تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     05-12-2021

اب رونا کیسا؟

ہم ساری عمر یہی سمجھتے رہے کہ جو کچھ شام، عراق، لبنان، لیبیا یا افغانستان میں ہوا وہ ہمارے ہاں نہیں ہوگا بلکہ مجھے یاد ہے‘ جب ہم بمباری سے تباہ شدہ ان ملکوں کے شہر دیکھتے، روز خودکش حملوں میں لوگوں کو مرتے دیکھتے تو خود کو تسلی دیتے کہ ہمارے ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ جب ہم ان ملکوں کے شہروں میں ہر جگہ روڈ بلاک کر کے گاڑیوں کی تلاشی کے سین دیکھتے یا پھر شہروں کے اندر راستہ بلاک کرکے ایک ایک گاڑی گزاری جاتی اور اسلحہ سے لیس باوردی فوجی ان گاڑیوں کے اندر بیٹھے لوگوں کے منہ پر ٹارچ کی روشنی ڈالتے یا پھر ڈگی اور بونٹ کھلوا کر تلاشی لیتے تو ہم حیران ہوتے کہ وہاں کے لوگ کیسے ایک قیدی کی سی زندگی گزارتے ہیں اور ایک ہمیں دیکھیں 'فکر نہ فاقہ عیش کر کاکا‘ والا حساب ہے‘ خصوصاً اسلام آباد میں تو یہ تصور ہی نہ تھا۔
کچھ برس پہلے بھارت میں ایک آسٹریلین نژاد پادری کو تبلیغ کرنے کے جرم میں ہجوم نے جلایا تھا تو بھی میں نے یہی سمجھا تھا کہ اللہ کا شکر ہے ہم بہتر ہیں۔ ہمارے لوگ اتنے شدت پسند نہیں ہوئے۔ ہمارے اندر ضیا دور کی بھڑکائی آگ دھیرے دھیرے بجھ کر راکھ میں بدل رہی تھی۔ وہ وحشت اور گھٹن معاشرے کے اندر سے کم ہورہی تھی۔ ہم بہتری کی طرف جا رہے تھے۔ سوچا ٹی وی چینلز، سمارٹ فونز، انٹرنیٹ اور دیگر نئی ایجادات معاشرے کو بدل دیں گی۔ لوگ کنویں کا مینڈک بن کر نہیں رہیں گے۔ نئی دنیا میں ان کی سوچ اور فکر بدلے گی۔ وہ ایک گلوبل ولیج کا شہری بن کر ابھریں گے اور ہم ایک نئی دنیا کے شہری بنیں گے‘ جہاں ہمارے اندر برداشت اور روشن خیالی جنم لے گی۔ ہم اپنے اندر صدیوں سے جو عصبیت، تنگ نظری اور نفرت لیے پھر رہے ہیں وہ کم ہوگی۔ ہم خود بھی جئیں گے اور دوسروں کو بھی جینے دیں گے۔ ہم ایک نیا معاشرہ بنیں گے۔
میں بھول گیا تھا کہ اتنی جلدی معاشروں کے اندر موجود وحشت، دہشت اور جنونیت کم نہیں ہوتی۔ یورپ کو بھی اس مقام تک پہنچنے میں صدیاں لگیں۔ وہاں بھی جیب کتروں تک کو پھانسیاں لگتی تھیں۔ وہاں بھی مذہبی جنونیوں کو کسی پر شک ہوتا تو اس کے خلاف فتویٰ دے کر اسے باقاعدہ آگ میں زندہ جلایا جاتا تھا۔ وہاں بھی کلیسا اور بادشاہت نے مل کر عوام کو غلام بنایا۔ عوام کو سخت سے سخت سزائیں دے کر جہالت میں دبائے رکھا۔ وہ تو اللہ بھلا کرے وہاں پرنٹنگ پریس نے ایسا شعور پیدا کیا جو جہاں انقلابِ فرانس میں مددگار ثابت ہوا وہیں بعد میں دنیا کے دیگر حصوں میں بھی پھیلا‘ جس کی بڑی مثال انقلاب روس تھا جب عام لوگوں نے بادشاہ کی پوری فیملی کو قتل کر دیا اور پھر صنعتی انقلاب نے انسانوں کی زندگیاں بدلیں۔ وہی یورپ جو ڈارک ایجز سے گزرا آج وہاں بلی کتوں‘ پرندوں کے بھی حقوق ہیں‘ جس پر ہم ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ انہوں نے چرچ کا رول ختم کیا۔ جس کا دل چاہئے وہ عبادت کرے۔ وہی یورپ جس نے مسلمانوں کے ساتھ صلیبی جنگیں لڑیں آج وہ نہ صرف مسجدیں بنانے کی اجازت دے رہا ہے بلکہ سینٹرل لندن میں باقاعدہ اذان کی آواز گونجتی ہے۔
آج مسلمان ان ملکوں اور معاشروں میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں جو سیکولر ہیں‘ لیکن ہم مسلمانوں کا عجیب مخمصہ ہے کہ امریکہ، یورپ اور بھارت میں سیکولرازم چاہتے ہیں‘ لیکن اپنے ملک میں ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جس میں اپنے مذہبی خیالات کے علاوہ کسی کو زندہ رہنے یا جینے کا حق نہ ہو۔ جو راز یورپین نے صدیوں پہلے پا لیا تھا کہ ترقی کرنی ہے تو پھر کلیسا اور چرچ کا رول کم کرنا ہوگا‘ وہ ہم آج تک نہ پا سکے۔
