تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     07-12-2021

حکیم سجاد سے پریانتھا کمارا تک

قرآنِ پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام کی تہمت لگا کر‘ جو انہوں نے نہ کیا ہو‘ ایذا دیتے ہیں‘ وہ اپنے اوپر بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ لیتے ہیں‘‘ (سورۃ الاحزاب: 58)۔
3 نومبر کو عظیم مفکر اور دینِ اسلام کے روشن پہلوئوں سے مزین تعلیمات کو اپنے شعروں اور کلام سے دنیا بھر میں متعارف کرانے والے شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کے شہر سیالکوٹ میں جو ہولناک اور شرمناک واردات نما سازش ہوئی‘ اس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لوگ اس واقعے کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ان 'شیدائیوں‘ نے سری لنکن شہری کو اینٹوں، سلاخوں، مکوں، تھپڑوں، ڈنڈوں اور پتھروں سے مارنے کے بعد جاہلیت کے شعلوں میں بھسم نہیں کیا بلکہ یہ ہماری دینی تعلیمات اور ہماری سماجی اقدار کی روح تھی جس کو تشدد کر کے مسخ کیا گیا۔ اس ایک عمل سے ملک بھر کو وہ ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا جس کا مداوا شاید وقت کا مرہم بھی نہ کر سکے۔
سیالکوٹ کا درندگی پر مبنی جاہلیت کا وہ واقعہ بھی لوگ اب تک نہیں بھولے جب دو معصوم حافظِ قرآن بھائیوں پر چوری کا الزام لگا کر ان پر کئی گھنٹوں تک تشدد کیا گیا اور پھر وحشی ہجوم نے ان دونوں بھائیوں کو قتل کر دیا تھا۔ وہ مناظر آج بھی جب نظروں کے سامنے آتے ہیں تو معاشرے کی جاہلیت پررونا آنے لگتاہے۔ جس‘ جس نے وہ منا ظر دیکھ رکھے ہیں‘ اس کی روح تک کانپ اٹھی تھی۔ ان دو معصوم بھائیوں کی ہڈیوں کے چٹخنے کی آوازوں نے اس وقت بھی انسانیت کو تڑپا کر رکھ دیا تھا لیکن جاہلیت اور شدت پسندی میں کمی دیکھنا ایک خواب ہی رہا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی ہم زوال کا شکار ہیں، ہر شخص کی تربیت میں کمی آتی جا رہی ہے۔ مذہب سے دوری اور دین کی تعلیمات سے لا علمی کا ہی یہ شاخسانہ ہے کہ راہ چلتے جنت کے سرٹیفکیٹ لینے کی سوچ نے پورا معاشرہ تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کے بہیمانہ قتل اور شعلوں میں بھسم ہوئی لاش پر حکومت، حزبِ اختلاف اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے روایتی بیانات کی بھر مار گونگلوئوں سے مٹی جھارنے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ سب لوگ شاید یہ نہیں جانتے کہ سری لنکن ورکر کے اس بے رحمانہ اور اندوہناک قتل نے پاکستان کے تشخص کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے۔ اس واقعے کے بعد یورپ اور امریکا سمیت دوسرے ممالک میں رہنے والے تارکین وطن اپنے دفاتر، کمیونٹی اور کہیں بھی آتے جاتے کس اذیت اور شرمندگی سے دو چار ہو رہے ہیں‘ اس کا کسی کو اندازہ بھی نہیں۔ پاکستان کے سفارت خانوں کے قریب سے گزرتے ہوئے وہاں کے شہری کن نظروں سے ان عمارتوں کو دیکھتے ہیں‘ سوشل میڈیا اور ای میلز کے ذریعے کیا کچھ کہا اور سنایا جا رہا ہے‘ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس شرمناک واقعے کے بعد بھی اگر کوئی پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے خواب دیکھتا ہے تو اسے یہی کہا جائے گا کہ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
نریندر مودی کی بی جے پی اور آر ایس ایس کی ہندوتوا سوچ کے ہاتھوں بھارت کی ہر اقلیت خصوصاً مسلمانوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ان کے وسیع پیمانے پر قتلِ عام اور ان کی املاک اور روندی ہوئی لاشوں کو آگ کے شعلوں کی نذر کرنے والی انتہا پسند سوچ کے خلاف دنیا کی ہر جاگتی آنکھ نم ناک تھی۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں آباد ہر ذی شعور بھارت کی مذہبی جنونیت کے ہاتھوں جلائے اور ذبح کیے جانے والے بچوں اور عورتوں کی راکھ بنی سوال کناں لاشوں کو دیکھ دیکھ کر کانپ رہا تھا۔ امریکا سمیت بہت سے مغربی ممالک بھارت کے لتے لے رہے تھے، دنیا بھر میں اس کا سیاہ چہرہ نفرت کی علامت بنتا جا رہا تھا، مذہبی منافرت کے حوالے سے بھارت کا شمار پست ترین ممالک میں کیا جارہا تھا مگر اس ایک واقعے سے حالات نے یک دم ایسا پلٹا کھایا کہ اب سب کی انگلیاں پاکستان کی طرف اٹھنے لگی ہیں۔ بھارت کے خلاف فرنٹ فٹ پر کھیلنے والا پاکستان اب آئوٹ ہو کر پویلین میں بیٹھا گیا ہے۔ کس قدر افسوسناک امر ہے کہ ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے دورۂ پاکستان سے پہلے ہی‘ کھیلوں کا سامان تیار کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور سیالکوٹ‘ فٹ بال کے عالمی مقابلوں میں استعمال کیے جانے والے فٹ بال تیار کرنے والا سیالکوٹ‘ پاکستان کی ایکسپورٹ میں تیس فیصد سے زائد حصہ ڈالنے والا سیالکوٹ‘ شاعر مشرق علامہ اقبال کی جنم بھومی والا سیالکوٹ اب جنونیت اور انتہا پسندی کا حوالہ بن کر رہ گیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس سے پہلے سری لنکن شہری کی جلتی ہوئی لاش سے اٹھنے والے دھویں نے صرف سیالکوٹ کی فضا کو ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی فضا کو مکدرکر دیا ہے۔
سانحہ سیالکوٹ سے مجھے مئی 1994 کی وہ صبح یاد آ گئی جب گوجرانوالہ کے علاقہ کھیالی شاہ پور میں ایک رکشا ڈرائیور‘ اس کی بیوی اور علاقے کی مسجد کے امام کے ایک رشتہ دار نے حکیم سجاد فاروق سے متعلق یہ بات پھیلانا شروع کر دی کہ اس نے اپنی بیوی کو‘ جو تلاوت میں مشغول تھی‘ ناشتہ دینے کا کہا مگر اسے اٹھنے میں کچھ دیر ہو گئی تو خاوند نے غصے میںاس کے ہاتھ سے کتابِ مقدس چھین کر پھینک دی۔ اس سارے منظر کی واحد گواہ ایک ہمسایہ عورت تھی‘ جس کے بقول‘ اس نے یہ سارا منظر اس وقت اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا جب وہ اپنے گھر کی دیوار پرکھڑی ہمسایوں (حکیم سجاد) کے گھر میں تاک جھانک کر رہی تھی۔ اس عورت نے شور مچا کر محلے داروں کو اکٹھا کرلیا اور وہ سب حکیم سجاد کو مارنا پیٹنا شروع ہو گئے، کسی نے پولیس کو اطلاع دی جو موقع پر پہنچی اور اسے گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئی مگر بات یہیں پر ختم نہیںہو ئی۔
پولیس کے جانے کے بعد لائوڈ سپیکرز پراعلانات شروع ہو گئے کہ فلاں شخص نے توہین کا ارتکاب کیا ہے جسے پولیس محلے والوں سے بچا کر اپنے ساتھ تھانے لے گئی ہے۔ ان اعلانات میں اشتعال دلانے والے فقروں کو سنتے ہی ہر جانب سے افراد امڈ آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں کی بھیڑ اکٹھی ہو گئی جس نے تھانے پر ہلہ بول دیا۔ حکیم سجاد کو حوالات سے باہرنکالا گیا اور تھانے کے باہر کھڑی اینٹوں سے لدی ٹرالی سے اینٹیں اٹھا اٹھا کر اسے سنگسار کر دیا گیا۔ اس کے بعد اس کی لاش پر تیل اور پٹرول چھڑک کر اسے آگ لگا دی گئی۔ اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ بعد ازاں اس کی باقیات کو موٹر سائیکل کے پیچھے باندھ کر گلیوں اوربازاروں میں گھسیٹا گیا۔ چھ بچوں کا باپ حکیم سجاد ایک نیک‘ ایماندار اور سب سے بڑھ کر حافظِ قرآن تھا۔ اس نے عربی اوراسلامیات میں ماسٹرز کیا ہوا تھا اور ایک تعلیمی ادارے میں بطور لیکچرار پڑھا رہا تھا۔اس کے ہاتھ میں قدرت نے شفا رکھی تھی اور وہ روحانی علاج بھی کرتا تھا جس کی دھوم نے علاقے کے ایک شخص کا کام ٹھپ کر دیا تھا کیونکہ حکیم سجاد روحانی علاج کا معاوضہ وصول نہیں کرتا تھا۔ اس کے علاو ہ وہ اپنے محلے کے کچھ لوگوں کو ان کی اخلاق سوز حرکات پہ روکتا ٹوکتا بھی تھا، اونچی آواز میں گانے لگانے والوں کے گھر جا کر انہیں منع کرتا تھا جس کا محلے کے اوباش گروپ کو سخت غصہ تھا اور وہ سب بدلے کی تاک میں تھے۔ ذاتی رنجش پر اس پر ایک الزام لگایا گیا اور پھر سب نے بے گناہ حافظِ قرآن کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیے۔
2017ء میں پیش آئے مشال خان کے واقعے کو کتنا عرصہ ہوا ہے جب ایک تعلیم یافتہ کہے جانے والے ہجوم کی وحشت نے اس کا قتل کیا تھا۔ خوشاب کے بینک منیجر والا واقعہ تو ایک سال ہی پرانا ہے، کیا ہم نے اسے بھی فراموش کر دیا؟ اس وقت بھی خبردار کیا گیا تھا کہ اب بھی وقت ہے ہوش کے ناخن لیں لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔کسی مسلم معاشرے میں غیر مسلم کے کیا حقوق ہوتے ہیں‘ اس کے حوالے سے صرف ایک حدیث شریف ہی ملاحظہ فرما لیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے کسی ذمی (غیر مسلم) پر ظلم کیا، یا اس کا حق چھینا یا اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ اس پر ڈالا یا اس کی کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر لے لی تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے وکیل ہوں گا۔ (سنن ابودائود:3052)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved