تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     05-12-2021

ڈپریشن سے بچنا ہے

تاریخ کا ریکارڈ کھنگالیے تو اندازہ ہوگا کہ کسی بھی دور کا انسان مختلف النوع ذہنی الجھنوں سے مبرّا نہیں رہا۔ ہر دور کے انسان کو مختلف معاملات میں کم یا زیادہ شدت کے ذہنی دباؤ اور تناؤ کا سامنا رہا ہے۔ ہر دور چند چیلنج لاتا ہے اور ہر چیلنج سے کسی نہ کسی حد تک تو نمٹنا ہی پڑتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انسانوں کے لیے کوئی ذہنی الجھن پیدا ہی نہیں ہوئی۔ عمومی سطح پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ جن کے مالی حالات خراب ہوں اُنہیں زیادہ ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ذہنی دباؤ مختلف النوع ہوتا ہے یعنی کسی بھی معاملے میں جب توازن برقرار نہیں رہتا تب ذہن پر دباؤ بڑھتا ہے اور انسان خود کو بند گلی کی طرف جاتا ہوا محسوس کرتا ہے۔
ذہنی پر پڑنے والے دباؤ کو عمومی سطح پر ڈپریشن کہا جاتا ہے۔ یہی لفظ شدید معاشی خرابی یعنی کساد بازاری کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ دیگر بہت سے معاملات میں بھی لفظ ڈپریشن استعمال ہوتا ہے۔ انسانوں کے معاملے میں اس لفظ کا استعمال بنیادی پر حالات کے دباؤ سے پیدا ہونے والی کیفیت کے لیے ہے۔ آج کا انسان شدید ڈپریشن کا شکار ہے۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ بنیادی یا کلیدی وجہ تو یہ ہے کہ وسائل پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ہر دور کی طرح آج کا انسان بھی اپنی بہت سی خواہشات کی تکمیل چاہتا ہے مگر وسائل کے معاملے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ ایسے میں ذہن پر شدید دباؤ کا مرتب ہونا فطری امر ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ڈپریشن اصلاً مرض کم اور امراض کی علامت زیادہ ہے۔ ہم بہت سے معاملات میں خود کو الجھنوں سے دوچار اور مجبور پاتے ہیں۔ بہت سی خواہشیں تکمیل کی منزل سے دور رہتی ہیں۔ ایسے میں ذہن شدید دباؤ محسوس کرتا رہتا ہے۔ بعض معاملات میں ہم نے ذہنی تناؤ یا دباؤ کو خواہ مخواہ پال رکھا ہے۔ اگر کوئی معاملہ ہماری دسترس میں نہ ہو اور ہم بہت کوشش کرنے پر اُسے طے کرنے کی پوزیشن میں نہ آسکیں تو ذہن پر دباؤ مرتب ہوتا ہے۔ یہ زبردستی کا معاملہ ہے۔ مثلاً اگر کوئی یہ طے کرلے کہ کسی بڑے ادارے کا سربراہ بنے گا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُس میں ایسا کرنے کے لیے مطلوب اہلیت اور سکت ہے بھی یا نہیں۔ محض خواہش کرلینے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اور پھر غیر منطقی خواہش؟ یہ تو اپنے ہی وجود پر ظلم ڈھانے والا معاملہ ہوا۔ اپنی بساط سے بڑھ کر کچھ بھی چاہنا در حقیقت اپنی ہی گردن کو پریشانیوں کے پھندے میں دینے کے مترادف ہے۔
آج معاشی ناہمواریاں زیادہ ہیں۔ یہ بھی فطری عمل ہے کیونکہ ریاستوں اور شہروں کی آبادیاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ ایسے میں کشمکش بھی بڑھ گئی ہے۔ سبھی چاہتے ہیں کہ بہت کچھ حاصل ہو۔ کامیابی سب چاہتے ہیں مگر کتنی کامیابی‘ اس کا تعین کوئی نہیں کرتا۔ اپنے وسائل اور صلاحیت و سکت کو ذہن نشین رکھے بغیر مختلف جہتوں میں بھرپور کامیابی کی خواہش کرنے سے دل و دماغ پر غیر معمولی دباؤ مرتب ہوتا ہے۔ کسی بھی غیر منطقی معاملے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ڈپریشن سے بچنے کے بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں۔ عمومی سطح پر لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ چند ایک دواؤں کے استعمال سے ذہنی دباؤ کی سطح نیچے لائی جاسکتی ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے مگر صرف ایسا ہی ممکن نہیں۔ ذہنی دباؤ کا تعلق بنیادی طور پر دماغ سے نہیں‘ ذہن سے ہے۔ دماغ یعنی گوشت کے ریشوں کا لوتھڑا۔ ذہن یعنی دماغ میں رونما ہونے والے عمل کا نتیجہ۔ دماغی بیماریوں کا علاج دواؤں سے ممکن ہے۔ ذہنی امراض کے علاج کے لیے دوائیں اُتنی لازم نہیں جتنی مشاورت ناگزیر ہے۔ ذہنی تناؤ دور کرنے کے لیے علمی و اخلاقی تربیت لازم ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
ماہرین کا زور اس نکتے پر ہے کہ ڈپریشن سے نجات کے لیے انسان کو orientation اور conditioning کی طرف جانا چاہیے۔ ہمارے ماحول میں ایسا بہت کچھ ہے جو دل و دماغ پر شدید منفی اثرات مرتب کرتا رہتا ہے۔ ان منفی اثرات سے نجات پانے کے لیے لازم ہے کہ ذہنی تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ ذہنی تربیت میں بہت کچھ شامل ہے۔ انسان کو مشاورت بھی کرنا پڑتی ہے‘ پڑھنا بھی پڑھتا ہے‘ خیالات کا تبادلہ بھی کرنا پڑتا ہے اور مباحث میں حصہ بھی لینا پڑتا ہے۔ جو کچھ ذہن میں پیدا ہوتا ہے اُسے باہر لانے ہی کی صورت میں اُس کے درست استعمال کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اگر ذہن الجھا ہوا ہو تو الجھنوں کو پوری شرح و بسط سے بیان کرنے ہی میں دانش مندی ہے۔ اگر کوئی معاملہ ذہن میں اٹکا ہوا ہو تو انسان بہت سے دوسرے معاملات میں بلاجواز طور پر الجھا ہوا رہتا ہے۔ یہ کیفیت اُسے کسی بھی کام میں دل لگانے کے قابل نہیں چھوڑتی۔ جب انسان اپنے معاملات میں دلچسپی نہیں لیتا تب محنت کے مطلوب نتائج بھی ممکن نہیں بنائے جاسکتے۔ یوں ذہن کی پیچیدگی بڑھتی ہے۔ بہت سے معاملات اگر ذہن میں اٹکے رہیں یعنی باہر نہ لائے جائیں‘ بیان نہ کیے جائیں تب معاملات الجھتے چلے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ انسان کا اپنا کیا دھرا ہوتا ہے۔
کوئی ایک بھی معاشرہ ڈپریشن سے مکمل طور پر پاک یا محفوظ نہیں۔ ہو بھی نہیں سکتا۔ ڈپریشن ایک ایسی کیفیت ہے جو مختلف النوع عوامل سے پیدا ہوتی ہے۔ ڈپریشن کی سطح کو کم خطرناک سطح پر رکھنے میں وہی لوگ کامیاب ہو پاتے ہیں جو دن رات اس امر کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ بہت سے کامیاب افراد بھی شدید ڈپریشن کا شکار پائے گئے ہیں۔ شدید غربت کی طرح بے مثال مالی آسودگی بھی ڈپریشن کو جنم دیتی ہے۔ علمی‘ اخلاقی اور معاشی طور پر پس ماندہ سمجھے جانے والے گھرانوں کی طرح ان تینوں معاملات میں مضبوط سمجھے جانے والے گھرانوں میں بھی ڈپریشن پایا گیا ہے۔ ہر کیفیت کے اپنے اثرات ہیں۔ کچھ لوگ زندگی کے ہر معاملے میں ناکام رہنے پر ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں اور کچھ لوگ محض اس لیے بھی ڈپریشن کا شکار رہتے ہیں کہ اُنہیں اپنی بھرپور کامیابی کو ہر حال میں برقرار رکھنے کا احساس ستاتا رہتا ہے۔ کامیابی کا حصول اُتنی بڑی آزمائش نہیں جتنی بڑی آزمائش ہے اُسے برقرار رکھنے کے لیے کی جانے والی تگ و دَو۔ مغرب کے انتہائی ترقی یافتہ معاشرے ہوں یا تیسری دنیا کے انتہائی پس ماندہ معاشرے‘ سبھی کو کسی نہ کسی سطح پر ڈپریشن کا سامنا ہے۔ ماہرین کی اجمالی رائے یہ ہے کہ شدید ڈپریشن سے وہی لوگ بہت حد تک محفوظ رہ سکتے ہیں جو خود کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق تبدیل کرنے کے لیے تیار پاتے ہیں۔ فی زمانہ تبدیلیوں کا بازار گرم ہے۔ بہت کچھ دیکھتے ہی دیکھتے بدل جاتا ہے۔ بعض شعبوں میں انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ اور یہ سلسلہ اب تک تھما نہیں۔ ایسے میں کسی کا جامد رہنا انتہائی خطرناک ہے۔ انسان کو ماحول کے مطابق بدلنا ہی چاہیے۔ ایسا نہ کیا جائے تو ذہنی پس ماندگی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ یہی ذہنی پس ماندگی ڈپریشن کی راہ ہموار کرتی ہے۔ بدلتے ہوئے حالات انسان کو مقابلے کے لیے تیار ہونے کی تحریک دیتے ہیں۔ حالات کی پکار پر لبیک نہ کہنا انسان کو بیشتر معاملات میں سمجھوتا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ڈپریشن سے لڑنے کے معاملے میں ترقی یافتہ معاشرے خاصا اہتمام کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے معاشروں میں اس طرف توجہ دینے والے کم ہیں۔ حکومتی سطح پر ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ عوام کو ڈپریشن سے بچانا نمایاں ترجیحات میں شامل ہے۔
اگر ماہرین کے طے کردہ معیارات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو پاکستانی معاشرے میں کم و بیش 30 فیصد افراد شدید قسم کے ڈپریشن میں مبتلا ملیں گے۔ آج کے پاکستان کو ذہنی صحت کے حوالے سے غیر معمولی سطح کے شعور کی ضرورت ہے۔ عوام کو مختلف طریقوں سے یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ ڈپریشن خود بہ خود پیدا ہوتا ہے نہ خود بہ خود ختم ہوتا ہے۔ لازم ہے کہ ڈپریشن پیدا کرنے والے عوامل پر نظر رکھی جائے۔ حقیقت پسندی سے شغف رکھنے والا کوئی بھی شخص ڈپریشن سے بچنے کی کوشش کر بھی سکتا ہے اور اس کوشش میں کامیاب بھی ہوسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ذہنی دباؤ کو حقیقت پسندی کے ساتھ قبول کرنے کی رضامندی پائی بھی جاتی ہے یا نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved