تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     29-07-2013

شاہی بچہ اور ہماری بوریت

گزشتہ دو ہفتے برطانیہ میں بہت مشکل وقت رہا ہے، خاص طور پر اُن افراد کے لیے جو برطانیہ کے شاہی خاندان کے لیے دل میں نرم گوشہ نہیں رکھتے، کیونکہ اُنہیں ٹی وی اور ریڈیو پرشاہی محل میں آنے والے نئے مہمان کے حوالے سے گھنٹوں تکرار سننی پڑی، جبکہ تقریباً تمام اخبارات کے ایڈیشنز بھی اسی موضوع کا احاطہ کررہے تھے۔ عالم یہ تھا کہ چاہے آپ کوئی بھی چینل لگائیں، کوئی بھی اخبار اٹھائیں، ایسا لگتا تھا کہ دنیا میں ایک شاہی بچے کی متوقع پیدائش سے اہم کوئی موضوع نہیں ہے۔ میں ذاتی طور پر شاہی خاندان سے کوئی جذباتی وابستگی محسوس نہیںکرتا ہوں؛ تاہم میرا خیال ہے کہ وہ جگہ سیر و سیاحت کے لیے بری نہیںہے۔ اس کے علاوہ وہاں ہونے والی تقریبات ، جن کے اہل ِ برطانیہ بہت رسیا ہیں، بھی بہت شاندار ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود آنے والے ولی عہد کے بارے میں ہمہ وقت جاری ہونے والی اطلاعات کے تسلسل، جسے ایک طرح کی رننگ کمنٹری کہا جاسکتا ہے، نے طبیعت کو مکدر کر دیا ۔ گزشتہ سال شاہی شادی اور ملکہ کی ڈائمنڈجوبلی کی تقریبات ہوئی تھیں۔ ابھی ان کا ہنگامہ سر د نہیں پڑا تھا کہ ننھے جارج ہفتم کی آمد کی اطلاع گرم ہوگئی۔ اس کے بعد آنے والے مہمان کے نام کے بارے میں چہ می گوئیاں شروع ہو گئیں جبکہ اس بات پر بھی بھاری شرائط لگائی گئیں کہ اُسے کس چرچ کا ممبر بنایا جائے گا اور اس کی رسومات کہاں ادا کی جائیں گی۔ اس ضمن میں بہت سے نام اور مقامات ’’ہاٹ فیورٹ‘‘ تھے۔ اس کا اندازہ بک میکرز کے ریٹس سے ہوتا تھا۔ (دنیا کے ہمارے حصے میں یہ معاملہ ہو تو ’میچ فکسنگ ‘ کی سہولت میسر رہتی ہے)۔ نام ’جارج‘ برطانوی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مشہور اخبار گارڈین ہمیں اطلاع دیتا ہے کہ جارج اوّل (1727ء۔1714ء) جرمنی میں پیداہوئے، چنانچہ اُنہیں بہت کم انگریزی آتی تھی۔ اس کے علاوہ اُن کو اپنی بیوی کی بجائے اپنی محبوبہ میں زیادہ دلچسپی تھی اور اس سے اُن کی تین بیٹیاں بھی تھیں۔ جارج دوم (1760ء۔1727ء) بھی جرمنی میں پیدا ہوئے۔ اُن کی بہت سی محبوبائیںتھیں، چنانچہ وہ امراض ِقلب میں مبتلا ہوکر راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔ جارج سوئم (1820ء۔1760ء) کی حکومت کے وقت برطانیہ اپنی تیرہ کالونیاں کھو چکا تھا ۔ یہ کالونیاں ریاست ہائے متحدہ امریکہ بن گئیں۔ اُن پر اکثر پاگل پن کے دورے پڑتے تھے، چنانچہ ان کی زندگی میں ہی ان کے بیٹے نے حکومت سنبھال لی؛ تاہم ان کی وفات کے بعد باقاعدہ تاج پہنتے ہوئے جارج چہارم کا لقب اختیار کیا اور 1830ء تک حکومت کی۔ ان کو نپولین کے خلاف جنگ جیتنے پر شہرت ملی۔ اُن کے اپنی بیوی کے ساتھ تعلقات اتنے خراب تھے کہ اس کو تاج پوشی کی تقریب میں شامل ہونے کی اجازت بھی نہ دی۔ اس کے بعد آٹھ دہائیوںتک شاہی تخت پر جارج حکمرانی نہ کر سکے۔پھر جارج پنجم نے البرٹ کی وفات کے بعد تخت سنبھالااور اپنے مرحوم بھائی‘ جو نمونیے سے فوت ہو گئے تھے‘ کی منگیتر سے شادی کی۔ جارج ششم ایڈورڈ ہشتم کے بعد تخت پر بیٹھے کیونکہ شہنشا ہ ایڈورڈ نے ایک عام عورت، جو طلاق یافتہ تھی، ولیس سمپسن سے شادی کرنے کے لیے تخت چھوڑ دیا تھا۔ اس واقعہ پر ایک فلم The Speech بھی بنائی گئی ہے۔ جہاں تک اس ننھے جارج کا تعلق ہے تو انہیں تاج پہننے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ ابھی ان کے دادا، شہزادہ چارلس بھی بادشاہ نہیں بنے جبکہ ان کی والدہ، موجودہ ملکہ برطانیہ، معمر ہونے کے باوجود اچھی صحت رکھتی ہیں۔ بچے کے والد پرنس ہیری بہت فٹ نوجوان ہیں اور وہ رائل ائیرفورس میں لڑاکا طیارے اُڑانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ شاہی بچے کی پیدائش کے موقع پر جیسے برطانوی میڈیا پر ایک طرح کا جنون طاری ہو گیا تھا۔ ٹی وی کیمرے اور صحافی حضرات چوبیس گھنٹے اس ہسپتال کا محاصرہ کیے پڑے رہے جہاں ڈچز آف کیمبرج، کیٹ میڈلٹن داخل ہوئی تھیں۔ متوقع دن سے بہت پہلے صحافی اس موضوع پر نہایت سنجیدہ انداز میں گفتگو کرتے پائے جاتے تھے کہ بچے کا وزن کیاہوگا، ڈلیوری نارمل ہو گی یا آپریشن کی ضرورت پڑے گی یا بچے کی والدہ کو درد ختم کرنے والے epidural انجکشن کی ضرورت ہوگی یا نہیں؟ان تمام موضوعات پر مختلف حلقوں کی طرف سے گفتگو جاری تھی۔ چلیں فرض کریں کہ برطانوی شہری شاہی خاندان کے ساتھ جذباتی وابستگی محسوس کرتے ہیں، لیکن اس معاملے میں باقی دنیا کی دلچسپی بھی حیران کن تھی۔ امریکی بھی تیز تیز سانس لیتے ہوئے ان واقعات کو ٹی وی سکرین پر دیکھ رہے تھے جیسے ’’کچھ ہونے والا ہے‘‘۔ کینیڈا کے شہری نیاگرا فال پر نیلی روشنی جلاتے دیکھے گئے۔ کسی نے لکھا کہ اگر لڑکی پیدا ہوئی تو آبشار کو گلابی روشنی سے جگمگایا جائے گا اور مقامی افراد گلابی رنگ کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ مجھے سب سے اچھا تبصرہ ملکہ کی کزن کا لگا۔جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ بھی جذباتی ہورہی ہیںتو انھوںنے کہا۔۔۔ ’’نہیں، یہ معمول کی بات ہے، ہر کسی کے بچے ہوتے ہیں‘‘۔ گارڈین کے کارٹونسٹ سٹیو بل نے ایڈیٹوریل کے صفحے پر کارٹون میں ایک بڑا سا بنک نوٹ بنایا۔ اس کے ایک کونے پر ایک چھوٹا سا شہزادہ تاج پہن کر دو انگلیاں فاتحانہ انداز میں لہرا رہا تھا۔ اس لیجنڈری کا رٹونسٹ نے نیچے ایک معانی خیز تحریر لکھی تھی۔۔۔’’آپ کا مستقبل کا سربراہ۔۔۔۔۔ ابھی دودھ پینے والا بچہ ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے، ایک فرد راج کرتا ہے، تم سب ادائیگی کرتے ہو‘‘۔ اگر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والا لبرل اخبار گارڈین ننھے جارج کو اتنے اہم صفحے پر اتنی جگہ دے سکتا ہے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہ ہوگا کہ دائیں بازو کے اخبارات نے کیا کچھ نہیں کیا ہوگا۔ حتیٰ کہ سنجیدہ مزاج کا حامل ٹی وی چینل، بی بی سی بھی جذباتی رو میں بہہ گیا ۔ اس کا بھی ایک نمائندہ شاہی محل میں موجود رہا اور اس لمحہ بہ لمحہ رونما ہونے والے واقعات کی رپورٹ پیش کرتا رہا۔ گرین پارک میں 61 توپوں کی سلامی دی گئی جبکہ بکنگھم پیلس میں 21 توپوں کی۔ ایک شہزادے کی پیدائش پر یہ رسم ہے، تاہم میں حیران ہوں اگر لڑکی پیدا ہوتی تو کیا ہوتا؟شنید ہے کہ حکومت نے ایک آئینی ضابطہ تیار کرلیا تھا جسے ووٹ کے لیے ایوان میں پیش کیا جاتا ۔ اس کی رو سے جارج کی بجائے جارجینا کی تاج پوشی کی جاتی۔ الزبتھ دوم اس لیے ملکہ ہیںکہ ان کا کوئی بھائی نہیں ہے۔ قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ برطانوی معاشرے میں رہنے کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی میرے ذہن نے اتنی معلومات سمیٹ لی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ شہزادہ ہیری اور کیٹ میڈلٹن کے ہاں دوسرا بچہ قدرے تاخیر سے ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved