا سے بہت آگے نکل گیا۔ صدی کے آغاز میں چین کی مجموعی سالانہ پیداوار انڈیا سے دُگنی تھی اور آج پانچ گنا ہے۔ چین کا دفاعی بجٹ انڈیا سے تین گنا سے بھی زائد ہے۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اکیسویں صدی ایشیا کی ہی صدی ہو گی مگر یہ اعزاز چین کی وجہ سے ہوگا۔ چند سال پہلے تک یہ بھی کہا جاتا تھا کہ امریکہ کے بطور منفرد سپر پاور زوال کے بعد دنیا میں طاقت کے متعدد محور ہوں گے اور ان میں امریکہ، چین، انڈیا، روس اور برازیل شامل ہوں گے لیکن چین کی حیرت انگیز ترقی کو دیکھ کر اب کہا جا رہا ہے کہ دنیا پھر سے دو قطبی یعنی Bipolar ہو گی جس میں دو سپر پاورز امریکہ اور چین ہوں گی۔ چین کے مقابلے انڈیا آج کوتاہ قد نظر آ رہا ہے۔
1962ء کی جنگ میں انڈیا کو چین نے شکست فاش دی۔ پنڈت نہرو یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے اور اگلے سال انتقال کر گئے۔ انڈیا اور چین کا طویل بارڈر کئی جگہ پر متنازع ہے۔ 2019ء میں انڈیا کے ایک لیڈر نے بیان دیا کہ ہم چین سے اقصائے چن کا متنازع علاقہ واگزار کرائیں گے اور پھر گلوان کی جھڑپ میں انڈین فوجیوں کے ساتھ جو ہوا وہ سب کو معلوم ہے۔ اس کے بعد انڈیا کے کسی لیڈر نے اقصائے چن کا نام نہیں لیا۔ اسی طرح بالاکوٹ کی مہم جوئی سے پہلے انڈیا بار بار سی پیک پر اعتراض کر رہا تھا کہ اس پروجیکٹ کا آغاز گلگت بلتستان سے ہو رہا ہے جو بقول انڈیا‘ اس کا حصہ ہے لیکن ابھی نندن والی شرمساری کے بعد انڈیا کا گلگت والا راگ بھی ختم ہو گیا۔ انڈیا کو یقیناً احساس ہو گیا کہ اس کی طاقت کی حدود ہیں اور اس محدود عسکری قوت کے ساتھ وہ چین اور پاکستان کا بیک وقت مقابلہ نہیں کر سکتا۔ امریکہ نے بھی انڈیا کو سمجھایا کہ دو فرنٹ کھولنا اس کے مفاد میں نہیں۔ انڈیا کو بات سمجھ آ گئی اور کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فائر بندی ہوگئی۔
ایک عظیم طاقت بننے کیلئے ضروری ہے کہ انڈیا کے اپنے ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں۔ 2014ء میں الیکشن جیتنے کے بعد وزیراعظم مودی نے سارک ممالک کے تمام سربراہان کو اپنی حلف اٹھانے کی تقریب میں بلایا تھا۔ وزیر اعظم نوازشریف بھی اس تقریب کیلئے نئی دہلی گئے تھے۔ بی جے پی کا فارن پالیسی کے ضمن میں نعرہ تھا ''سب سے پہلے ہمسائے‘‘ (First Neighbours )۔ یہ بہت اچھا آغاز تھا۔ اگر انڈیا کے تمام ہمسایوں بالخصوص پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں تو نہ صرف دونوں ممالک کا بلکہ پورے خطے کا فائدہ ہوگا۔ تنائو کم ہوگا۔ سیاحت اور تجارت کو فروغ ملے گا۔ پورے خطے میں خوشحالی آئے گی۔
لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ مودی نے جلد ہی دھونس یعنی Hegemony والی پالیسی شروع کردی۔ پاکستان سے کہا گیا کہ سی پیک کا منصوبہ ترک کر دو۔ 2019ء میں ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بالاکوٹ پر حملے کی کوشش کی تھی۔ ہمسایہ ملکوں کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں خونریزی کرائی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاک ہند تعلقات میں سخت تنائو آیا، نفرتیں بڑھنے لگیں۔ نیپال کی پارلیمنٹ نے ایک نیا نقشہ پاس کیا تو سرحدی تنازع کھڑا ہو گیا۔ نیپال کا تجارتی بلاکیڈ کیا گیا۔ وہاں اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ ایسے میں چین نے نیپال کی مدد کی۔ نئی سڑکیں بنا کر زمینی رابطہ قائم کیا۔ نیپال جو ایک زمانے انڈیا کے بہت قریب تھا‘ اب چین کا دوست بن گیا ہے۔
بنگلہ دیش کی تخلیق میں انڈیا کا کلیدی رول تھا اور اسی وجہ سے بنگلہ دیش انڈیا کا بغل بچہ بن گیا تھا۔ بنگلہ دیش کو فائدہ یہ ہوا کہ اس کے دفاعی اخراجات کم ہوئے اور وہ تمام تر توجہ اقتصادی ترقی پر مرکوز کرنے کے قابل ہو سکا‘ لیکن 2019ء میں انڈیا نے شہریت بل پاس کیا اور نیشنل رجسٹر شروع کیا‘ یعنی تمام انڈین شہری دستاویزی ثبوت دے کر اپنی بھارتی شہریت رجسٹر کرائیں‘ جن کے پاس دستاویز نہیں‘ وہ اپنے ممالک کو واپس جائیں۔ آسام میں لاکھوں بنگلہ دیشی کام کی غرض سے کئی سالوں سے مقیم ہیں۔ پچھلے دنوں بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کا بیان تھا کہ انڈیا میں مسلم مخالف کارروائیوں کی وجہ سے بنگلہ دیش میں ہندو مخالف رویے جنم لے رہے ہیں۔ ماضی قریب میں دونوں ممالک کے تعلقات میں کچھ سرد مہری در آئی ہے۔ سری لنکا اور مالدیپ ایک زمانے میں انڈیا کے بہت قریب ہوتے تھے مگر اب صورتحال مختلف ہے۔ ان دونوں ممالک میں بھی چین کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے اپنا اثر دکھا رہے ہیں۔
ہر طاقتور ملک کی ایک سوفٹ پاور بھی ہوتی ہے۔ انڈیا کی سوفٹ پاور جمہوریت اور سیکولرازم تھے۔ چند سال پہلے تک کہا جاتا تھا کہ انڈیا میں مذہب اہمیت کھو بیٹھا ہے‘ مسلمان‘ کرسچین‘ سکھ اور ہندو سب برابر ہیں۔ بالی ووڈ کی فلموں اور کرکٹ سے انڈیا دنیا بھر میں مقبول ہوا لیکن مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی سے انڈیا کا چہرہ خاصا گہنا گیا ہے۔
اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ آج کل انڈیا کے قریب ترین ممالک کون سے ہیں تو میں کہوں گا امریکہ، اسرائیل، فرانس اور بھوٹان‘ اور ان میں صرف ایک ہمسایہ ملک شامل ہے سب سے بڑے ہمسائے یعنی چین کے ساتھ سرد مہری ہے لیکن انڈین قیادت کی سمجھداری ہے کہ چین کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم و دائم ہیں۔
انڈیا کے بیرون ملک بڑھتے اثرورسوخ کا منبع اوورسیز انڈین ہیں جو امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ حال ہی میں سوشل میڈیا کے معروف چینل ٹویٹر (Twitter) کے ہیڈ نے استعفا دیا ہے اور اس کی جگہ ایک انڈین مسٹر اگروال نے لی ہے۔ مجھے اس بات کا بھی شدت سے احساس ہے کہ انڈیا تعلیم اور اقتصادی ترقی میں پاکستان سے آگے نکل گیا ہے۔
اکثر انڈین یہ کہتے ہیں کہ ہمارا ملک دو تین عشروں کے بعد سپر پاور ہوگا لیکن یہ تب ہی ممکن ہوگا اگر اقلیتیں خوش ہوں گی اور ہمسایوں سے تعلقات بہتر ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved