تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     08-12-2021

گوادر کے عوام اور حکومت

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساحل پر گوادر کی بندرگاہ بحیرہ عرب کے اس حصے میں واقع ہے جہاں سے پانچ سو سال سے زیادہ عرصہ قبل یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک پرتگال نے بحر ہند کے خطے میں یورپی نوآبادیاتی دور کا آغاز کیا تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد پاکستان، بھارت اور سری لنکا کی آزادی کے نتیجے میں یہ نوآبادیاتی دور اختتام پذیر ہوا‘ مگر بحر ہند کے شمال مغربی حصے یعنی بحیرہ عرب، خلیج فارس، خلیج اومان بحر احمر (Red Sea) اور ان سمندروں کو آپس میں ملانے والی آبنائے ہرمز اور باب المندب (Gate of Tears) کی جیوسٹریٹیجک اہمیت ختم نہیں ہوئی، بلکہ مختلف ادوار میں اس کا مختلف شکلوں میں اظہار ہوتا چلا آرہا ہے۔ آج کل ایران کے ساتھ امریکہ کی چپقلش اور افغانستان کی غیریقینی صورتحال کی وجہ سے یہ خطہ امریکی بحری، ہوائی اور زمینی افواج کا کیمپ بنا ہوا ہے‘ مگر سب سے زیادہ اہم جیو اکنامک معنوں میں نمایاں کردار ادا کرنے والے سی پیک کی تعمیر ہے‘ جس کے نتیجے میں گوادر نہ صرف چین بلکہ جنوبی اور وسطی ایشیا کے ممالک کیلئے بھی بحر ہند کے راستے باقی تمام دنیا کے ساتھ تجارت کے راستے کھول دے گا‘ لیکن زیر نظر کالم کا اس وقت موضوع گوادر کی تاریخی جیو سٹریٹیجک اور اقتصادی اہمیت کا ذکر نہیں بلکہ کچھ دنوں سے جاری گوادر کے عوام کی احتجاجی تحریک ہے۔ اس تحریک کے مطالبات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ گوادر شہر اور ارد گرد کے علاقوں میں رہنے والے لوگ بنیادی انسانی ضروریات مثلاً پینے کیلئے صاف پانی، رہائشی سہولتوں، روزگار کے مواقع کے حصول کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔
گوادر کی ایک قدرتی اور گہرے سمندر کی بندرگاہ کی حیثیت سے تعمیر کا آغاز 2002ء میں ہوا تھا۔ اس کے پیچھے کراچی پر بحری آمدورفت کے بوجھ کو ہلکا کرکے پاکستان کو ایک متبادل بندرگاہ مہیا کرنے کا آئیڈیا تھا، جو نہ صرف سمندر کے راستے پاکستان کی بڑھتی ہوئی بحری تجارت کی ضروریات پوری کر سکے، بلکہ دفاعی لحاظ سے بھی محفوظ ہو۔ اگرچہ پہلے بھی گوادر کی اہمیت کو چین اور یوریشیا پر مشتمل وسیع ہنٹر لینڈ (Hinterland) کیلئے تسلیم کیا جا رہا تھا، لیکن یہ 2015ء میں چین اور پاکستان کے مابین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی تعمیر کے منصوبے پر سمجھوتہ تھا، جس نے گوادر کی اصل اہمیت کو دنیا بھر میں روشناس کروایا۔ اس دوران گوادر میں تعمیروترقی کے منصوبوں کا اعلان ہوتا رہا اور اس سمت میں بڑے بڑے دعوے بھی کئے جاتے رہے لیکن ''گوادر کو حقوق دو‘‘ کی تحریک کے مطالبات سے پتہ چلتا ہے کہ تعمیری سرگرمیوں کے پھیلاؤ کے باوجود گوادر کے باشندوں کو بنیادی انسانی سہولتیں بھی میسر نہیں اور صورتحال اتنی مخدوش ہے کہ دھرنوں اور احتجاجی جلوسوں میں شرکت مردوں تک محدود نہیں بلکہ عورتیں اور بچے بھی کثیر تعداد میں شامل ہو رہے ہیں۔ گوادر کی اس احتجاجی تحریک کی طوالت نے پاکستان کی سول سوسائٹی کو بھی متوجہ کرنا شروع کر دیا ہے اور بنیادی انسانی حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے کارکن، صحافی اور طالب علم بھی اس میں شریک ہو رہے ہیں۔ مزید برآں احتجاجی مظاہروں کا دائرہ پھیل گیا ہے۔ گوادر کے ارد گرد کے علاقوں سے بھی لوگ جوق در جوق احتجاجی مظاہروں میں شرکت کر رہے ہیں۔ ان میں ملازمت پیشہ خواتین، مزدور، طالب علم اور سماجی کارکن بھی شامل ہیں۔
بلوچستان کی نئی حکومت کے ایک سینئر وزیر نے مظاہرین سے رابطہ قائم کیا ہے لیکن مذاکرات کے باوجود کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ حکومت کی طرف سے مظاہرین کو اپنے موقف میں لچک دکھانے پر زور دیا جا رہا ہے کیونکہ مظاہروں کے جاری رہنے سے سی پیک کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے حکومت پر گوادر کے رہائشیوں کو درپیش مسائل حل کرنے اور شہر میں امن کے قیام کیلئے ضروری اقدام کرنے پر زور دیا جا رہا ہے کیونکہ سی پیک کا جنوبی ٹرمینل ہونے کی وجہ سے گوادر کو پاکستان میں ترقی اور خوشحالی کا سمبل سمجھا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ صوبائی حکومت کی کوششیں بارآور ثابت ہوں اور بعض فوری حل طلب مسائل مثلاً پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور قدم قدم پر چیک پوسٹوں کا خاتمے، پر حکومت کی طرف سے یقین دہانیوں کے بعد مظاہرین اپنی احتجاجی تحریک معطل کر دیں، لیکن ان اقدام سے اگر یہ امید وابستہ کی جائے کہ گوادر میں مستقل امن اور سکون قائم ہو جائے گا تو یہ ایک غلط فہمی ہو گی، کیونکہ احتجاجی تحریک کے پلیٹ فارم سے جو مسائل اٹھائے جا رہے ہیں وہ صرف گوادر تک محدود نہیں بلکہ ان کا تعلق پورے بلوچستان سے ہے اور ان سے متاثر ہونے والے صرف گوادر کے رہائشی نہیں بلکہ تمام بلوچ ان مسائل کی بات کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک مسئلہ چیک پوسٹوں کا ہے جو اگرچہ بلوچستان کے اندر، اور دوسرے صوبوں خصوصاً سندھ اور پنجاب سے ملانے والی شاہراہوں پر واقع ہیں، مگر گوادر جیسے زیادہ حساس علاقوں میں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ بلوچستان کی تقریباً تمام سیاسی پارٹیاں ان چیک پوسٹوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتی چلی آ رہی ہیں کیونکہ ان سے لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ آزادانہ اور بغیر کسی رکاوٹ کے آنے اور جانے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بلوچستان کی نئی حکومت نے اس سلسلے میں گوادر کی احتجاجی تحریک کے مطالبے کو تسلیم کرنے کی طرف ایک اہم قدم اٹھایا ہے اور تقریبا 300 کلومیٹر طویل کوئٹہ، ژوب ہائی وے پر قائم 28 میں سے 25 چیک پوسٹوں کو ختم کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ بلوچستان کے دیگر حصوں میں بھی اس قسم کے اقدامات کئے جا سکتے ہیں، اور امید کی جا رہی ہے کہ ان چیک پوسٹوں کی وجہ سے صوبے کے عوام کو آمدورفت میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ کافی حد تک دور ہو جائیں گی اور مقامی لوگوں کو مختلف مقاصد کے لیے آمدو رفت میں آسانی ہو گی لیکن گوادر کا مسئلہ تھوڑا سا پیچیدہ ہے۔
گوادر سی پیک کا جنوبی ٹرمینل ہے اور اس وجہ سے اس کی سکیورٹی کیلئے غیر معمولی اقدامات کئے گئے ہیں۔ دہشت گردی اور غیر ملکیوں پر حملوں کے متعدد واقعات کی وجہ سے سکیورٹی کو اور بھی سخت کرنا پڑا ہے لیکن ان سے مقامی لوگوں کی آزادانہ آمدورفت متاثر ہو رہی ہے، مسئلے کا حل ڈھونڈنا ناممکن نہیں لیکن صوبے میں ایک عرصہ سے حکومت کو کئی معاملات میں سائیڈ لائن کرکے رکھا گیا ہے۔ زاویہ نگاہ میں فرق اس مسئلے کے حل کے آڑے آ رہے ہیں۔ اس مقصد کیلئے صوبائی حکومت کو آگے آنا چاہیے اور سکیورٹی کی ضروریات پوری کرتے ہوئے عوام کو درپیش مشکلات دور کرنے کا طریقہ بھی تلاش کرنا چاہیے‘ لیکن گوادر بلکہ بلوچستان کا مسئلہ صرف اس اقدام سے حل نہیں ہو گا۔ بلوچستان میں اصل مسئلہ قومی تشخص کا ہے ان کے قومی تشخص کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ بلوچستان یا گوادر کے عوام ترقیاتی منصوبوں کے خلاف ہیں، اس کے برعکس وہ دہائیوں پر محیط لگاتار غفلت کی بدولت صوبے کو ملک کا سب سے زیادہ پس ماندہ صوبہ رکھنے پر سراپا احتجاج ہیں۔ ترقی کے علاوہ صوبے کے عوام کو اپنی آزادانہ رائے سے ایک بااختیار اور صحیح معنوں میں نمائندہ حکومتوں کی تشکیل سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ گوادر میں ایک تحریک کی شکل میں اس وقت ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ سابقہ ادوار میں اختیار کی جانے والی انہی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved