مسئلہ یہ نہیں کہ ہجوم گردی یہاں انسانوں کو ہلاک کر رہی ہے اور ایک عرصہ سے ہلاک کر رہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں طاقت ور کو سزا نہیں ملتی خواہ وہ قتل ہی کیوں نہ کر دے۔ اور ہجوم یہاں طاقت ور ہے۔
ہجوم ہو یا ریاست، جاگیردار ہو یا پولیس، پلوٹوکریسی (دولت شاہی، دھَن راج) کا رکن ہو یا قانونی ماہرین یا کسی سامراجی قوت کا نمائندہ، یہ سب اس ملک میں قتل کا ارتکاب کرنے کے بعد سزا سے بچ جاتے ہیں! بچ نہیں جاتے، بچائے جاتے ہیں۔ ان طاقت ور عناصر کو، کوشش کر کے، جدوجہد کر کے، قانون کی گرفت سے بچایا جاتا ہے۔ کوئی ایک مثال بھی شاید نہ ملے جس میں کسی طاقت ور عنصر کو سزا ملی ہو۔ ماضی قریب ہی کی تاریخ دیکھ لیجیے۔ کوئٹہ میں ایک سردار نے ٹریفک پولیس کے سپاہی کو جان بوجھ کر، دن کی روشنی میں، مار دیا! کچھ بھی نہیں ہوا۔ کراچی میں جاگیردار کے بیٹے نے نوجوان کو گولی مار دی۔ سزائے موت تو دور کی بات ہے، طاقت ور عناصر جیل میں بھی جائیں تو ان کے کمرے فائیو سٹار ہو جاتے ہیں۔ لاہور میں ایک فیوڈل کے صاحبزادے نے سولہ سالہ یتیم بچے کو ہلاک کر دیا۔ کوئی سزا نہیں ملی۔ وفاقی دارالحکومت میں طاقت ور پولیس نے اسامہ ستی کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ کیا کسی کو معلوم ہے کہ انہیں بدلے میں سزائے موت دی گئی؟ پلوٹوکریسی کی ممتاز رکن، ایک خاتون، کی گاڑی نے چار معصوم نوجوانوں کو کچل دیا۔ کیا ہوا؟ ناظم جوکھیو کے قتل کو تو ڈیڑھ مہینہ بھی نہیں ہوا۔ اس نے ان پرندوں کے شکار کی وڈیو اپ لوڈ کی تھی جو طاقت ور غیر ملکی، طاقت ور میزبان کی مدد سے کھیل رہے تھے۔ ہمارے نظامِ انصاف کا کرشمہ دیکھیے کہ مقتول کے ورثا ہی پیچھے ہٹ گئے۔ قانون دان ایک اور طاقت ور گروہ ہیں۔ انہوں نے ہسپتال ہی پر ہلہ بول دیا۔ کتنے ہی مار دھاڑ، اور گھیراؤ کے واقعات ان حضرات کے نامۂ اعمال میں ہیں‘ مگر کسی کی جرأت نہیں کہ ذمہ داروں کو ہاتھ بھی لگائے۔ جناب علی احمد کرد کی جرأت اور حق گوئی کے کیا کہنے! مگر اپنی برادری کی قانون شکنی پر انہیں کبھی کچھ کہتے نہیں سنا۔ اوپر ہم نے سامراجی طاقتوں کے نمائندوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ بھی پاکستان آئیں تو چوٹی کے طاقت ور عناصر میں شمار ہوتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس اس کی روشن، چمکتی ہوئی مثال ہے۔ طاقت کی انتہا ملاحظہ ہو کہ عدالتی کارروائی کی لمحہ بہ لمحہ روداد، کمرۂ عدالت ہی سے، امریکہ کی ایک طاقت ور شخصیت کو بھیجی جاتی رہی۔ حال ہی میں ایک طاقت ور خاندان کے چہیتے چشم و چراغ نے ایک لڑکی کا سر اس کے جسم سے کاٹ کر الگ کر دیا مگر تاحال پیشی پیشی ہی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور اب تو ماشااللہ یہ نکتہ بھی سامنے لایا جا چکا ہے کہ قاتل کے ذہنی معائنہ کے لیے میڈیکل بورڈ قائم کیا جائے۔ ہجوم گردی کے بے شمار واقعات رونما ہوئے ہیں۔ کتنے ہی افراد کو ہجوم مختلف شہروں، قصبوں اور بستیوں میں ہلاک کر چکا ہے، زندہ جلا چکا ہے، گھسیٹ گھسیٹ کر مار چکا ہے‘ مگر شاید ہی کسی کو سزا ملی ہو۔
ایسے ہر واقعہ کے بعد جو کچھ ہوتا ہے اس کا علم ہم سب کو ہے بلکہ مرحلہ وار، جو بیانات دیے جاتے ہیں، وہ حفظ ہو چکے ہیں۔ شرمناک واقعہ‘ صدر مملکت۔ ملزمان کو کڑی سزا دیں گے‘ وزیر اعظم۔ کسی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا‘ سپہ سالار۔ انتہائی دُکھ ہوا، وزیر اعلیٰ۔ دلخراش واقعہ ہے‘ ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لائیں گے‘ وزیر داخلہ۔ انصاف ہوتا نظر آئے گا‘ ترجمان حکومت پنجاب۔ واقعہ نے پورے ملک کا سر شرم سے جھکا دیا ہے‘ وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے مذہبی امور۔ یہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے اور سیرت کے بھی خلاف ہے‘ علما و مشائخ کونسل۔ اپوزیشن کے زعما بھی مذمت کرتے ہیں۔ پھر دوسرے دن پریس کانفرنسوں میں وزرا کے ساتھ پولیس کے سینئر افسران نظر آتے ہیں۔ ہر سطح کے پولیس افسر واردات والے شہر یا قصبے کا دورہ کرتے ہیں۔ پھر چھاپے مارے جاتے ہیں۔ کیمروں کی فوٹیج کی مدد سے ملزموں کو پکڑا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ہوتا ہے مگر اس کے بعد کچھ نہیں ہوتا۔ انصاف کے حصول کی کبھی نہ ختم ہونے والی کارروائیاں چلتی ہیں اور چلتی ہی رہتی ہیں۔ آج تک کسی طاقت ور فرد، گروہ یا ہجوم کے حوالے سے جان کے بدلے میں جان کے قرآنی قانون کو عمل میں ڈھلتے نہیں دیکھا گیا۔ کیا کسی کو وہ دو نوجوان بھائی یاد ہیں جو سیالکوٹ ہی میں ہجوم گردی کے ہاتھوں مارے گئے تھے؟ سات افراد کو سزائے موت سنائی گئی مگر مروّجہ نظام عدل آڑے آ گیا۔ آپ کا کیا خیال ہے اس کیس میں مجرموں کو سزائے موت ملے گی؟ جہاں تک ماضی کے نظائر کا تعلق ہے، امکان کم نظر آتا ہے۔ ہاں! چونکہ اس بار معاملے میں ایک دوسرا ملک شامل ہے جس کے حکمران نے انصاف کی توقع ظاہر کی ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ شرمو شرمی یعنی Face saving کی خاطر اب کے قتل کی سزا قتل نظر آ ہی جائے !
تحریک انصاف نے جو خواب دکھائے تھے ان میں ایک خواب یہ بھی تھا کہ بجائے اس کے کہ پاکستانی دوسرے ملکوں میں جا کر روزگار تلاش کریں، دوسرے ملکوں کے شہری ملازمتیں کرنے پاکستان آئیں گے۔ اس وعدے یا اس خواب کا تو کیا ذکر، جو غیر ملکی، موجودہ حکومت سے پہلے کے آئے ہوئے ہیں، ان کا بھی مزید یہاں رکنا دشوار ہو جائے گا۔ جان کے مقابلے میں کوئی شے زیادہ پیاری نہیں۔ جتنے بھی غیر ملکی یہاں ملازمتیں کر رہے ہیں اس واقعہ نے انہیں یقینا جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہو گا۔ ان کے بیوی بچے، ہاتھ جوڑ رہے ہوں گے کہ خدا کے لیے یہاں سے نکلنے کی کرو۔ جو صنعتی یا دیگر ادارے مناسب افرادی قوت کے لیے بین الاقوامی سطح پر اشتہار دیں گے، ان کے ساتھ کیا ہو گا؟ بھارت کا میڈیا جس طرح اس واقعہ کو نمایاں کر کے پیش کر رہا ہے، اس کا اثر بھی ساری دنیا پر پڑے گا۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ سری لنکا میں مسلمانوں کی زندگی پہلے ہی کافی ناخوشگوار ہے۔ ایک انتہا پسند بُدھ تنظیم ان کے خلاف کامیابی سے اپنا ایجنڈا آگے بڑھا رہی ہے۔ سری لنکا کے مسلمانوں کو کن مسائل کا سامنا ہے، یہ تفصیل ایک الگ کالم میں بتائی جائے گی۔ سر دست اتنا کہنا کافی ہے کہ خدا نہ کرے اس ہجوم گردی کی قیمت وہاں کے مسلمانوں کو ادا کرنا پڑے۔
یہ خطۂ زمین حاصل تو اس لیے کیا گیا تھا کہ اسے باغ بنائیں‘ مگر یہ ایسا جنگل بن چکا ہے کہ انسانی جان ہر وقت خطرے میں ہے۔ کریہہ المنظر مخلوقات 'آدم بو آدم بو‘ کہتی دندناتی پھرتی ہیں۔ سنگدلی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایسے سفاک لوگوں کو سزا نہ ملنے کا پورا یقین ہے۔ سزا کا ایک فائدہ عبرت دلانا بھی ہوتا ہے۔ سزا ہی نہ ہو تو عبرت کون حاصل کرے گا؟ یہ سوال بھی شدومد سے اٹھایا جا رہا ہے کہ ایسے ہولناک واقعات دوسرے مسلمان ملکوں میں کیوں نہیں رونما ہوتے؟ کیا وہاں کے لوگ زیادہ قانون پسند ہیں؟ کیا ان کا مائنڈ سیٹ مختلف ہے؟ یا طاقتور عناصر وہاں قانون کے پنجے سے بچ نہیں سکتے؟
یوں لگتا ہے ایک اندھی اندھیری چادر ہم پر تن چکی ہے! کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے۔