تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     06-12-2021

18 کروڑ 70 لاکھ انسان اور دو انجان… (4)

ہم نے فیک نیوز کو اس وقت سٹڈی کرنا شروع کیا، جب یہ ایک جانی پہچانی اصطلاح نہیں تھی۔ اس سٹڈی کے دوران یہ راز کھلا کہ فیک نیوز کے پھیلائو کا دائرہ سچ اور سچی خبر کے مقابلے میں بہت تیز رفتاری کے ساتھ، بہت زیادہ دور دراز تک اور بہت زیادہ گہرائی تک چلا جاتا ہے۔ سٹڈی سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ یہ بات کسی ایک میں نہیں بلکہ ہر کیٹیگری آف نیوز میں 100 فیصد صحیح ہے۔ ہاں البتہ یہ حیران کن ڈیٹا بھی سامنے آ گیا کہ جعلی سیاسی نیوز کسی بھی نیوز کی کیٹیگری سے زیادہ وائرل ہوتی ہے۔ جعلی سیاسی نیوز ہر دوسری فالس نیوز کے مقابلے میں لوگ ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے انداز میں جلدی جلدی پھیلاتے ہیں۔ اس طرح شیئر ہوتے ہوتے جعلی نیوز بھی بریک ہونے کے ساتھ ہی زیادہ دور تک اور سماج کے ہر طبقے میں پھیلتی چلی جاتی ہے۔
یہ بتاتے ہوئے cern سینٹر کے مسٹر سینان ایرال صاحب ایک منٹ کے لیے رُکے، جیسے اُن کے ذہن میں کوئی اہم بات آئی ہو، اور وہ پھر بولنے لگے۔ مسٹر سینان ایرال نے اِن خطرناک ایشوز کو ایڈریس کرنے کی بات شروع کی، بتایا کہ ہم اس حوالے سے کئی راستے اپنا سکتے ہیں۔ اگلی بات مزید حیران کُن تھی۔ کہنے لگے: ہمیں مشین لرننگ اور Algorithms کے بارے میں پوری سنجیدگی کے ساتھ سوچنا پڑے گا۔
ہم یہاں رک کر ایک منٹ کے لیے پاکستان کے 18 کروڑ 30 لاکھ لوگوں اور دو انجان کریکٹر ایکٹرز کی سوچ میں فرق کی طرف واپس آتے ہیں۔ پاکستان میں Covid-19 کی مانیٹرنگ کے حوالے سے جانی جانے والی ویب سائٹ Worldometer (ایک ریفرنس ویب سائٹ، جس پہ متعدد موضوعات سے متعلق کائونٹرز اور ریئل ٹائم سٹیٹسٹکس موجود ہیں) میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 3 دسمبر بروز جمعہ سال 2021 کو پاکستان کی کل آبادی 22 کروڑ 69 لاکھ 5 ہزار 448 افراد پر مشتمل ہے۔ عام سے اندازے کے مطابق انٹرنیٹ سمیت ہینڈ پک ٹیکنالوجی پاکستان کے 80 فیصد سے زیادہ لوگوں کے پاس کسی نہ کسی طرح شکل میں پہنچ چکی ہے۔ باقی دنیا اور پڑوس کے ملکوں میں بھی ٹیکنالوجی کی ریس آسمان چھو رہی ہے۔ آئی ٹی ٹیکنالوجی کے 9 عالمی اداروں کے سربراہ پڑوسی ملک بھارت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسے میں خود سوچ لیجئے کہ اس ماحول میں ٹیکنالوجی سے کون انجان ہو سکتا ہے۔
مسٹر سینان ایرال نے فیک نیوز جیسی وائرل عالمی وبا کو روکنے کیلئے ایسی ٹیکنالوجی کے پھیلائو پر زور دیا جو فیک نیوز کی جڑیں اکھاڑ سکے اور لوگوں کو یہ سمجھنے کے قابل بنائے کہ فیک نیوز کس طرح پھیلتی ہے اور فیک نیوز کے پھیلائو کو کیونکر روکنا ہے۔ سوشل میڈیا کے سائنسدان نے عالمِ انسانیت کو ٹیکنالوجی کے loop میں رہ کر سچائی تک پہنچنے کا مشورہ دیا۔
سال 2012، ستمبر میں ڈیجیٹل میڈیا ایجنسی B Solutions نے بھی ایک ریسرچ کنڈکٹ کی جس کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا کے استعمال کا ٹرینڈ اور پیٹرن امریکہ اور برطانیہ سے مختلف نہیں۔ زیادہ تر ینگ شہری سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔ اس تحقیق میں بتایا گیا کہ کچھ کنزرویٹو اور نیشنلسٹ مسلمانوں نے یو ایس میں ہوسٹ کئے گئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے مقابلے میں متبادل کے طور پرفورمز بنا کر شیئر کئے مگر پاکستانی سوشل میڈیا یوزرز نے اِن فورمز میں زیادہ دلچسپی کا اظہار نہ کیا۔ اس سٹڈی میں حیران کن انکشاف یہ بھی ہوا کہ پاکستانی انٹرنیٹ یوزرز، دوسرے یوزرز کے مقابلے میں انٹرنیٹ پر کافی زیادہ وقت گزارتے ہیں۔
یہ رپورٹ شدہ انفارمیشن سامنے آنے کے تقریباً 10 سال بعد آج پاکستانی ایڈورٹائزرز کیلئے سوشل میڈیا زبردست cost effective مارکیٹنگ ٹول ہے۔ اب تو سوشل میڈیا کی دنیا میں اتنے زیادہ بزنسز بنائے جا چکے ہیں، جن کو گنا بھی نہیں جا سکتا۔ جیسے جیسے زیادہ سے زیادہ پاکستانی آن لائن آ رہے ہیں، اُس سے انفارمیشن ٹولز، جیسا کہ ریڈیو، ٹی وی، اخبار، رسالے، جرائد وغیرہ، اُن میں ایڈورٹائزنگ کی افادیت چیلنج ہو چکی ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں برپا ہونے والے اس سونامی کے سامنے 'مجھے واٹس ایپ میسج کرنا نہیں آتا، اس لئے پاکستان میں انٹرنیٹ ووٹنگ اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کامیاب نہیں ہو گی‘ جیسی دلیل انتہائی بودی ہی نہیں، کھل کر مضحکہ خیز بھی لگتی ہے۔
پچھلے ہفتے، صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو رائٹ آف ووٹ دینے کیلئے، اور پاکستان کے الیکٹورل نظام میں ای وی ایم کے استعمال پر الیکشن کمیشن کو اختیار دینے کے قانون پر دستخط کر دیئے۔ اس تناظر میں ایک بروقت پیشرفت الیکشن کمیشن کی طرف سے ہوئی جس میں دو اقدامات کئے گئے ہیں۔ ایک، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ٹیکنالوجی کے استعمال اور اس سے متعلقہ سارے امور کو کور کرنے والی تین اِن ہائوس کمیٹیاں بنا دی ہیں، جو اس قانون پر عمل درآمد کے اقدامات اور راستے تجویز کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ دوسرا، کمیشن نے متعلقہ وزارت کے ذریعے حکومت کو خط بھجوایا ہے، جس میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے لئے ایگزیکٹیو آرم سے مختلف اقدامات کرنے کی تجاویز دی گئیں۔
اِن اقدامات سے صاف ظاہر ہے، ملک کی ایگزیکٹو اتھارٹی اور انتخابات کرانے کیلئے آئینی ریگولیٹر اپنے اپنے کام میں جتے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے کاموں میں ادارہ جاتی سنجیدگی اور سوچ بچار ہوتی ہے، کوئی ہوائی فائرنگ یا فائر وَرکس نہیں ہوتے اس لیے تجزیہ نگار اور تبصرہ کار اس پَیچ ورک پر توجہ نہیں دے پاتے۔ ادھر توجہ نہ آنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جس سوسائٹی میں شہرت، سیلفی، وڈیو، آڈیو اور کیمرہ سپاٹ کیلئے کچھ بھی کر گزرنے والوں کی بہتات ہو، وہاں سوچ میں ارتعاش اور گرمیِ ضمیر جیسی گہری ندیوں میں کون چھلانگ لگاتا ہے؟
جس منڈی کا سب سے پسندیدہ مال فیک بیان، فیک نیوز، فیک آڈیو، فیک وڈیو پذیرائی کیلئے ہاٹ سپاٹ بن جائے‘ ایسا ہاٹ سپاٹ، جس پر بعد میں معافی ہی کیوں نہ مانگنی پڑے‘ اُسی طرف ہمیشہ رَش آف مَیڈنَیس دکھائی دیتا ہے۔
سوشل میڈیا کے ماہرین متفق ہیں کہ اس سٹارم آف انفارمیشن کے زور کے سامنے ہم کبھی بھی اس بات سے نہیں بچ سکتے کہ کسی ٹیکنالوجیکل حل اور مشینی اَپروچ سے پہلے، بنیادی اخلاقیات اور عملی سوال کا سامنا نہ کریں کہ سچ اور جھوٹ کو ڈیفائن کیسے کرتے ہیں اور اُس میں تفریق کس طرح سے رکھتے ہیں۔ اسی سلسلے کا اگلا سوال ہے کہ کس طرف کی رائے جائز ہے یا فریڈم آف سپیچ کس طرح کی ہونا چاہئے۔
ماسوائے ڈِس انفارمیشن پھیلانے والوں کے، جن کو سوشل میڈیا مِس انفارمیشن کمپنیز کے نام سے پکارا جاتا ہے (اس نام کو جینو سائیڈل پروپیگنڈا پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا گیا، جب برما میں روہنگیا مسلمانوں اور بھارت میں مسلم، سکھ، دلّت اور کرِسچنز کے خلاف ماب کلنگز اینڈ اَٹیکس سامنے آئے) ماہرین کے مطابق سوشل میڈیا یوزرز اور نیوز ریڈرز کو مس انفارمیشن کے خلاف سچائی کے وجود کا دفاع کرنے میں چوکنا رہنا ہوگا۔ یہ دفاع ٹیکنالوجی کے ذریعے ہو سکتا ہے، اپنی اخلاقیات اور فلسفے پر مبنی پالیسی کے ذریعے اور خاص طور سے اپنی ذاتی، شخصی، انفرادی ذمہ داری، فیصلے، رویے اور اعمال کے ذریعے۔
ٹیکنالوجی سیاسی نعرہ نہیں، انسانیت کا مستقبل ہے۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved