تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     07-12-2021

حیرت کیسی؟

مذہب کی دو تعبیرات ہیں۔
دورِ زوال میں اہلِ اسلام کا سماجی رویہ جس تعبیر کے زیرِ اثر وجود میں آیا‘اس کے مطابق‘ اسلام فخر‘ قوت‘ اقتدار اور عصبیت کی علامت ہے۔ مذہبی پیشوا‘ سیاسی راہنما‘ قومی شاعر‘ سب مل کر یہی بتاتے رہے کہ اسلام کو اپنا نے کامقصد اور نتیجہ عظمتِ رفتہ اور ماضی کی شان و شوکت کی بازیافت ہے۔سید جمال الدین افغانی کو اس فکرکا سرخیل کہاجا سکتا ہے۔اس تعبیر نے ایک قومی مزاج تشکیل دیا۔اس کے زیرِ اثر جو شخصیت وجود میں آئی‘اس کے لیے اسلام اقتدار اوردنیاوی جا ہ و جلال کی علامت تھا۔اُس نے دنیا کی ان تما م اقوام کو ایک معاندانہ نظر سے دیکھا جنہوں نے اس سے یہ شکوہ چھینا۔اسے بتایا گیا کہ ان اقوام سے اس نے اپنا کھویا ہوا اقتدار واپس لینا ہے اور یہ اس کے دشمن ہیں۔اس نے دنیا کے عروج وزوال کو ایک فطری عمل کے بجائے‘اس تعبیر کے تحت دیکھا۔
اس تعبیر کے مطابق خدا‘ کتاب‘پیغمبر‘ تما م مذہبی شعائر مسلمانوں کے لیے تفاخر‘قومی حمیت اور عصبیت کی علامتیں قرار پائے۔اگر کوئی ان کی توہین کا مرتکب ہوا‘اس نے گویا ان کے قومی تفاخر کی توہین کی۔اس نے اسے اپنے قومی وجود کی بقا کا تقاضا جانا کہ ہر اس ہاتھ کوتوڑ دیا جائے جو ان کی طرف بڑھے۔اس کے پیچھے یہ نفسیات کارفر ما تھی کہ وہ اس طرح ان علامتوں کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دے رہاہے۔
اسی تعبیر کوہم دنیا پر نافذ نہیں کر سکے تو اپنے دائرہ عمل میں نافذ کر کے دکھا دیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہر زندہ قوم اپنے شعائر کا دفاع کرتی ہے۔یہ مگر اس وقت ہوتا ہے جب ایک قوم کے دنیاوی شکوہ کا اظہار مقصود ہو۔جیسے ایک ملک اپنے جھنڈے کو تقدس دیتا ہے۔ مسلمان بھی یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ اس نوعیت کا کوئی قانون بنائیں اگر کہیں زمامِ کار ان کے ہاتھ میں ہے۔اس بات کا تعلق سیاسی اقتدار سے ہے‘مذہب سے نہیں۔
مذہب کی دوسری تعبیر وہ ہے‘جس کے مطابق اسلام‘عالم کے پروردگار کی وہ ہدایت ہے جو اس نے اپنے پیغمبرﷺ کے توسط سے انسانوں تک پہنچائی۔اسے اپنی کتاب میں بیان کیا۔ رسول ﷺ اس لیے مبعوث ہوئے کہ وہ انسانوں کو پیغمبروں کی اس روایت سے جوڑ دیں اور اس قافلے کا حصہ بنا دیں جوقیامت کے دن ہمیشہ کے لیے سرخرو ہوں گے۔ رسولﷺ نے اپنا اسوۂ حسنہ انسانوں کے سامنے رکھا جس سے روشنی پاکر انسانوں کا ایک گروہ تیار ہوا۔ایک امتِ وسط۔
اللہ کے پیغمبرﷺ نے عمر بھر مشقت اٹھائی کہ خدا کی ہدایت اس کے بندوں تک پہنچے۔۔اللہ نے آپ کے بعدشہادتِ حق کی یہ ذمہ داری اس گروہ کو سونپ دی جس پر پیغمبر ﷺنے حق کی شہادت دی۔یوں واضح کر دیا کہ چونکہ آپ ﷺ کے بعد کسی رسول اور نبی نے نہیں آنا‘ اس لیے تمام انسانوں تک اللہ کادین پہنچانا امتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ یوں اہلِ اسلام اور غیر مسلموں کے درمیان خدا نے جو تعلق قائم کیا ہے‘وہ داعی اور مدعو کا تعلق ہے۔
یہ وہ دین ہے جو اللہ کی کتاب میں بیان ہوا ور جو رسول اللہﷺ سے ایک تواتر کے ساتھ نسل در نسل منتقل ہوتا آیا ہے۔اس کے مطابق‘ رسول ایک ایسی ہستی ہے جو ہدایت تک رسائی کا واحد ذریعہ ہے۔ اس سے بڑا محسن کوئی نہیں ہو سکتا جو انسان کو دائمی خسارے سے بچانے کا راستہ بتائے۔ایسی ہستی سے محبت فطری ہے۔اگر انسان اس ہستی کو پہنچان لے تو لازم ہے کہ وہ اس کے لیے اپنی جان اور دنیا کے ہر رشتے سے عزیز ترہو جائے۔
مذہب کا یہ تصور بھی ایک سماجی رویے کو تشکیل دیتا ہے۔اس میں مذہب کسی دنیاوی شوکت کا ذریعہ نہیں‘ خدا کی ایک نعمت ہے۔ایسی نعمت جو اسے دائمی مسرت عطا کرنے کا واحد سبب ہے۔اگراسلام کسی واقعے کے نتیجے میں‘اقتدار کا سبب بن جاتا ہے تو اس نعمت کے ثمرات اسی دنیا میں چکھے جا سکتے ہیں۔جب ہم دین کو نعمت سمجھتے ہیں تو ایک شکر گزار بندے کا رویہ پیدا ہو تا ہے‘کسی قومی فخر کا نہیں۔جو دنیاوی نعمتوں پر بھی اکڑ کر نہیں چلتا بلکہ اس کے حضور میں جھکتا چلا جا تا ہے۔ اس کی اعلیٰ ترین مثال فاتحِ مکہ ﷺ ہیں جو شہر میں اس شان سے داخل ہوئے کہ عرب کی جاہ و حشمت ان کے سامنے جھکی ہوئی تھی اور وہ اپنے پروردگار کے حضورمیں جھکے ہوئے تھے۔
اس تعبیر کے تحت‘دین ایک نصیحت ہے۔یہ مزاج‘اس نعمت کا انکار کرنے والوں کے لیے پریشان ہوتا ہے۔ان کی بد نصیبی پر اداس ہوتا اور یہ چاہتا کہ وہ دائمی نقصان سے بچ جائیں۔یوں وہ ان سے دعوت کا تعلق پیدا کرتا ہے۔انہیں خدا کی طرف بلاتاہے۔وہ اگر کسی غلط فہمی کا شکار ہیں تو اسے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔انہیں کوئی علمی مغالطہ لاحق ہے تو ان کے سامنے علمی دلائل کے ساتھ دین کا مقدمہ پیش کرتا ہے۔ان کے تکلیف دہ رویے پر صبر کرتا ہے۔تنہائی میں ان کی ہدایت کے لیے دعا مانگتا ہے۔دعوت کا سب سے حسین ماڈل خود رسالت مآبﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہے جس میں یہ سب جھلکیاں موجود ہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ آپ ﷺکو تلوار بھی اٹھانا پڑی۔یہ تلوار آپ نے دعوت کے لیے نہیں‘اپنے دفاع یا پھر اس فریضے کی ادائیگی کے لیے اٹھائی جو پروردگارِعالم نے آپ پرعائد کیا تھا۔یہ فریضہ تھا سرزمینِ عرب پر اللہ کے دین کا غلبہ اور خدا کی ہدایت نہ ماننے والوں کواسی دنیا میں اللہ کے عذاب کی وعید۔وہ عذاب جو اللہ نے سورہ توبہ میں بتا دیا کہ صحابہؓ کی تلواروں کے ذریعے نافذ ہوگا اور وہ ہو گیا۔ یہ عذاب اس لیے اتارا گیا کہ لوگوں پر اتمامِ حجت ہوجائے اور وہ جان جائیں کہ کس طرح قیامت کے روز یہ عذاب ان کا مقدر بنے گا جوجان بوجھ کر خدا کی ہدایت کاانکار کرتے ہیں۔
دین کے پہلے تصور پر یقین رکھنے والا اس جہاد کو دنیاوی شوکت سے جوڑتا ہے اوریوں غیر مسلمانوں کے ساتھ معاندانہ تعلقات کے لیے اسے دلیل بنا تا ہے۔ دوسرے تصور کو ماننے والا اسے ایک ایسے واقعے کے طور پر دیکھتا ہے جوخدا ئی فیصلے کا ظہور تھا جیسے اس سے پہلے بھی قومِ نوح یا قومِ لوط کے لیے اسی فیصلے کا ظہور ہوا۔عام مسلمان کے لیے ہدایت یہی ہے کہ وہ غیر مسلموں کے ساتھ داعی اور مدعو کا تعلق رکھے۔
ہم دین کے نام پر جوفساد دیکھ رہے ہیں‘یہ پہلی تعبیر کا نتیجہ ہے۔ اس کا اظہار ایک جملے کی صورت میں ہوتا ہے: ''مسلمان کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو‘توہین کسی صورت میں برداشت نہیں کر تا۔‘‘جب کوئی مسلمان‘فرد یا گروہ‘توہین بر داشت نہیں کر تا اورکسی کی جان لے کر اپنے مسلمان ہونے کا عملی ثبوت فراہم کرتاہے تو ہمارے مذہبی و قومی راہنما‘اس کی مذمت کرتے وقت پہلا جملہ یہی ارشاد فرماتے ہیں۔ یہ جملہ اس فعل کی توثیق ہے۔ اس کے بعد مذمت میں جو کچھ بھی کہا جاتا ہے‘وہ بے معنی ہو تا ہے۔ایک رسمی کارروائی۔
سیالکوٹ کاواقعہ‘اس نوعیت کے اُن واقعات سے کسی طور مختلف نہیں جو اس سے پہلے پیش آ چکے۔ہمارے مذہبی و قومی رہنماؤں کا ردِ عمل مگر مختلف ہے۔اُن کی نظر میں ایک واقعے کا ذمہ دار ہیرو ہے اور دوسرے واقعے کا ذمہ دار قانون شکن۔ایک پر پھول نچھاور کیے جاتے ہیں اور دوسرے کو سزا دینے کا مطالبہ کیاجا تا ہے۔پہلا ردِ عمل حقیقی ہے‘ دوسرا محض دکھاوا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved