تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     06-12-2021

نہ جانے سحر کب ہو گی

سری لنکا کے شہری پریانتھا کمارا کا نعرے بلدن کرتے، پھنکارتے‘ متشدد ہجوم کے ہاتھوں بہیمانہ قتل نے ایک مرتبہ پھر ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ پرانے خدشات، اندیشے اور وسوسے‘ جو ہماری سوچوں کے گوشوں میں ہر دم موجود ہیں، تازگی اور نئی توانائی کے ساتھ ہتھوڑے برسانے لگے ہیں۔ دیکھنے کی ہمت تو اب نہیں رہی، جو چند سطریں پڑھ پائے ہیں، اس سے ہماری اداسیاں‘ جو کئی حوالوں سے پہلے ہی بہت زیادہ ہیں‘ اب ایک آندھی اور طوفان کی کیفیت میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ ظاہری طور پہ تو ہاتھ، پاؤں، آنکھیں اور جسم معمول کے کاموں میں مصروف رہا ہے، مگر ذہن سیالکوٹ کے گھناؤنے واقعہ کی تاریکی میں گم ہے۔ کچھ سجھائی، دکھائی نہیں دے رہا اور کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ہمارے معاشرے کا یہ زوال کہاں تک جائے گا اور ہم نیچے کہاں تک جا سکتے ہیں۔ اب تو تہہ تک پہنچ چکے ہیں۔ ہم دنیا کو منہ دکھانے کے قابل ویسے تو اس سے پہلے کئی دہائیوں سے شدت پسندی اور جنونیت کی کئی رخی اور نہ تھمنے والی لہروں کی وجہ سے نہ رہے تھے، اب تو معاملہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ زیادہ کچھ بات کھل کر کہنے سے اب خوف آتا ہے۔ نام تک نہیں لے سکتے، نہ تحریکوں کا، نہ مصلحین کا اور نہ ان کی پشت پناہ طاقتوں اور ان کی تعریف میں صفحے کالے کرنے والوں کا۔ چلو اس سوچ، نقطۂ نگاہ، نظریے کی بات نہیں کرتے اور یہ تصور کرتے ہیں کہ عملی سیاست کی ابتدا اوائل ہی میں ہو چکی تھی۔ اتار چرھاؤ آتے رہے، اور جنہیں بصیرت اور روشن خیالی سے نوازا گیا تھا‘ وہ حتی المقدور بند باندھتے رہے۔ اگر تاریخ سے شناسائی ہو، علم کا دامن کسی نے پکڑ رکھا ہو اور اپنے معاشرے کو ماضی اور حال کے عالمی واقعات کی روشنی میں دیکھنا نصیب ہو، تو راہگیروں کو یہ دیکھنے میں نہ دیر لگتی ہے، نہ دقت محسوس ہوتی ہے کہ قافلہ کس طرف گامزن ہے۔ ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ ہم سے بڑے مفکر، دانشور، ادیب، شاعر‘ جن کی نظر میں وسعت اور دل و دماغ روشن تھے، کہتے رہے، لکھتے رہے‘ کڑھتے رہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ جب وہ سوال اٹھاتے، اشاروں اور کنایوں سے آنے والے خطرات کی نشاندہی کرتے اور طاقت وروں کے سامنے انصاف، انسانیت، برابری، آزادی اور آفاقی حقیقتوں کا مقدمہ لڑتے تو انہیں پس دیوارِ زندان بھیج دیا جاتا۔ ان میں سے بہت سے سوال اٹھانے کی پاداش میں عقوبت خانوں میں جھلستے رہے اور کچھ وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ نہ جانے آج صبح سویرے، فیض احمد فیض صاحب، حبیب جالب صاحب اور جوش ملیح آبادی صاحب کیوں یاد آ رہے ہیں۔ دیکھیں‘ وہ جو صاحب اختیار و اقتدار تھے اور جن کا اخبارات، رسالوں اور دانشوری کے ٹھیکہ خانوں پہ سکہ چلتا تھا، کیسے انہوں نے حق پرستوں اور روشن خیالوں کو کناروں اور کونوں کھدروں میں دھکیل دیا۔ معتبر وہ ٹھہرے جو ملک اور معاشرے کو لٹھ برساتے اور زبان کے تازیانے چلاتے تاریکیوں میں ہانک کر لے آئے۔ کس کس کی بات کریں۔ ان کی تحریریں سامنے ہیں۔ سب پڑھ چکے۔ ان کے ملکی مسائل پر تبصرے اور خیالات، کبھی دھندلے نہیں ہوئے، اور وہ جو دوسروں کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کے فتوے صادر کرتے اور نفرتیں پھیلاتے رہے، ہمارے نزدیک تو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ ویسے میری کیا حیثیت کہ ان بڑے لوگوں کو یہ کہنے کی جرات کروں کہ دیکھیں جو آپ بوتے رہے اس کی فصل تیار ہے، انسانی سوچ اور فکر کی۔ انہیں تو اپنی کامیابیوں پہ فخر کرنا چاہیے۔ یہی کچھ تو وہ چاہتے تھے۔ ہم کمزور، درویشوں کو اب کونوں میں پناہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ میدان پہ اور لوگوں نے عرصے سے قبضہ کر رکھا تھا۔ اچھی طرح یاد ہے، ہم زبردستی نکالے گئے تھے۔ میدان ان کیلئے صاف کیا گیا تھا۔ لازم ہے کہ جان بچائی جائے، ٹھکانے آبادیوں سے دور ہوں، اتا پتا کسی کو نہ دیا جائے اور صاف گوئی سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ فیض، جوش اور جالب کو خاموشی سے پڑھ کر اگر کچھ آنسو نکل سکتے ہیں تو نکال کر دل کو ہلکا کر لیں، شاید کچھ بوجھ اور غبار نکل جائے۔
پریانتھا کمارا کے بارے میں کچھ بات کرنے کو جی نہیں چاہ رہا۔ گزشتہ نصف صدی کی سیاسی تاریخ اور واقعات نے اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔ ظلم اور مظلومیت کی کئی داستانیں ہیں جو ان کی نظر میں معاشرے کی سمت متعین کرنے کے لیے ضروری تھیں۔ کچھ یاد ہے، کبھی سوچا ہے، کہ فقط جامعہ پنجاب سے کتنے اساتذہ کو نکالا گیا تھا، کتنے وہ تھے، جن کا وہاں عزت سے رہنا اور کام کرنا ناممکن بنا دیا گیا تھا، اور کتنے وہ تھے جو خاموش کرا دئیے گئے تھے۔ وقت ملا تو ایک ایک کی داستان لکھوں گا۔ ان میں سے کچھ میرے اساتذہ‘ دوست اور ہمعصر تھے۔ نہ جانے کیا کیا الزام تھے، اشتراکی‘ ملحد‘ بے راہ رو‘ پاکستان کے ''دشمن‘‘ کاش کہیں عدالت لگے، ظالم اور مظلوم سامنے ہوں۔ مجھے یقین ہے، وہ حساب کا دن ضرور آئے گا۔ انہیں معلوم نہ تھا اور نہ اب ہے کہ درس گاہیں، جامعات اور دانش وری مختلف الخیال اور متنوع نظریات اور افکار سے پھلتی پھولتی اور پروان چڑھتی ہیں۔ اس کے برعکس فسطائیت راج کرتی ہے۔ جامعہ پنجاب ہی نہیں، ملک کی سب جامعات اور بڑے بڑے کالجوں میں خالص نظریاتیوں کو دھکے سے قائم کر دیا گیا تھا۔ اور پھر افغانستان کی جنگ نے تو ان کو ریاستی اور عالمی مقتدر طبقوں کے ساتھ ایک دہائی تک جوڑے رکھا۔ لگے پودے نے توانائی حاصل کی، اس کے بیج پھیلتے رہے اور اب تو ایک جنگل کی صورت اختیار کر گیا، ہر نوع کا تناور درخت اپنا اپنا چھاتا پھیلائے جڑیں اور گہری کر رہا ہے۔ سوچیں‘ اتنا گھنا جھنڈ پیدا ہو جائے، تو گھاس پھونس بھی پیدا نہیں ہو سکتی۔
گزشتہ ہفتے کی بات ہے کہ جب کلاس میں کثیرالثقافتی نظریے اور شناختی تحریکوں پر بحث کر رہے تھے، کئی طلبا و طالبات نے کچھ تیکھے سوال ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں کر ڈالے۔ ایسے سوال جن کا ذکر ہم یہاں کرنے سے کتراتے ہیں۔ ہم خود تو خوف میں زندگی بسر کرتے ہیں، لیکن اپنے شاگردوں میں بیباکی، آزادیٔ فکر اور چبھتے سوال کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا پیشہ ورانہ ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ خوشی ہے کہ جو باتیں ہمارے زمانے میں دل میں رہیں، کہہ نہ سکے، وہ آج سامنے بیٹھے نوجوانوں سے سنتا ہوں، تو اطمینان ملتا ہے کہ اپنے حصے کا کام کرنے میں کچھ پیش رفت کی ہے۔ اس کے ساتھ یہ کہنا ضروری ہے کہ وہ مایوس تھے، موجودہ حالات سے، معاشرتی رویوں اور اہل اقتدار کی ہوسِ زر اور لوٹ مار سے۔ بار بار سنتا ہوں کہ اس ملک میں کون رہے گا، وہ جو قابل ہیں، اہل اور ایماندار ہیں، اس لاقانونیت ، نا انصافی بڑھتی فسطایت اور جنونیت کے ماحول میں کیوں دم گھٹی زندگی گزاریں گے؟ کیا کہوں کہ دنیا وسیع نہیں، میں خموشی اور ہلکی سی مسکراہٹ میں جواب دیتا ہوں، جہاں جائیں، خوش رہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved