میرا یہ دوست بہت حسابی کتابی ہے‘ اس نے کوئی کام شروع کرنا ہو تو پہلے ہزار دفعہ سوچے گا کہ اس کام میں کیا مشکلات پیش آ سکتی ہیں، اس میں کتنی محنت صرف ہو گی، اس کے تمام حسن و قبح پر غور کرے گا‘پھر معاملے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر کام شروع کرے گا۔ وہ خود تسلی کرے گا، اپنے دل کو ٹٹولے گا اور دماغ سے اَن دیکھی گتھیاں سلجھائے گا۔ یار لوگ اس کی اس عادت سے تنگ ہی نہیں‘ بیزار بھی ہیں اور اس سے کنی کترانے میں عافیت محسوس کرتے ہیں مگر وہ کہتے ہیں نا‘بچپن کے یار اور عادتیں مشکل سے چھوٹتی ہیں‘ یہی اس کے باب میں ہم سب دوستوں کا معاملہ ہے۔ نہ وہ ہمیں چھوڑ سکتا ہے نہ ہمارا اس کے بغیر دن کٹتا ہے۔ ہم اس سے مشورہ کریں یا نہ کریں‘ اس نے اپنا مسئلہ سب کے سامنے ضرور رکھنا ہے۔ پھر اس نے ایک ایک دوست سے اس کے بارے میں رائے لینی ہے۔ صرف رائے ہی نہیں لینی‘ اس پر عمل بھی کرنا ہے مگر پہلے وہ پیش آنے والے تمام مسائل کو دیکھتا ہے‘ دوستوں کی رائے سنتا ہے‘ پھر اپنے دوستوں کی متفقہ رائے کے مطابق اپنا لائحہ عمل کہہ لیجیے یا فیصلہ‘ اس پر عمل کرنا شروع کرتا ہے۔ اب مسئلہ تو اتنا اہم نہیں تھا مگر اس کی سنجیدگی نے واقعی اسے ایک مسئلہ بنا دیا تھا جس کے لیے‘ اُس کے مطابق‘ باہم مشورہ ضروری تھا۔
اس نے گھر کا اَپر پورشن بنانے کا سوچا تو لازماً مشورہ کرنا تھا مگر اس نے گھر کا اوپر والا پورشن ابھی شروع بھی نہیں کیا تھا کہ سوچا اس پورشن کے لیے الگ بجلی کا میٹر ہونا چاہیے اور اس کے لیے درخواست وغیرہ دے دی جاے تا کہ پورشن کی تکمیل تک یہ کام بھی ساتھ ہی انجام پا جائے اور کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کسی نے بتایا تھا: فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں‘ اب یہ محکمہ بڑی جانفشانی سے کام کرنے لگا ہے۔ اب وہ پرانا زمانہ نہیں رہا جب لوگوں کو دفتروں کے روزانہ چکر لگانا پڑتے تھے۔ اب واپڈا اور بجلی تقسیم کرنے والی الگ الگ کمپنیاں بن گئی ہیں‘ جیسے لاہور میں لیسکو، ملتان میں میپکو اور پشاور میں پیپکو‘ علیٰ ہٰذا القیاس! ایسی اس وقت ملک میں گیارہ کمپنیاں ہیں جو تمام حکومت کی ملکیت ہیں۔ بجلی وافر ہے لہٰذا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ کمپنیاں واپڈا سے اور آئی پی پیز سے بجلی خریدتی اور صارفین کو مہیا کرتی ہیں۔ ادھر آپ نے درخواست جمع کرائی‘ ادھر میٹر لگانے کا عمل شروع ہو جائے گا۔ دوست بہت خوش ہوا: چلو! یہ کام تو آسانی سے ہو جائے گا مگر اس کے دل کے کسی خانے میں کوئی چور چھپا بیٹھا تھا جو بار بار اندر سے کچوکے لگا رہا تھا کہ یہ اتنا کام آسان نہیں جتنا وہ سمجھ رہا ہے۔ درخواست دیں گے تو ہی پتا چلے گا۔ تھوڑا سا شک شبہ اسے بھی ہوا کہ اتنا جلدی کوئی کام ہو جائے‘ وہ بھی کسی سرکاری محکمے میں‘ ناممکن سی بات لگتی ہے۔
چھوٹا سا پورشن تھا جس میں دو سونے کے کمرے تھے اور اس چھوٹے پورشن سے بھی چھوٹا ٹیرس‘ سوچا کہ سنگل فیز کنکشن ٹھیک رہے گا۔ سو فیصلہ کیا گیا کہ پہلے میٹر لگوانے کا طریقہ پتا کیا جائے اور یہ بھی معلوم ہو کہ اس پر کل کتنی رقم خرچ ہو گی۔ ڈیمانڈ نوٹس کتنی رقم کا جاری ہو گا اور کتنی دیر میں نوٹس کی رقم جمع کرانا ہو گی۔ سو ایک دن اطمینان سے نچلے پورشن کا بجلی کا ادا شدہ بل دیکھنے لگا۔ اس سے اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ پچھلے سال یا سابقہ حکومت میں پر یونٹ کا ریٹ کیا تھا اور اب یہ بڑھ کر کتنا ہو گیا ہے۔ اس اضافے کا اندازہ اسے خوب تھا کہ موجودہ حکومت کئی بار پر یونٹ کے ریٹ میں اضافہ کر چکی ہے۔
واپڈا اور ان گیارہ ترسیلی کمپنیوں کو الگ کرنے کا مقصد غالباً یہ تھا کہ آپریشن اور بزنس علیحدہ علیحدہ کر دیا جائے‘ یہ ایک بینکر کا آئیڈیا تھا جو ملک کا وزیراعظم بھی تھا مگر اس کی بنیادی سوچ ایک بینکار والی ہی تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ بڑے منصب پر پہنچ کر بھی سوچ محدود ہی رہتی ہے اور اس کا بنیادی مقصد دھیلے پیسے کے گرد ہی گھومتا ہے۔ دوست نے یہ بھی معلوم کر لیا ہمسایہ ملک میں ہر ریاست یا صوبے کا الگ ریٹ ہے مگر ملک میں مجموعی طور پر اس کا ریٹ پانچ صد یونٹ صرف ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ نو روپے کے لگ بھگ ہے۔ اس نے ہم سب کو یہ بھی بتایا کہ یہ یونٹ ہے کیا؟ اس کو سادہ طریقے سے ایسا سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر ایک گھنٹے میں ایک کلو واٹ یا ہزار واٹ استعمال ہوں تو وہ ایک یونٹ بنتا ہے۔ دوست کا کہنا ہے ابھی ایک سٹڈی میں بتایا گیا ہے کہ وہاں کی مختلف ریاستوں میں مختلف ٹیرف ریٹ ہیں اور ان میں یکساں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ ریاست کے معاشی اور سماجی حالات کو مد نظر رکھ کر ان میں کمی بیشی کی جاتی ہے۔ ابھی کیرالہ کی جنوبی ریاست میں ایک فیصد مگر مہاراشٹرا میں چھتیس فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح مغربی بنگال اور تامل ناڈو میں چالیس فیصد سے بھی زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ وہاں بعض ریاستوں‘ جیسے ہماچل پردیش اور اڑیسہ میں ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کی گئی؛ تاہم وہاں بھی بجلی کی چوری اور دیگر لاسز بہت ہیں مگر یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ موجودہ حکومت نے بجلی وافر ہونے کے باوجود اس کی قیمت میں کئی بار اضافہ کیا ہے۔ اس میں کبھی بھی کمی دیکھنے میں نہیں آئی جو انتہائی افسوسناک بات ہے۔ بجلی، پٹرول اور گیس کی قیمتوں کو ہی موجودہ حکومت کنٹرول کر لے تو عوام کے آدھے سے زیادہ مسائل حل ہو سکتے ہیں مگر وائے نصیب... یہ نہ تھی ہماری قسمت... اگر اور جیتے رہے تو یہی انتظار رہے گا۔ چونکہ ریٹ کم ہونے کی توقع نہیں تھی لہٰذا سنگل فیز درخواست کا فیصلہ کیا کہ اس کی ضرورت کے لیے سنگل فیز میٹر کافی بلکہ ضرورت سے زیادہ تھا۔ اسے یہ بھی علم تھا کہ تین سو سے سات سو یونٹ صرف کرنے پر پر یونٹ اٹھارہ روپے تک بڑھ جاتا ہے‘ سو بچت کا بھی ذہن میں بار بار خیال آتا تھا۔ اب اسی سلیب میں افغانستان میں چار روپے کا ایک یونٹ ہے‘ وہاں بھی ترسیلی کمپنیاں ہی بجلی فراہم کرتی ہیں۔
اتنی معلومات اکٹھی کر کے اور باہم بحث و تمحیص کے بعد اور یہ سب جان کر دوست نے پرانا اداشدہ بل اٹھایا اور اس پر دیے گے تمام نمبر ملائے کہ کہیں سے متعلقہ معلومات حاصل ہو سکیں مگر کہیں‘ کسی نے ٹیلی فون نہیں اٹھایا۔ ادا شدہ بل پر ہیڈ آفس اور ذیلی دفاتر کے متعدد نمبر دیے گئے تھے جن کے ساتھ یہ ہدایات بھی درج تھیں کہ معلومات کے لیے ان نمبروں پر رابطہ کیا جائے۔ ایک آدھ دن کی پریشانی کے بعد دوست نے تنگ آ کر متعلقہ لوکل دفتر کا نمبر ملایا اور پوچھا کہ سنگل فیز میٹر لگانے کا کیا طریقہ ہے اور کتنی رقم کا ڈیمانڈ نوٹس جاری ہونا ہے ؟ ٹیلی فون سننے والے نے جہاں میٹر لگنا تھا‘ اس جگہ کا ایڈریس پوچھا اور کہا: فکر نہ کریں میٹر لگ جاے گا۔
ایڈریس دینے کی دیر تھی‘ ایک آدھ گھنٹے میں اس دفتر کے اہلکار تھے کہ چیلیں‘ جو متعلقہ گھر کے چکر پہ چکر لگائے جا رہی تھیں۔ ہر ایک کی ڈیمانڈ الگ تھی‘ کوئی دس ہزار‘ کوئی بیس ہزار‘ کوئی پچیس ہزار طلب کر رہا تھا۔ رقم سب الگ الگ مانگ رہے تھے مگر سارے یہ تسلی دے رہے تھے رقم کی وصولی کے بعد‘ دو دن کے اندر کام ہو جائے گا۔ دوست نے پوچھا: درخواست کہاں سے ملے گی؟ اہل کار بولے: ہم کس مرض کی دوا ہیں؟ رقم دیجیے‘ سمجھیے کام ہو گیا۔
ابھی درخواست دفتر میں جمع بھی نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے مٹھی گرم کرنے کی شرط پر ایک دن میں کام مکمل کر دینے کی ہامی بھر لی۔ ان میں ایک دفتر کے باہر بیٹھنے والا ٹائوٹ نما شخص بھی تھا اور ایک اڈیکٹڈ اہلکار بھی۔ سب باری باری اپنا ریٹ بتاتے اور چلتے بنتے۔ دوست نے کہا: یہ اہلکار ہیں کہ مردار کی تلاش میں چکر لگاتی گِدھیں؟
دوست کہتا ہے: لگتا ہے کہ میں مردار ہوں جس کی کھال نوچنے کے لیے یہ گدھیں چکر لگاتے تھکتی ہی نہیں۔