ہم صدیوں بعد بھی یہی سبق نہیں سیکھ سکے۔ ہمارے اردو لکھاریوں نے جو سب سے بڑا ظلم اس معاشرے کے ساتھ کیا‘ یہ تھا کہ انہوں نے سیکولرازم کا ترجمہ لادینیت کر دیا۔ سیکولرازم کا مطلب رواداری، محبت، برابری اور ہر مذہب کے پیروکاروں یا سوچ و فکر کے لوگوں کی آزادی کے بجائے اس کا ترجمہ یوں کیا گیا کہ سیکولرازم ایک ایسا نظام ہے جس میں کہیں نماز پڑھنے کی گنجائش نہیں بلکہ مسجدوں کو تالا لگا دیا جاتا ہے۔ اَن پڑھ چھوڑیں آپ آج بھی کسی پڑھے لکھے سے پوچھ لیں‘ وہ آپ کو یہی بتائے گا۔
اب وہی کچھ ہو چکا ہے جو ہم دور ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر دیکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ ہمارے ہاں نہیں ہو گا۔ یہ کیسے نہ ہوتا؟ جب ہم سب بربادی کا سفر طے کر رہے تھے اور ان قوتوں کو گلے لگا رہے تھے جو انسانوں کے گلے کاٹ رہی تھیں تو پھر یہی کچھ ہونا تھا جو ہو رہا ہے۔ جس ملک کی اٹھانوے فیصد آبادی مسلمان ہو اور وہاں روز مذہب پھر بھی خطرے میں ہو‘ اور اسے بچانے کے لیے جتھے تیار ہوں تو پھر سیالکوٹ کی فیکٹری میں ایک فرد کے جلا کر راکھ کر دیئے جانے پر افسوس کیسا؟
اگر کسی کو یاد ہو تو کچھ عرصہ پہلے کوٹ رادھا کشن میں میاں بیوی کو ایک بھٹے پر زندہ جلا دیا گیا تھا۔ بیوی کے پیٹ میں بچہ بھی تھا۔ ان پر بھی یہی الزام لگایا گیا تھا جو بعد میں جھوٹ نکلا۔ جس ہجوم کو ایک بے بس عورت‘ جس کے پیٹ میں بچہ تھا‘ پر رحم نہیں آیا تھا‘ ہم توقع رکھتے ہیں کہ اس ہجوم کو ایک سری لنکن مرد پر ترس آتا جو اپنا ملک چھوڑ کر بارہ برس سے اس ملک کی ایکسپورٹس بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہا تھا؟
ہم سمجھتے تھے کہ شاید غریب اور ان پڑھ طبقات اس آگ کو بھڑکائے ہوئے ہیں‘ لیکن اب جو لوگ سیالکوٹ کے واقعے میں ملوث ہیں وہ سب ملازم پیشہ اور برسر روزگار لوگ تھے۔ یہ سیالکوٹ جیسے عالمی شہرت والے شہر کے شہری ہیں جو دنیا بھر میں اپنی پہچان رکھتا ہے۔ جہاں کے لوگوں نے اپنا ایئرپورٹ اور دیگر سہولتیں خود بنا لیں‘ وہ اپنی فیکٹریوں کے اندر ایسے انسان پیدا نہ کر سکے جو انسانی زندگی کی قدر کرتے۔ جو نوجوان اس جلتے بدن کی ویڈیوز بنا رہے تھے یا سیلفیاں بنا رہے تھے وہ انسان کہلوانے کے قابل ہیں؟
بہرحال یہ طے ہے کہ اس ملک کو اس نہج تک لانے میں ہم سب نے بڑی محنت کی ہے۔ اسے برباد کرنے کے لیے سب نے لمبی منصوبہ بندی کی۔ ہمارے سیاستدان ہوں، بیوروکریسی ہو، اداروں کے حکام ہوں یا پھر ہم میڈیا کے لوگ‘ سب نے اس جن کو خود بوتل سے نکالا ہے۔ ابھی بھی وزیراعظم عمران خان نے ستائیس اکتوبر کو کابینہ کے اجلاس میں لبیک تحریک کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا تو اداروں نے جواز پیش کیا کہ ہمارے اپنے لوگ ہیں‘ ان پر گولی نہیں چلائیں گے۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ دن دہاڑے درجن بھر سے زیادہ پولیس والوں کو مار دیا گیا، ہزار سے زائد زخمی کیے لیکن نہ صرف ان پر نافذ بین واپس لیا گیا، گرفتار ہونے والے ہزاروں افراد کو چھوڑا گیا بلکہ انہیں پروٹوکول دے کر عوام کو بتایا گیا: یہ آپ کے مستقبل کے رہنما ہیں۔ انہیں جان بوجھ کر بچایا گیا کہ کسی دن انہیں عمران خان، نواز شریف یا بلاول کے خلاف استعمال کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ایک اہم بریفنگ میں اسلام آباد کے کئی صحافی گواہ ہیں جنہیں یہ کہا گیا تھا یہ جو پولیس کو مار رہے ہیں یہ سب ہمارے بھائی ہیں۔ ہمارے اپنے ہیں۔ جب وہ ہمارے اپنے ہیں تو پھر یہ سب ماتم کیسا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved