تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     05-12-2021

بھلا اب میں کیا کر سکتا ہوں؟

اس عاجز نے اپنی بقیہ زندگی کو سہولت اور آرام سے گزارنے کا جو سہل حل نکالا ہے‘ یہ ہے کہ اپنے آئندہ کے دن فیس بک کے حوالے کرنے کے بجائے دوستوں سے فیس ٹو فیس حالت میں گزارے جائیں۔ زندہ لمحے ٹچ سکرین کے حوالے کرنے کے بجائے زندگی کے سپرد کیے جائیں۔ ٹویٹر اور انسٹاگرام کی غلامی کے بجائے اپنا وقت اپنی مرضی سے گزارا جائے اور موبائل فون کو اپنی ملکیت کے طور پر استعمال کیا جائے نہ کہ خود موبائل فون کی نوکری کی جائے۔ آصف مجید بہت اصرار کرتا ہے کہ میں ٹویٹر اکائونٹ بنا لوں۔ میں کہتا ہوں کہ وقت کا بہترین استعمال یہ ہے کہ اب اسے اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق گزارا جائے۔ آصف کہتا ہے کہ اب زمانہ ٹویٹر وغیرہ کا ہے۔ میں جواب دیتا ہوں کہ آپ ٹھیک کہتے ہو، یہ زمانہ واقعی ٹویٹر وغیرہ کا ہے مگر اب اس کا کیا حل ہے کہ میں اس زمانے کا آدمی نہیں ہوں۔ وہ کہتا ہے کہ اس کام کیلئے وہ میرے لیے کسی مناسب شخص کا بندوبست کر سکتا ہے جو میرے ٹویٹر اکائونٹ کو ہینڈل کرے گا۔ میں اسے کہتا ہوں کہ آخر اس اکائونٹ ہینڈل کرنے والے شخص کو بھی تو مجھے ہی ہینڈل کرنا پڑے گا‘ میں یہ سارا کھڑاک نہیں نبھا سکتا‘ اب بھلا زندگی رہ ہی کتنی گئی ہے جسے ان جکڑبندیوں میں گزار دیا جائے۔ برسوں پہلے فیس بک کو الوداع کہہ دیا اور ٹویٹر اور انسٹاگرام وغیرہ سے سرے سے سلام دعا ہی نہیں لی۔
لے دے کے ایک واٹس ایپ ہے جس پر اپنی مرضی کے لوگوں سے رابطہ ہے۔ اس واٹس ایپ سے تعلقات کی نوعیت بھی بڑے قاعدے ضابطے کی ہے۔ میں اسے صرف بیرون ملک دوستوں یا دونوں بیٹیوں سے رابطے کیلئے استعمال کرتا ہوں۔ اندرون ملک نہ کسی کو اس ایپ پر کال کرتا ہوں نہ وصول کرتا ہوں۔ بھلا جو بندہ آپ سے بات کرنے کیلئے دو تین روپے خرچ کرنے پر راضی نہیں اس سے کیا بات کرنا؟ کوئی مجبوری آن پڑے تو اور بات ہے جیسے ایک دوست ڈسٹرکٹ جیل ملتان کی ہمسائیگی میں رہائش پذیر ہے اور جیل میں لگے ہوئے جیمرز کے باعث رابطہ مشکل ہوتا ہے۔ سو اسے واٹس ایپ کی رعایت ہے وگرنہ یہ مفت کی سہولت رحمت سے زیادہ زحمت ہے۔ جن لوگوں کو زندگی بھر کسی کو ایک پھول پیش کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ وہ دن میں چار بار گلدستے بھیجنا صدقہ جاریہ سمجھتے ہیں۔ ایسی ایسی نصیحتیں بھیجتے ہیں کہ اگر ان میں سے صرف دس فیصد پر ہی خود عمل کر لیں تو یہ دنیا جنت بن جائے مگر صرف فارورڈ کرنے سے غرض ہے، عمل کرنا اس کی ذمہ داری ہے جو یہ میسج وصول کرے گا۔
میں اب تک سینکڑوں لوگوں کو واٹس ایپ پر بلاک کر چکا ہوں۔ خدانخواستہ اس سے یہ مطلب نہ نکالا جائے کہ میں کوئی بے مروت یا بے دید آدمی ہوں مگر اپنی زندگی کو سہولت سے گزارنا میرا حق ہے اور میں صرف اپنے اسی حق کو استعمال کر رہا ہوں۔ جن لوگوں کو میں نہیں جانتا بھلا انہیں اپنی زندگی میں دخل اندازی کی سہولت کیسے مہیا کر سکتا ہوں؟ جن لوگوں کو میں جانتا تک نہیں بھلا انہیں اتنی آزادی کیسے دی جا سکتی ہے کہ وہ بغیر اجازت آپ کی زندگی اور آپ کے وقت میں دخیل ہو جائیں؟ دوستوں کی بات اور ہے۔ میں نے اپنے واٹس ایپ اکائونٹ میں سٹیٹس لگایا ہے کہ براہ کرم مجھے دعائوں والے پیغامات بھیجنے کے بجائے دل سے دعا دیں اور خوشبو سے عاری پھول اور گلدستے بھیجنے سے احتراز کریں؛ تاہم اب بھی یہ عالم ہے کہ کم از کم تیس چالیس دوست وہی کام کر رہے ہیں جس سے انہیں روکا گیا ہے۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو آپ کی ایک نہیں سن رہے۔ اب ان لوگوں کی بھی بھلا کیوں سنی جائے؟ سو یہ عاجز ان کے پیغامات روزانہ بلاناغہ پڑھے بغیر ڈیلیٹ کرتا ہے۔ یہ ایک اضافی مشقت اور ذمہ داری ہے جو روزانہ رات کو پوری کی جاتی ہے۔ جو دوست میری عادت سے واقف ہیں انہیں علم ہے کہ میں واٹس ایپ بھی صرف رات کو دیکھتا ہوں۔ اگر کوئی دوست کوئی ضروری دستاویز یا پیغام بھیجے تو ساتھ ہی فون کرکے بتا دیتا ہے کہ واٹس ایپ دیکھ لو۔ زندگی ممکنہ حد تک آسان ہوگئی ہے؛ البتہ کئی دوست ناراض ہوچکے ہیں۔ دوستوں کوتو بتایا جا سکتا ہے مگر انجان لوگوں کو بلاک کرنے کے علاوہ اور کوئی حل نظر نہیں آتا۔ ممکن ہے بہت سے لوگ (جو عملی طور پر اس مصیبت میں گرفتار نہیں یا جنہیں جیتے جاگتے انسانوں سے زیادہ سوشل میڈیا پر پروان چڑھنے والے تعلقات اور دوستیاں عزیز ہیں) مجھے اس حرکت پر مطعون کریں مگر میں مطمئن ہوں کہ میں نے ممکنہ حد تک اپنے وقت کو سکرین کے حوالے کرنے کے بجائے اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کی ہے اور وقت کو اپنی پسند کے مطابق گزار رہا ہوں۔ جتنے دوست ہیں اگر انہیں ہی وقت دے پائوں تو بہت ہے کجا کہ ہزاروں کی تعداد میں سوشل میڈیائی دوستوں کی تعداد پر خوش ہوتا پھروں اور حقیقی دوستوں سے دور ہو جائوں۔
اس سوشل میڈیائی دوری سے یقیناً فی زمانہ کچھ نقصانات بھی ہیں مگر میرا یقین ہے کہ اس کے فوائد اس کے نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں۔ نقصان صرف یہ ہے کہ بہت سی ضروری خبروں اور بروقت اطلاعات سے محروم رہ جاتا ہوں؛ تاہم میرا موقف ہے کہ کم از کم خوشی غمی کی خبروں کا ذریعۂ اطلاع عوامی نہیں بلکہ ذاتی ہونا چاہیے۔ دوست وہ جو دوستوں کی مجبوریوں اور معذوریوں سے آگاہ ہو۔ خدا کا شکر ہے کہ میرے بیشتر دوست میری عادتوں سے آگاہ ہیں اور ضروری خبریں مجھے ذاتی طور پر پہنچاتے ہیں اور بتاتے بھی ہیں۔ کچھ دوست ایسے ہیں جو تازہ ترین حالات سے آگاہی دیتے رہتے ہیں اور سوشل میڈیا پر گردش کرتی بے شمار غیر ضروری خبروں میں سے اہم اور ضروری خبریں علیحدہ کرکے اس فقیر کو دنیا سے جوڑے رکھتے ہیں۔ برادرم باسط کے طفیل پتا چل جاتا ہے کہ اکتیس مئی 2014ء کو تین بج کر بیالیس منٹ پر عمران خان صاحب نے ایک ٹویٹ کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ وقت مقرر ہوئے تو انہوں نے یہ محسوس کرتے ہوئے اپنی دکان بند کر دی کہ اس کی موجودگی میں دوسرے لوگ کاروبار میں مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ برادرم باسط نے اسی پرانے ٹویٹ کے ساتھ ایک تازہ ٹویٹ بھی فارورڈ کیا ہے۔ یہ ٹویٹ اواب علوی کا ہے جو ہمارے صدرِ محترم کے فرزندِ ارجمند ہیں۔ اس ٹویٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ وہ یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں کہ علوی ڈینٹل اور برنگنگ سمائلز یو ایس اے کے پاکستان میں دانتوں کی حفاظت کے سلسلے میں ایک ایم او یو پر دستخط ہوئے ہیں‘ جس کے تحت وہ ایسی چین کھولنے جا رہے ہیں جو قابل برداشت خرچے میں معیار پر کسی قسم کا سمجھوتہ کیے بغیر علاج معالجے کی سہولت فراہم کرے گی۔ اس سلسلے میں سرمایہ کاری کرنے والوں نے ابتدائی طور پر پچیس ملین ڈالر فراہم کرنے کی ضمانت دی ہے۔ اس پرائیویٹ کاروباری ایم او یو پر گورنر ہائوس سندھ میں دستخط ہوئے اور ہمارے صدرِ مملکت بھی اس موقع پر موجود تھے۔ عمران خان صاحب ہمہ وقت مغرب کو سمجھنے کے دعوے کرتے ہیں‘ وہاں اسے کانفلیکٹ آف انٹرسٹ کہا جاتا ہے اور یہ جرم تصور ہوتا ہے۔ اصلی ریاست مدینہ میں تو ایسا ممکن نہ تھا البتہ نئے پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے۔
قارئین! اس میں میرا قصور نہیں ہے۔ میں تو ٹویٹر وغیرہ سے کوسوں دور کا آدمی ہوں اب دوست ایسی خبریں بھیج دیں تو بھلا میں کیا کر سکتا ہوں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved