قرآنِ مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ قول مبارک مذکور ہے:اے میر ی قوم! اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جائو جو اللہ نے تمہارے واسطے لکھ دی ہے اور اپنی پشت کے بل پیچھے نہ لوٹو ورنہ پلٹ کر نامراد ہو جائو گے۔ (سورۃ المائدہ: 21) سرزمین فلسطین انبیاء علیہم السلام کی سر زمین کہلاتی ہے۔ بیشتر انبیاء کرام کی پیدائش اسی سرزمین پر ہوئی‘ اس لیے یہ زمین تمام الہامی مذاہب کے ماننے والوں کے لیے متبرک ہے۔ بیت المقدس، القدس، یروشلم‘ شہر تو ایک ہے مگر نام کئی ہیں۔ اس شہر میں موجود مسجد اقصیٰ وہ مسجد ہے جو اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات سے تعمیر کرائی تھی۔ ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیﷺ شبِ معراج کو اسی مسجد میں تشریف لائے اور یہیں سے آسمانوں کے سفر کا آغاز ہوا۔ یوں اس مسجد کا ذکر قرآنِ مجید میں بھی آیا ہے۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے حضرت معاذؓ بن جبل سے فرمایا: ''بیت المقدس کی تعمیر (یا عروج) یثرب کی خرابی ہے، یثرب کی خرابی عظیم جنگ کا آغاز ہے، عظیم جنگ کا آغاز قسطنطنیہ کی فتح کا سبب ہے، قسطنطنیہ کی فتح دجال کے خروج کا سبب ہے‘‘۔ اس کے بعد آ پﷺ نے اپنا ہاتھ حضرت معاذؓ کی ران یا مونڈھے پر مار کر فرمایا: یہ اسی طرح حق ہے جیسے تمہارا یہاں ہونا یا بیٹھنا یقینی ہے۔ سنن ابودائود میں روایت کرد ہ اس حدیث کو جید محدثین نے صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔ اس حدیث کے بارے میں علمائے سلف صالحین کا کہنا ہے کہ یہ تمام واقعات اسی ترتیب سے رونما ہوں گے جس طرح اس حدیث شریف میں بیان کیا گیا ہے۔ کچھ دیگر روایتوں میں تو ان واقعات کے درمیان زمانی فاصلے تک بیان کیا گیا ہے۔
آج سے تقریباً سات عشروں قبل‘ اسرائیل کے نام پر مقبوضہ فلسطین کی سرزمین پر بڑی مغربی طاقتوں کی سرپرستی میں جو گھنائونا ترین ڈرامہ رچایا گیا تھا اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ مغرب آج بھی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ صہیونیت کا منصوبہ اس کے ہاں تشکیل پایا جو یہودیوں سے محبت کی ایک بڑی نشانی ہے۔ اسرائیلی ریاست اسی محبت کا ایک انعام ہے!اس وقت یورپ میں جرمنی ایسا مقام تھا جہاں یہودی سب سے زیادہ آباد تھے‘ اس کے بعد امریکی سرزمین ان کی آماجگاہ بنی۔ یہ انعامات وہاں کیوں نہیں عطا کئے گئے تاکہ وہ وہاں اپنا مضبوط وطن تشکیل دے سکتے؟ قضیۂ فلسطین کے حوالے سے مغرب کی جانب سے مظلوم فلسطینی عوام پر ٹھونسا گیا بدنام زمانہ اعلان بالفور برطانوی وزیر جیمز بالفور کے نام سے منسوب ہے۔ جیمز بالفور نے فلسطین کے مستقبل کے حوالے سے اپنی یاد داشتوں میں ذکر کیا تھا '' صہیونیت ایک چیز ضرور ہے یا تو یہ باطل ہے یا حق! خیر ہے یا شر! مگر اس کی جڑیں قدیم تعلیمات میں ہیں جبکہ ضروریات اور میلان مغرب میں‘‘۔ اس لئے اس کی اہمیت یہ ہے کہ ''سات لاکھ عربوں کا حق مار کر انہیں فوقیت دی گئی‘‘۔ ایک جگہ بالفور رقمطراز ہے کہ ''اتحادی ملک بڑی حد تک اس بات سے بے خبر تھے کہ صہیونیت کا یہ منصوبہ ارضِ فلسطین پر وقوع پذیر ہوگا‘‘۔ بالفور اعلامیے کی بنیاد پر جدید دور میں مغرب نے عالم اسلام پر جارحیت کی ابتدا کی اور یہودیوں کو فلسطین میں اپنا الگ وطن بنانے کی اجازت دی گئی۔ جرمنی میں قیصرولیم ثانی کے دور میں بھی اس قسم کا اعلامیہ جاری کیا گیا تھا مگر سب سے مشہور اعلان بالفور ہے جو 1917ء میں برطانیہ کی جانب سے جاری ہوا۔ اُس وقت مقبوضہ فلسطین میں یہودیوں کی مجموعی آبادی5 فیصد سے زیادہ نہیں تھی۔ اعلانِ بالفور ایک خط کی شکل میں تھا جو 2 نومبر 1917ء کو لارڈ ایڈ مونڈر وتھ شیلڈ‘ جو اس وقت عالمی صہیونی تحریک کا رہنما تھا‘ کو ارسال کیا گیا تھا۔ اس کا متن یہ ہے: لارڈر وتھ شیلڈ عزت مآب شاہ برطانیہ کی نیابت کرتے ہوئے مجھے آپ تک یہ بات پہنچانے میں انتہائی مسرت ہو رہی ہے کہ مندرجہ ذیل تحریک شہنشاہِ معظم اور ان کی وزارتی کابینہ کی جانب سے مکمل اتفاق کے بعد احاطۂ تحریر میں لائی گئی ہے جو صہیونی یہودیوں سے محبت کی ایک واضح علامت ہے کہ عزت مآب شاہِ برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کی ضرورت کو قبولیت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے ہر ممکنہ کوشش بروئے عمل میں لائی جائے گی مگر اس کے ساتھ ساتھ فلسطین میں آباد غیر یہودی افراد کے حقوق بھی محفوظ سمجھے جائیں گے‘ بالکل اسی طرح جس طرح دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے یہودیوں کے حقوق ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس اعلامیے کا ابلاغ صہیونیت سے متعلق تمام اتحادی جماعتوں تک کر دیا جائے‘‘۔
مفکرِ پاکستان علامہ اقبال نے اس وقت ہی سے فکری اور عملی پیش بندیاں شروع کر دی تھیں جب برطانوی سامراج ابھی مسئلہ فلسطین تخلیق کرنے میں کوشاں تھا۔ علامہ اقبال نے 30 جولائی 1937 ء کوفارکو ہرسن کے نام اپنے خط میں فلسطینی عوام کی وکالت کرتے ہوئے کہا: ''عربوں کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی ہے‘مشرق قریب کے حالات کا تھوڑا بہت علم ہونے کے سبب میں اس کو اسی شدت سے محسوس کرتا ہوں ۔ انگریز قوم کو بیدار کر کے اس بات پر آمادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کرے جو اس نے انگلستان کے نام پر عربوں کے ساتھ کیے ہیں‘‘۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی عالمگیر جدوجہد اور قائدانہ فکر کا نتیجہ تھا کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے متفقہ قرار داد منظور کرکے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم نہ کرنے کا مطالبہ کیا اور پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے خلاف ووٹ دے کر اس صہیونی ریاست کو تسلیم نہیں کیا۔ قائداعظم کی اِس غیر مبہم‘ واضح اور بایقین بصیرت کے پیشِ نظر فلسطینی قربانیوں سے پاکستانی عوام کا تعلق پختہ تر و مضبوط تر ہے۔
''صفقۃ القرن‘‘ یعنی 'صدی کا سودا‘ جس سے مراد مقبوضہ بیت المقدس کا یہودیوں کے ہاتھ سودا ہے‘ کی ابتدا تقریباً سو برس قبل اس وقت ہوئی جب خلافتِ عثمانیہ کے دور میں سلطان عبدالحمیدؒ کو یہودی سیموئیل کے ذریعے عالمی صہیونیت نے یہ پیشکش کی تھی کہ وہ سلطنت عثمانیہ کے تمام قرضے اتار دیں گے اگر فلسطین میں یہودیوں کو الگ وطن بنانے کی اجازت دے دی جائے لیکن سلطان عبدالحمید نے یہ پیشکش سختی کے ساتھ ٹھکرا دی۔ اسی دجالی سودے کی خاطر جنگ عظیم کے شعلوں کو ہوا دی گئی۔ عالمی جنگوں میں جرمنی سمیت مغرب کے کسی ملک کی جغرافیائی شکل نہیں بدلی لیکن سلطنت عثمانیہ کوپارا پارا کر تے ہوئے اسے فرانس اور برطانیہ نے آپس میں بانٹ لیا۔ کیوں؟ یہ انتہائی اہم سوال ہے جس کا جواب آج ہر مسلمان جوان کے پاس ہونا چاہئے۔ اب گریٹر اسرائیل کے دجالی منصوبے پر عملدرآمد کا وقت قریب ہوا چاہتا ہے‘ لہٰذا خلیجی ملکوں میں ایسے ادارے قائم کردیئے گئے ہیں جن کا مقصد خطے میں اسرائیلی دجالی بالادستی کیلئے عوامی رائے عامہ ہموار کرنا ہے۔ رسول پاکﷺ کی پیش گوئی کے عین مطابق‘ اس وقت آدھے سے زیادہ مشرقِ وسطیٰ میں آگ لگ چکی ہے‘ عربوں پر مصیبت کا دور جاری ہے‘ عرب ریاستوں کو بھی خطرات لاحق ہیں کہ خلیج فارس کے ملک کے ساتھ جنگ کی آڑ میں ان ملکوں کی آزادی سلب نہ ہوجائے‘ اسی خوف کی بناپر کچھ حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاکر وہ محفوظ ہو جائیں گے‘حالانکہ یہ سراسر فریبِ نظر ہے۔عربوں کا دشمن اسرائیل کے علاوہ اور کوئی نہیں۔ اسرائیل کی عرب قوم سے دشمنی تو ایک جانب‘ اسلام سے اس کی مخاصمت بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ دوسری جانب معاشی تنزلی کے اس دور میں مزید مہنگائی کے سبب پاکستانی قوم کا مزید تیل نکلوانے کا منصوبہ تیار ہے تاکہ اسے ہوش ہی نہ رہے کہ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں کیا ہورہا ہے۔ اسرائیل نے 1968ء سے ہی سازشوں کا آغاز کر دیا تھا اور بیت المقدس کی شمالی اور جنوبی جانب میں یہودی بستیوں کو ایک زنجیر کی شکل میں تعمیر کیا گیا تاکہ یہ مقدس شہر آہستہ آہستہ صہیونی نرغے میں آ جائے۔