تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     05-12-2021

کھیل سے آگے

ٹیم ہار کر بھی جیت گئی۔ دادو تحسین کا سلسلہ جاری رہا ۔ متاثر کن کہانی‘ حیران کن مناظر‘میدان میں اچھی کارکردگی دلوں میں گھر کر جانے والا رویہ۔ پاکستانی ٹیم کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا خواب سیمی فائنل میں تمام ہوالیکن حوصلہ افزائی کا سفر جاری ہے۔چٹاگانگ ٹیسٹ میں پاکستان نے بنگلادیش کو 8 وکٹوں سے شکست دی اور پاکستانی اوپننگ بلے بازوں عابد علی اور عبداللہ شفیق نے دونوں اننگز میں سنچری پارٹنر شپ قائم کر کے اٹھارہ سالہ ریکارڈ توڑ دیا۔ عام طور پر آئی سی سی ورلڈ کپ میں رنز‘ وکٹ‘ کیچ‘ چھکے‘ چوکے ہوتے ہیں لیکن آئی سی سی 2020ورلڈ کپ رویے‘ کردار اور انسانیت کے حیران کن جذبے سے عبارت دکھائی دیا۔ یہ ٹورنامنٹ خاص تھا کیونکہ یہ ایک سال کی تاخیر سے منعقد ہوا تھا۔ یہ ٹورنامنٹ خاص تھا کیونکہ یہ میزبان ملک سے باہر کھیلا جارہا تھا۔ یہ ٹورنامنٹ خاص تھا کیونکہ اس نے کرکٹ کی تاریخ کی کچھ مضبوط ٹیموں پر فخر کیا۔ پاکستان کے لیے یہ ایک بہت ہی خاص امتحان تھا کیونکہ:
1۔ مسترد شدہ ٹیم : ورلڈ کپ کے لیے پاکستان کی تیاری کا زیادہ تر انحصار نیوزی لینڈ اور انگلش ٹیم کے دوروں پر تھا۔ دونوں ٹیمیں دوروں سے دست بردار ہوگئیں۔ پاکستان کے لیے انتہائی مایوس کن صورت حال تھی۔ اس کا کریڈٹ پاکستان کرکٹ بورڈ کو دینا چاہیے جس نے معاملات کو خوش اسلوبی اور باوقار طریقے سے سنبھالا۔ کرکٹ کی دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ رکھا کہ یہ کتنا غیر منصفانہ اور غیر منطقی ہے۔ دنیائے کرکٹ نے اس پر اپنا ردعمل دیا۔ مجموعی رائے یہی تھی دونوں ٹیموں کی طرف سے پاکستان کے دورے سے دست بردار ہونے کی جو وجوہات بیان کی گئی تھیں وہ بودی اور بے سروپا تھیں۔ سابق کرکٹروں نے اس ڈراپ آؤٹ پر کڑی تنقید کی۔ دنیا بھر کے مبصرین نے تیز و تند بیانات دیے۔ اس سے دونوں بورڈ واضح طور پر بے چین ہوگئے اور آسٹریلیا جیسے دوسرے بورڈ جنہیں پاکستان کا دورہ کرنا تھا وہ اپنے فیصلوں میں قدرے محتاط دکھائی دیے۔ سب سے اچھی بات یہ تھی کہ ناقدین نے موسم گرما سے پہلے انگلینڈ میں پاکستان کے مثالی رویے کا موازنہ ان دونوں ممالک کے دوروں کی منسوخی کے شرم ناک فیصلے سے کیا ۔ یہ نہ صرف کرکٹروں بلکہ پاکستانی عوام کے حوصلے کی بحالی کا پہلا موڑ تھا۔
2۔ سخت حریف: ورلڈ کپ میں جان توڑ مقابلے ہوتے ہیں۔چوٹی کی ٹیمیں ایسا ماحول بناتی ہیں جو اِن کی جیت کا تاثر گہرا کرتا جاتا ہے۔ پاکستان ٹی ٹوئنٹی مقابلوں کی ہمیشہ سے ہی اچھی ٹیم ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں اس فارمیٹ میں اس کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ جن ٹیموں کو مجموعی طور پر فیورٹ قرار دیا گیا ان میں انڈیا اور انگلینڈ شامل تھے۔ انڈیا میزبان تھا اور اس کے پاس ایک ٹیم تھی جس کی حالیہ کارکردگی نے اسے ایک سخت جان ٹیم بنا دیا تھا۔ مزید یہ کہ وہ دبئی میں پچھلے ایک مہینے سے آئی پی ایل کھیل رہے تھے۔ زیادہ تر ماہرین نے انڈیا کو ناقابل تسخیر قرار دے رکھا تھا اور پھر پاکستان پر ورلڈ کپ کے کسی بھی میچ میں انڈیاکو نہ ہرانے کے ریکارڈ کا بھی بوجھ تھا۔ ٹورنامنٹ کے پہلے ہی میچ میں طاقتور انڈیاکے خلاف خام دکھائی دینے والی پاکستانی ٹیم پر بھارتی ماہرین کو ''ترس‘‘ آرہا تھا کہ اس کا ایک بار پھر کام تمام ہونے جارہا ہے ‘لیکن پاکستان کے پاس اُنہیں حیران کرنے کے لیے بہت کچھ تھا۔
3۔ پچھلے قدموں پر قوم : پچھلی چند دہائیوں سے پاکستانی اپنے اور اپنے ملک کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اسے ایک غیر محفوظ اورغیر مستحکم ملک قرار دیا جاتا رہا۔ حقیقی پاکستانی جذبہ مدافعانہ انداز اپناتے ہوئے دب کر رہ گیا۔ اس طرح جب ریاستی سطح کی سکیورٹی کے باوجود نیوزی لینڈ نے پاکستان کا دورہ غیر محفوظ قرار دیا تو زیادہ تر پاکستانیوں نے محسوس کیا کہ پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کی تمام محنت رائیگاں چلی گئی ہے۔ مایوسی‘ غصے اور ناامیدی کی فضا گہری تھی۔ اس تناظر میں لوگ واقعی کرشمات کی توقع نہیں کر رہے تھے لیکن کرشمے ہوئے اور وہ ہوا جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ ایسا نہیں کہ ہم ورلڈ کپ جیت گئے‘ درحقیقت ہم سیمی فائنل بھی نہیں جیت سکے لیکن فتح کا احساس بہت گہرا اور دیرپاہوتا ہے جو کچھ ہوا اس نے تقریباً پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ کسی کو بھی احساس نہیں تھا کہ ان عوامل کے دور رس اثرات کیا ہوں گے:
1۔ امکان سے بڑھ کر کارکردگی: کارکردگی جانچ کا پہلا پیمانہ ہے۔ ایک ٹیم جسے بہت حد تک غیر یقینی اورسیماب صفت کہا جاتا تھا‘نے ناقابل یقین مستقل مزاجی اور تسلسل کا مظاہرہ کیا۔ بھارت کے خلاف افتتاحی میچ میں گیند اور بلے سے تاریخ رقم کردی۔ دنیا‘ بالخصوص بھارتی حیرت سے آنکھیں مل رہے تھے۔ اکثر لوگوں نے اسے محض اتفاقیہ خوش قسمتی قرار دیا لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف شاندار کارکردگی دہرائی گئی۔ اور ٹیم کئی ایک کھلاڑیوں کی زبردست کارکردگی سے ناقابل شکست رہ کر سیمی فائنل میں پہنچ گئی۔ تیز گیند بازوں کی رفتار اور مہارت‘ سپنرز کی چال اور بلے بازوں کے معیار نے ناقدین کو تعریف کرنے پر مجبور کردیا۔
2۔ ناقابل تسخیر جذبہ : شاید سب سے زیادہ متاثر کن واقعات میدان کے باہر پیش آئے۔ سیمی فائنل سے کچھ گھنٹے قبل محمد رضوان کا آئی سی یو بیڈ پر ہونا ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ انہیں تشویشناک حالت میں لایا گیا تھا لیکن اپنے ملک کے لیے کھیلنے کی ان کی خواہش ایسی تھی کہ انہوں نے بیماری پر قابو پا کر ایک اور یادگار اننگز کھیلی۔محمدرضوان کا علاج کرنے والے ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ محمدرضوان میں اپنی قوم کے لیے سیمی فائنل کھیلنے کا بے پناہ جذبہ تھا۔وہ آئی سی یو میں بار بار کہتے تھے مجھے کھیلنا ہے،ٹیم کے ساتھ رہنا ہے۔ڈاکٹر کے بقول محمد رضوان کے ذہن میں سیمی فائنل کے علاوہ اور کچھ نہ تھا، وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کئی کھلاڑیوں کی انجری کا معائنہ کیا ،رضوان سب سے جلد صحت یاب ہوئے۔ محمد رضوان آئی سی یو میں مضبوط، پرعزم اور پراعتماد تھے ،جس تیزی سے وہ صحت یاب ہوئے وہ ڈاکٹروں کے لیے بھی حیران کن تھا۔محمد رضوان کے اس جذبے پرسابق آسٹریلین بلے باز اور پاکستانی بیٹنگ کوچ میتھیو ہیڈن نے محمد رضوان کی تعریف کرتے ہوئے انہیں جانباز قرار دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ رضوان آسٹریلیا کی ناؤڈبونے ہی والے تھے۔ شعیب اختر نے بھی محمد رضوان کے جذبے کو بھرپور سراہا۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں محمد رضوان کی آئی سی یو کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ کیا تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس شخص نے پاکستان کے لیے اپنی صحت کو لاحق خطرات کو پس پشت ڈالتے ہوئے نہ صرف میچ میں حصہ لیا بلکہ کارکردگی بھی خوب دکھائی۔حقیقت یہ ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود ٹیم نے ایسی ولولہ انگیز استقامت کا مظاہرہ کیا جس پر ٹورنامنٹ ختم ہونے کے بعد بھی دنیاحیران تھی۔
3۔ کردار اور اقدار: اس ٹیم کو کپ جیتنے والوں سے زیادہ شہرت اور حمایت ملی۔ کارکردگی آپ کو پذیرائی دیتی ہے‘کردار آپ کو متاثر کن بناتا ہے۔ جس چیز نے درحقیقت ہر کسی کا دل جیت لیا وہ مثالی کردار اور انسانی رویہ تھا۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی جارحانہ نوعیت نے اسے فتح کے لیے تصادم میں بدل دیا۔ پاکستانی کھلاڑیوں کو جو چیز ممتاز کرتی ہے وہ ان میں خیر سگالی اور منکسرالمزاجی کا جذبہ ہے۔ نمایاں طور پر دیکھنے میں آیا کہ وہ اپنی تقریبات میں چھوٹی ٹیموں کو شامل کرتے ہیں ‘ نوجوان کھلاڑی سینئر کھلاڑیوں کو اپنا رول ماڈل قرار دیتے ہیں‘ چاہے اُن کا تعلق کسی بھی ٹیم سے ہو۔ یہ ٹیم عزم‘ دوستی‘ خیر سگالی‘ جوش اور حب الوطنی کی سفیر دکھائی دی۔
کرکٹ شریفوں کا کھیل تھالیکن کمرشل ازم اور کنزیومرازم نے اس کی روح کو دبا دیا ۔ہر کھیل میں پیسہ کمانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر کھلاڑی کو اپنے کھیل کے دنوں کے بعد لیے کافی رقم کمانے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن میچ فکسنگ‘ سپاٹ فکسنگ‘ کھلاڑیوں کی نیلامی نے کھیل کو ایک بے رحم کاروبار بنا دیا۔ دھوکہ دہی‘ ٹمپرنگ‘ ڈاکٹرنگ نے کھیل کی اصل خوبصورتی کو نقصان پہنچایا ۔ کسی نہ کسی طرح یہ تاثر پیدا ہو گیا تھا کہ جب تک تم بدتمیز‘ خود پسند‘ مغرور نہیں بنو گے‘ تمہارا شمار نہیں ہوگا۔ T20 ورلڈ کپ میں پاکستان نے جو کچھ کیا وہ کھیل کی بنیادی اقدار کے اصل جوہر کو یاد دلانے‘ دوبارہ زندہ کرنے اور فروغ دینے کے طور پریادرکھا جائے گا۔ کھیل کے جذبے کا یہی احیاء ہے جس نے آسٹریلیا‘ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ جیسی دیو قامت ٹیموں کو پاکستان کا دورہ کرنے کے خواہش مند بنا دیا ۔ یہ کھیل کی میراث کی بحالی ہے جس نے آئی سی سی کو چیمپئنز ٹرافی 2025 کی میزبانی کے حقوق ایک ایسے ملک اور ٹیم کو دینے پر آمادہ کیا جس نے کھیل سے باہر دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved