تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     29-07-2013

’’ باقی آئندہ‘‘

اس شہر کی خطا معاف کیوں نہیں ہوتی۔ہم کب تک خوف میں زندہ رہیں گے۔ایک عرصہ ہوگیا۔اب تو خوف میں خود کو سنبھال سنبھال کر گھر سے باہر نکلنا ہماری جبلّت بن گیا ہے ۔ہم میں سے کون ہے جس نے چندے کے نام پر کٹی ہوئی پرچیاں وصول نہ کی ہوں اوردھمکیوں کے خوف سے انہیں ادا نہ کیا ہو۔ہر کسی کو اس کی حیثیت اور اوقات کے مطابق پرچی دی جاتی تھی، نہ ریڑھی والے کو استثنا حاصل تھا اور نہ بڑے سرمایہ دار کو۔خوف کے دربار میں سب کے سب یکساں تھے ۔البتہ وصول وہی کرسکتا تھا جس کی پرچی پکڑنے سے ہاتھ کانپ اٹھیں اور جسم لرزنے لگے۔کیا اس شہر پر یہ سب کچھ مسلسل بیتتے ہوئے ربع صدی کا عرصہ نہیں ہو چلا۔ربع صدی یعنی 25 سال۔کس قدر خاموش اطاعت کے یہ سال تھے۔ وہ حق جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے لیے مخصوص کیا ہے۔ ’’سمعنا و اطعنا‘‘ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ہم نے اس حق کی کرسی پر کسی اور کو نہیں بٹھا دیا تھا۔اس شہر نے مدتوں خاموشی سے سنا اور مدتوں حکم پر بلا چون و چرا عمل کیا۔جب انسانوں کا خوف دلوں میں بیٹھ جائے تو پھر اللہ کا خوف نکل جاتا ہے۔اللہ فرماتا ہے یہ دل میرا عرش ہے ، ہم خود کسی کرسی پر بیٹھنے لگیں تو اسے اچھی طرح صاف کرلیتے ہیں کہ کہیں کوئی گرد ، مٹی دھول وغیرہ تو نہیں ہے اس پر …لیکن جہاں اللہ نے مکیں ہونا ہے …ہمارے دلوں میں اطاعت کے کیسے خوفناک بت رکھے ہوئے ہیں۔ ہمیں خوف دلانے والے اتنے بڑے بڑے دیوہیکل لوگ موجود ہوتے ہیں ، پٹواری سے تھانیدار تک اور وزیراعلیٰ سے وزیراعظم تک ، نوکری کے باس سے لے کر سیاسی جماعت کے قائد تک ، ہم سب سے خوف کھاتے ہیں‘ ہر کوئی ہمارے دل کے تخت پر طاقتور بنا بیٹھا ہوا ہے ، ایسے کعبے میں اللہ کیسے اتر سکتا ہے۔اس شہر کے لوگ سوال کرتے ہیں، ایسا تو پورے ملک میں ہے ، پھر ہم پر ہی یہ عذاب کیوں۔ہم ہی کیوں روز اپنے بچوں کو گھروں سے باہر بھیجتے وقت آیت الکرسی کا حصار باندھیں ، ہم ہی کیوں ہر ٹیلیفون پر چونک پڑیں کہ خدا کرے خیر کی خبر ہو۔ہمارے ساتھ ایسا امتیازی سلوک کس لئے ۔کیا بگاڑا ہے اس شہر کے باسیوں نے جو پورے پاکستان کو کھلاتا ہے۔غریب پرور شہر ہے ۔جو یہاں چلا آئے اس کے لیے اپنے بازو کشادہ کر دیتا ہے۔کہاں کہاں سے اجڑے ، بے دیار لوگ یہاں آکر آباد نہیں ہوئے۔ اتنی خیرات ہوتی ہے اس شہر میں ،بستیوں کی بستیاں اللہ کا ذکر کرنے والی محافل میں آباد ہوتی ہیں۔ درود و سلام کی محفلیں سجانے والے بھی یہاں کم نہیں۔ خانوادۂ رسولؐ کی مصیبتوں پر اشک بہانے والوں کی بھی یہاں کوئی کمی نہیں ۔اللہ کسی ایک کی تو سن لے ، اور ہم پر رحم کردے ، ہم تھک چکے ہیں‘ اس شہر کی سزا معاف ہونے کو کیوں نہیں آتی۔ یہ تھی گزشتہ دو دنوں میں اس شہر کراچی میں ایک عام آدمی کی کیفیت جو میں نے وہاں دیکھی لیکن یہ کیفیت بھی تو گزشتہ دس پندرہ سال سے مستقل چلی آرہی ہے۔جب کبھی کوئی چھوٹا یا بڑا واقعہ ہوتا ہے ،کچھ دیر کے لیے لوگ ا یسے ہی پکارتے ہیں۔پھر کچھ دیر بعد اپنے خیالوں میں مگن اور کاروبار زندگی میں مست ہوجاتے ہیں۔نہیں ایسا نہیں ، اس دفعہ ایسا نہیں ہے ۔مایوسی کا عالم ہی کچھ اور ہے ۔میں نے راہ چلتے لوگوں ، ریڑھی والوں ، خوانچہ فروشوں اور ٹیکسی ڈرائیور تک جو بھی ملا سب سے یہ سوال کیا کہ ایسا کیوں ہے۔ سب کی زبان پر ایک ہی لفظ تھا ، ایک ہی دعا تھی ، ایک التجا تھی۔اللہ اس عذاب سے جان چھڑا دے ۔میں نے پوچھا کون سا عذاب، لیکن خوف کا عالم اب بھی یہی کہ کوئی عذاب کا نام لینے کو کوئی تیار نہیں۔ جو لے لیتا ہے وہ اتنی احتیاط ضرور کرتا ہے کہ کسی دوسرے کو اس کا علم نہ ہوجائے، لیکن التجا کا یہ عالم ، مایوسی کی یہ حالت ، خوف کی یہ پرچھائیاں اور مستقبل سے مایوسی میں نے اس قدر زیادہ کبھی نہ دیکھی تھی۔یہ دو دن تو ایسے تھے جیسے پوری کی پوری مخلوق مایوس ہوگئی ہو کہ اب حالات نہیں بدلنے والے۔ان اڑتالیس گھنٹوں میں جو میں نے کراچی میں گزارے ہر لمحہ سوچتا اور کریدتا رہا کہ ایسا کیوں ہے ۔ایسی مایوسی تو پہلے کبھی نہ تھی۔ہوٹل میں سامان کو مشین کے اندر گزارنے والے ایک شخص نے پتے کی بات کردی۔ کہنے لگا اب کوئی امید نہیں ہے ۔اس شہر نے آمروں سے امیدیں لگائی تھیں کہ وہ حالات سدھار دیں گے مگر وہ خاک ہوگئیں۔ انہیں بھی یہاں انہی لوگوں کی ضرورت ہے جن کے خوف سے یہ شہر کانپتا ہے۔ اس شہر نے سیاست دانوں سے خواہشوں کو وابستہ کردیا۔لیکن وہاں تو ہمت نام کی چیز اتنی بھی نہیں جتنی ایک بھتہ خور کی پرچی دیکھ کر تنہائی میں کسی شخص میں آجاتی ہے۔ اتنا بھی ملال نہیں جتنا چوراہے پر پستول نکالے نوجوان کو موبائل یا جمع پونجی دینے کے بعد آدمی کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ آنکھ میں حیا اور شرم تو نگاہیں نیچی کروا دیتی ہے لیکن شاید کیمرے کی آنکھ میں جذبات ہی نہیں ہوتے۔ اس کے سامنے سب کے سب ایک فلم کے سیٹ پر چلے جاتے ہیں۔ ادھر لائٹس آن ہوئیں، صدا بلند ہوئی ’’کٹ، ایکشن، مووو‘‘ اور سیٹ پر کھڑا ہنستا ہوا شخص رونے لگتا ہے اور روتا ہوا شخص ہنسنا شروع کردیتا ہے۔ ایک دوسرے کو گالیاں دیتا شخص ایک دم سب کچھ بھول کر بدترین دشمن کو گلے لگا لیتا ہے اور پھر اگلے ہی سین میں گلے لگے ہوئے شخص کو دھکا دیتا ہے اور گالیاں دینا شروع کردیتا ہے۔ کیا سب کچھ ایسے نہیں ہوتا یہاں۔ ایسی ہی نہیں ہیں سیاست دانوں کی مجبوریاں۔ میں نے سوال کیا‘ ایسا پہلی دفعہ تو نہیں ہوا‘ پھر اس قدر مایوسی کیوں ہے؟ کہنے لگا‘ ایک امید بندھی تھی کہ دور بیٹھا فلم کا ڈائریکٹر شاید خود ہی فلم کا آخری سین فلما رہا ہے‘لیکن اس نے تو سارے کرداروں کو ایک ساتھ جمع کرکے ’’باقی آئندہ‘‘ کا کارڈ دکھا دیا۔ یہ باقی آئندہ بھی ویسا ہی ہوگا، اتنا ہی خوفناک بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ۔ ہم تو مایوس ہوگئے ہیں۔ ایک نے تو میرا گریبان ہی پکڑ لیا۔ ان پر عذاب کیوں نہیں ٹوٹتا۔ میں نے کہا عذاب کی خواہش مت کیا کرو۔ اللہ کہتا ہے ’’ڈرو اس وبال سے جو تم میں صرف ان لوگوں پر نہیں پڑے گا جنہوں نے ظلم کیا ہوگا (الانفال 25)۔ ایسا تو ہم روز سہہ رہے ہیں‘ کوئی راستہ ہے؟ میں نے کہا‘ جتنی امیدیں تم نے ابھی چند دن قبل دور بیٹھے فلم کے ڈائریکٹر سے لگا لی تھیں اور سوچ لیا تھا کہ اب فلم کا اختتام ہونے والا ہے، ڈائریکٹر کی اپنی عزت دائو پر لگ چکی ہے۔ اس سے آدھی یکسوئی کے ساتھ صرف یہ سوچ کر اللہ سے امیدیں وابستہ کر لو کہ وہی ہے جو دنوں کو بدلتا ہے۔ وہ بلائوں کو ٹالتا ہے، وہ خوف میں امن دیتا ہے، وہ دلوں کو جوڑتا ہے اور سب سے بڑھ کر اس کا یہ دعویٰ کہ کوئی مصیبت آ ہی نہیں سکتی جب تک اللہ کا اذن نہ ہوجائے (التغا بن) تو پھر دیکھو فلموں کی آخری ریلیں کیسے چلتی ہیں۔ لیکن اگر سننا اور اطاعت کرنا جو صرف اللہ کا حق ہے اس حق کا حقدار کسی اور کو ٹھہراتے رہو گے تو یہ فلم چلتی رہے گی، باقی اگلی قسط میں‘ باقی آئندہ… ایک قسط گالیاں دینے والے اگلی قسط میں دوست اور اگلی قسط میں پہلی قسط کے جانی دشمن ،جگری یار۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved