کسی ایک بات کا رونا ہو تو آدمی روئے بھی۔ یہاں تو سارے ہی معاملات یکسر الٹ‘ پلٹ چکے ہیں۔ قدم قدم پر خرابیاں، بات بات میں الجھنیں۔ جو الجھا ہوا ہے وہ اپنے الجھے رہنے پر اکتفا کرنے کو تیار نہیں۔ جب تک دوسروں کے لیے الجھنیں پیدا نہ کی جائیں تب تک چین نہیں آتا۔ کہتے ہیں کہ بانٹنے سے دکھ کم ہو جاتے ہیں۔ یہاں معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ لوگ اپنے دکھ اس خیال سے بانٹ رہے ہیں کہ یہ بڑھ جائیں اور دوسروں کو بھی کچھ احساس ہو کہ وہ کس مصیبت سے گزر رہے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں خرابیوں کا آغاز اُس وقت ہوتا ہے جب سوچنا ترک کردیا جاتا ہے۔ عمومی سطح پر ہم صرف ردِعمل کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں اور اِسی کو سوچنے کا عمل سمجھ کر خوش ہولیتے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ سوچنے کی مبادیات کا بھی کم لوگوں کو علم ہے۔ اور اِس سے بھی بڑھ کر دُکھ کی بات یہ ہے کہ جنہیں سوچنے کی صلاحیت عطا ہوئی ہے اُنہیں سوچنے کی توفیق عطا نہیں کی جارہی۔ کسی بھی کام کی توفیق نیت کی بنیاد پر عطا کی جاتی ہے۔ جنہیں معاشرے کے لیے سوچنا ہے وہ صرف مال بٹورنے میں مصروف ہیں۔ رات دن یہی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طور زیادہ سے زیادہ کمالیا جائے تاکہ بھرپور آسائشوں کے جِلو میں جینا ممکن ہوسکے۔ مادّی سُکھ کو ہی سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔
گزشتہ روز سوشل میڈیا پر محترم انیق احمد کی پوسٹ پڑھی جس میں ایک کتب میلے کے حوالے سے یہ دل خراش حقیقت بیان کی گئی تھی کہ کتب میلے میں 3 ہزار برگر، 2 شوارمے، چپس کے 1500 پیکٹ اور 1700 روپے کا قہوہ فروخت ہوا جبکہ صرف 16 کتابیں فروخت ہوئیں! کتب بینی کا کلچر ہمارے ہاں آخری سانسیں لے رہا ہے۔ کیا واقعی؟ جی نہیں! آخری سانسیں کتب بینی کا کلچر نہیں لے رہا بلکہ در حقیقت آخری سانسیں معاشرہ لے رہا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ ایک انتہائی دل خراش حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی معاشرہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کے بغیر جی سکا ہے نہ جی سکے گا۔ آج کل ہم کتب بینی کی طرف مائل نہیں مگر ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ ایک دور تھا کہ ملک میں کتب بینی کا کلچر تھا۔ بچوں کو مطالعے کے بارے میں محض بتایا نہیں جاتا تھا بلکہ مطالعے کی عادت پختہ بنانے کی طرف مائل بھی کیا جاتا تھا۔ والدین خود بھی پڑھتے تھے اور بچوں کے لیے بھی کتابیں خریدا کرتے تھے۔ گھر میں ایک کونا کتابوں کے لیے مختص ہوا کرتا تھا۔ کوشش کی جاتی تھی کہ مطالعے کے لیے مختص گوشہ پُرسکون ہو۔ لوگ دوسرے بہت سے اخراجات کے ساتھ ساتھ کتابیں خریدنے کے لیے بھی پیسے نکالا کرتے تھے۔ کتاب خریدنے اور پڑھنے کے عمل کو مستحسن سمجھا جاتا تھا۔ ملک میں عمومی سطح پر لوگ کتب بینی کے عادی افراد کو احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ کتب بینی ہو یا کوئی اور عادت، ہمارے مزاج کا حصہ اُسی وقت بنتی ہے جب شعوری کوشش کی جائے، لوگوں کو اِس طرف آنے کی دعوت اور تحریک دی جائے۔ کتب بینی کا کلچر بہت چھوٹی عمر سے پروان چڑھانا پڑتا ہے۔ سکول کے زمانے میں بچے کتب بینی کی طرف تیزی سے مائل ہوتے ہیں کیونکہ ماحول اُنہیں اِس کی تحریک دے رہا ہوتا ہے۔ آج کل سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے باعث معاملہ الجھ گیا ہے مگر پھر بھی والدین اور اساتذہ مل کر کتب بینی کا کلچر پروان چڑھا سکتے ہیں۔ یہ کام اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہنگامی بلکہ جنگی بنیاد پر کیا جائے۔
اگر کہیں کتاب خریدنے اور پڑھنے کی بات کیجیے تو مالی وسائل اور وقت دونوں کی تنگی کا رونا رویا جاتا ہے۔ اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آج ہمیں مالیات کی سطح پر بہت سی الجھنوں کا سامنا ہے اور یہ بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ وقت کے حوالے سے ہم پر بہت دباؤ ہے۔ حواس پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں۔ ایسے میں انسان کے لیے طے کرنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے کہ کس کام کو کتنا وقت دیا جائے۔ بڑے شہروں کا معاملہ زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ زندگی کا بڑا حصہ صرف زندگی کو برقرار رکھنے میں کھپ رہا ہے۔ اخراجات ہیں کہ بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ گھریلو بجٹ میں کتابوں کی خریداری کے لیے رقم رکھنا اور کتب بینی کے لیے وقت مختص کرنا دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں ذہن پر دباؤ میں اضافہ ناگزیر ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ کتب بینی کوئی ایسی عادت نہیں کہ نہ اپنائی جائے تو گزارا ہو جائے۔ مطالعہ زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ مطالعہ ہی انسان کو شفیق اور خلیق بناتا ہے۔ مطالعے ہی کی مدد سے ہم اپنی علمی بنیاد کو وسیع، گہری اور مضبوط بنا پاتے ہیں۔ کسی اہلِ علم سے ہم جو کچھ براہِ راست یعنی روبرو بیٹھ کر نہیں پاسکتے وہ ہم مطالعے کے ذریعے پاتے ہیں۔ مطالعے کے ذریعے ہم اہلِ علم سے ملتے ہیں، اُن کی علمی وسعت سے آشنا ہوتے ہیں، اُن سے سیکھتے ہیں، اُن کے تجربات و مشاہدات کا عرَق ہمیں مل پاتا ہے اور ہم بھی معیاری انداز سے جینے کے قابل ہو پاتے ہیں۔
آج کے ہمارے معاشرے میں کتب بینی کا کلچر آخری سانسیں لے رہا ہے۔ اِسی بات کو دُکھی دل کے ساتھ یوں کہا جاسکتا ہے کہ معاشرے پر جاں کنی کا عالم طاری ہے۔ کسی بھی معاشرے کے لیے حقیقی عالمِ سکرات وہ ہے کہ جب وہ کتاب سے دوستی کو ترجیح نہ دے، مطالعے کو ضروری عادت سمجھنے کی روش ترک کردے۔ معاشرہ بہت بدل چکا ہے۔ پوری دنیا میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہ ہم پر بھی اثر انداز ہوئی ہیں۔ یہ بالکل فطری معاملہ ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ہر تبدیلی کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیں اور عزم و عمل کی راہ پر چلنا چھوڑ دیں۔ ایسے میں خرابیاں زیادہ تیزی سے پروان چڑھتی ہیں۔ خرابیاں اس لیے نہیں ہوتیں کہ اُنہیں نظر انداز کرکے پروان چرھنے دیا جائے۔ ہر خرابی دور کی جانی چاہیے۔ ہر مسئلہ اس لیے ہوتا ہے کہ اُس کا معقول ترین حل تلاش کیا جائے۔ ہم اس معاملے میں بظاہر ہمت ہار چکے ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے اُسے ہم نے تقدیر سمجھ کر قبول کرلیا ہے۔
ہمارا معاشرہ شدید بے راہ رَوی کا شکار ہے۔ بے راہ روی سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ ہم بُری عادتوں کے غلام ہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ ہم راہ سے ہٹ گئے ہیں۔ وقت کا ضیاع بھی بے راہ رَوی ہے۔ زندگی کے بارے میں سنجیدہ نہ ہونا بھی بے راہ رَوی ہی کی ایک شکل ہے۔ مطالعے کے رجحان کا نہ ہونا بھی بے راہ رَوی ہی کے زُمرے میں آئے گا۔ جو کچھ ہمیں ہر حال میں کرنا ہے وہ نہ کرنا بھی بے راہ رَوی کہلایا جانا چاہیے۔ شدید بے ذہنی کی کیفیت پر ہم یوں طاری ہے کہ ہم اِس کے محض عادی ہی نہیں بلکہ غلام اور رَسیا بھی ہوکر رہ گئے ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے لیے انتہائی نقصان دہ ہے مگر ہمیں اِس کا احساس تک نہیں۔ کسی بھی خرابی کو دور کرنے کی تحریک اُس وقت ملتی ہے جب اُس کا احساس پایا جائے۔ احساس کے بعد اِدراک کی منزل آتی ہے۔ تمام کامیاب معاشروں میں کتب بینی زندگی کی ایک بنیادی قدر کے طور پر ملتی ہے۔ ہر حقیقت پسند معاشرے نے کتب بینی کو زندگی کا لازمہ بنانے پر توجہ دی ہے اور اِس کا پھل بھی پایا ہے۔ ہم اِس حوالے سے اب تک سنجیدہ نہیں ہو پائے۔ اپنے گزرے ہوئے ادوار ہی سے کچھ سبق سیکھ لیا جائے۔ کبھی اِسی معاشرے میں کتب بینی کا کلچر توانا تھا۔ لوگ پڑھتے بھی تھے اور جو کچھ پڑھتے تھے اُس کے بارے میں تبادلۂ خیال بھی کرتے تھے۔ اب یہ روایت دم توڑ چکی ہے۔ لوگ سوشل میڈیا کی ہر گھٹیا پوسٹ سے محض محظوظ نہیں ہوتے بلکہ اُس پر تبادلۂ خیال بھی اِس طور کرتے ہیں گویا کوئی وقیع علمی بحث ہو رہی ہو!
مانا کہ بہت کچھ بدل چکا ہے اور بہت کچھ ٹھکانے لگ چکا ہے مگر جو اچھا تھا اُس کی بحالی پر متوجہ ہونا لازم ہے۔ ایسا کرنا بھی دم توڑتے معاشرے کو زندگی کی طرف لانا ہے۔ ہمارے معاشرے کے لیے وہ مقام آچکا ہے جہاں برگر، شوارما، چپس اور کولڈ ڈرنکس پر کتابوں کو اہمیت دی جانی چاہیے!