تجارتی خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ ڈالر بھی اندازوں سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ سٹاک مارکیٹ کریش ہونے کے قریب ہے‘ سعودی عرب سے ملنے والے قرض میں تاخیر ہوئی اور مہنگائی کی شرح بھی پچھلے اکیس ماہ کا ریکارڈ توڑ چکی ہے لیکن سرکار خوش ہے کہ اس نے پراپرٹی کا کاروبار کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے‘ پراپرٹی کی قیمت مارکیٹ ریٹ کے قریب لے آئی ہے اور منی بجٹ پیش ہونے جا رہا ہے‘ بلکہ مشیر خزانہ نے فاتحانہ انداز میں بتایا کہ منی بجٹ پیش ہونے سے مہنگائی میں اضافہ نہیں ہو گا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہم کوئی نیا ٹیکس نہیں لگا رہے صرف تقریباً 300ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کر رہے ہیں۔ ترین صاحب کے اس بیان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستانی عوام کو کتنا معصوم سمجھتے ہیں۔آج کے دور میں معصوم کو بیوقوف گردانا جاتا ہے۔ شاید ان کا ایسا سمجھنا جائز بھی ہے کیونکہ عوام ان کے بیانات اور عمل کے خلاف ایکشن لیتے دکھائی نہیں دیتے۔ ملکی معیشت کی بدتر صورتحال کے باوجود عوام کا یہ رویہ اس امر کی دلیل ہے کہ عوام کو شاید سرکاری مشیروں کے بیانات‘ وعدوں اور دعووں پر یقین ہے ورنہ کوئی ان سے یہ پوچھنے کی جرأت ضرور کر لیتا کہ ٹیکس چھوٹ ختم کرنے یا نیا ٹیکس لگانے میں کیا فرق ہوتا ہے اور ٹیکس چھوٹ ختم کرنے سے مہنگائی میں کیسے اضافہ نہیں ہو گا۔ جب اشیا درآمد کرنے والوں پر ٹیکس چھوٹ ختم ہو گی تو فیکٹری اور دکاندار قیمتیں بڑھا دیں گے اس کی ادائیگی عام آدمی کو کرنا ہو گی جس سے قوت خرید کم ہو گی اور مہنگائی بڑھے گی۔ اس عمل سے ٹیکس آمدن بڑھ سکتی ہے لیکن اسے دیر پا حل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ایک بوجھ ہے جس سے عام آدمی کے مسائل میں اضافہ ہو گا۔یہ سلسلہ صرف ترین صاحب تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ رزاق داؤد بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے دکھائی دیتے ہیں۔ تجارتی خسارے میں ریکارڈ اضافے کے بعد انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ موجودہ مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران پاکستانی برآمدات میں پچھلے سال کے انہی مہینوں کی نسبت 27فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن وہ یہ بتانا بھول گئے کہ انہی پانچ ماہ میں تجارتی خسارہ117فیصد سے زائد بڑھا ہے اور درآمدات میں72فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ اب تک تقریباً 8بلین ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔ یہ پورا سچ ہے اور کارکردگی کا معیار جانچنے کے لیے اس کا انہی پیمانوں سے ناپا جانا ضروری ہے۔مشیروں کا سیانا ہوناملک کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے لیکن انہیں عوام کو بیوقوف بنانے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔
وزرا اور مشیران یہ بھی بتائیں کہ عوام پر تو معاشی بوجھ ڈالا جا رہا ہے لیکن ملک کو ایک ہی دن میں اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچانے والے مافیاز کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ مہنگائی میں اضافے کی وجہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ بتایا جاتا ہے اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ درآمدات میں اضافہ بتایا جاتا ہے لیکن اس اضافے کے پس پردہ حقائق پر بات نہیں کی جا رہی۔ ماضی میں عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں 110 ڈالر فی بیرل بھی رہی ہیں لیکن اس وقت بھی پٹرول 120 روپے فی لیٹر سے زیادہ نہیں بڑھا تھا۔ اس ریٹ میں پٹرولیم لیوی اور سیلز ٹیکس سمیت تمام چارجز شامل ہوتے تھے۔ آج پٹرول 75 ڈالر فی بیرل ہے لیکن پاکستان میں فی لیٹر ریٹ 146 روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ اگر بین الاقومی مارکیٹ میں تیل کی قیمت 100 ڈالر فی بیرل تک پہنچ جائے تو پاکستان میں پٹرول کی قیمت کہاں تک بڑھے گی یہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہے۔ دبئی میں ڈالر کی قیمت سالانہ بنیادوں پر طے کر دی جاتی ہے‘ حکومت خود ڈالر کنٹرول کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر سے کاروبار دبئی منتقل ہو رہا ہے لیکن جب سے پاکستان میں ڈالر آزاد ہوا ہے اسے مارکیٹ کو خراب کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ملٹی نیشنل ادارے اور بڑے سرمایہ کار بڑا شیئر اٹھا کر ڈالر کی قلت پیدا کرتے ہیں اور منافع کماتے ہیں۔ اس حوالے سے گورنر سٹیٹ بینک کا بیان اہمیت کا حامل ہے۔ رضا باقر کے مطابق مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ حکومت کے قابو میں نہ آنے کی وجہ بینک ہیں۔ انہوں نے بیان دیا کہ بینک ڈالر کی خریدوفروخت کے ذریعے پیسہ بنا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک بینک کے وائس پریذیڈنٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گورنر سٹیٹ بینک کا خدشہ درست ہے۔ ایسے اکاؤنٹ ہولڈرز جو کروڑوں ڈالرز کی درآمدات کرتے ہیں‘ بینک انہیں تجویز کر رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ڈالر مزید بڑھ جائے گا اس لیے آج کے ریٹ پر ڈالر بُک کروا لیں۔ بینک اس کے بدلے اپنی فیس چارج کرتا ہے اور کروڑوں ڈالرز خرید کر رکھ لیتا ہے جس سے مارکیٹ میں ڈالر کی سپلائی کم ہو جاتی ہے۔ پھر انٹر بینک ریٹ بڑھایا جاتا ہے اور مزید منافع کمایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈالر ریٹ میں بہت تیزی سے اتار چڑھاؤ آ رہا ہے۔شوکت ترین کا ڈالر کے ریٹ میں تقریبا ًدس روپے اضافے کی ذمہ داری مافیاز پرڈالنا شاید انہی حقائق کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔وائس پریذیڈنٹ نے بتایا کہ سارا ملبہ صرف بینکوں پر ڈال دینا مناسب نہیں‘ اس میں منی ایکسچینجز کا بھی کردار ہے جس پر بات کرنا ضروری ہے۔ میں کئی ایسے کسٹمرز کو جانتا ہوں جو ماہانہ بنیادوں پر کروڑوں ڈالرز کی ہنڈی کرواتے ہیں۔ بینک سے کیش نکلوا کر منی ایکسچینج کمپنیوں کو دیا جاتا ہے جو دبئی کے راستے ہنڈی کروایا جاتا ہے۔ جس سے روپے پر دباو ٔبڑھتا ہے اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے بتایا کہ منی ایکسچینج کمپنیوں پر ہنڈی کروانے کا الزام غلط ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے کنٹرولز اس قدر سخت ہیں کہ ہم ان کی نظروں سے بچ نہیں سکتے۔ جہاں پانچ سو ڈالر سے زائد خریدنے والوں کے انگوٹھوں کے نشانوں کی آن لائن تصدیق کروائی جاتی ہے وہاں منی لانڈرنگ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ گورنر سٹیٹ بینک نے بینکوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے وہ بالکل درست ہے۔ حال ہی میں بینکوں کو کروڑوں روپوں کے جرمانے بھی اسی وجہ سے کیے گئے ہیں۔ پراچہ صاحب کی رائے محترم ہے لیکن یہ ماننا مشکل ہے کہ منی ایکسچینج بالکل بھی اس دھندے میں ملوث نہیں ہیں۔ایف آئی اے اس حوالے ے تحقیقات کر رہا ہے اور بہت سے منی ایکسچینج کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی چل رہی ہیں۔ کون غلط ہے یا کون درست ہے اس بارے میں فیصلہ تحقیقات کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے لیکن اس معاملے میں سٹیٹ بینک کی مبینہ ناکامی کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ چاہے بینک ڈالر کی مارکیٹ خراب کر رہے ہیں یا منی ایکسچینج ڈالر سمگل کر رہے ہیں‘ اصل ذمہ داری سٹیٹ بینک کے کندھوں پر ہے کیونکہ دونوں کی ریگولیٹری باڈی سٹیٹ بینک ہے اور گورنر سٹیٹ بینک جب چاہے ان کے خلاف ایکشن لینے کا اختیار رکھتاہے۔ جن بینکوں پر شک ہے وقتی طور پر ان کے لائسنس معطل کر کے اور میڈیا میں ان کے نام جاری کر کے حقائق عوام کے سامنے رکھے جا سکتے ہیں اس سے دیگر بینک بھی محتاط ہو جائیں گے اور ڈالر اپنی اصل جگہ پر آ سکے گا۔سٹیٹ بینک کی جانب سے صرف تنقید کر دینا مافیاز کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ بینکوں کے سربراہان نجی محفلوں میں یہ بات کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ سٹیٹ بینک چند کروڑ کا جرمانہ ہی کر سکتا ہے جسے ہم ایک گھنٹے کے جھٹکے میں کما سکتے ہیں۔ شاید ان کا یہ دعویٰ درست بھی ہے۔