تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     08-12-2021

ادب اور معاشرہ

عالمی سیاست میں دہشت گردی کو بطورِ ٹول استعمال کرنے کی حکمت عملی نے جہاں روئے زمین پہ انسانی رویوں کو متاثر کیا وہاں اِسی سرگرانی نے ہماری تہذیب و ثقافت، تاریخ و ادب اور معاشرتی شعور پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں؛ چنانچہ اسی کی بدولت سماجی و سیاسی زندگی کے دھارے سے بامقصد شعر و ادب کا وہ عنصر معدوم ہو گیا جو کبھی زندگی کے میلے میں رنگ بھرنے کے علاوہ ذہنوں کو منور رکھتا تھا۔ بظاہر مہیب تشدد کے انہی مظاہر نے اجتماعی زندگی کو فنونِ لطیفہ کے اُس نفسیاتی اثر سے باہر نکال لیا، جس نے ہماری تہذیبی شناخت اورسیاسی شعور کو منظم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ دو دہائیوں قبل تک خیبر پختونخوا کے طول وعرض میں تہذیب وثقافت کی پرداخت کے علاوہ شعر و ادب کی ترویج کرنے والی تنظیمیں متحرک تھیں‘ جن میں گلی کوچوں میں مشاعرے منعقد کرانے والی شامِ افسانہ، ادبی ٹولونہ اور سرائیکی سنگت جیسی کئی انجمنیں وقت کی دبیز تہہ میں گم ہو گئیں۔ یادگاری مواقع پہ اصلاحی اور تاریخی موضوعات پہ مبنی ڈرامے، مزاحیہ اور طرحی مشاعروں کی محفلیں بھی اب قصۂ پارینہ بن چکی ہیں۔ چودہ اگست اور چھ ستمبرکے علاوہ عیدین کی مناسبت سے سجائی جانے والی گداز ادبی و ثقافتی تقریبات، موسمی تہوار، چترال کا شندور میلہ، جشنِ سوات اور جشنِ ڈیرہ اسماعیل خان میں گھڑ دوڑ، نیزہ بازی، کشتی اور کبڈی کے مقابلوں کے علاوہ علاقائی رقص، مشاعرے، تھیٹر، کارنوال اور سرکس کے دلکش نظارے بھی اب دیکھنے کو نہیں ملتے، افسوس فنونِ لطیفہ سے جڑی یہ گداز رسمیں اب ہماری حقیقی زندگی کی رسائی سے کافی دور نکل گئیں۔
ماضی میں سرکاری طور پہ ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی خاطر گورنمنٹ پشاور میں اباسین آرٹ کونسل، گندھارا ہندکو بورڈ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں دامان آرٹ کونسل سمیت درجنوں ادبی انجمنوں کی سرپرستی کرتی تھی لیکن وقت کی بے رحم لہروں نے ان صحت مند سماجی عوامل اورادبی و ثقافتی روایات کو دگرگوں کر دیا۔ جب سرکار نے ان سرگرمیوں کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھایا تو افلاس زدہ معاشرہ اپنی دلآویز روایات کو بھولتا چلا گیا۔ اب ہم صرف فیس بک، ٹویٹر اور انسٹاگرام کے سحر میں مبتلا ہو کے گھروں کے تنگ کمروں میں بیٹھ کر اپنے دماغوں کو بنجر بنانے کی مشق ستم کیش کو آزماتے ہیں۔ زندگی کی توانائی سے سرشار وہ عوامل جو ہماری فطرت کو خوشگواراحساس سے مزین رکھتے تھے‘ دیکھتے ہی دیکھتے ناپید ہو گئے۔ ہرچند کہ ہمارے عہد میں ادب اور تاریخ کے معاشرے پر نمایاں اثرات کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی؛ تاہم افلاطون کے بعد ادب اور معاشرے کے درمیان تعلقات پر یورپی مصنفین نے جو بے مثال تحقیق کی تھی‘ اُسی کی کوکھ سے پچھلی چند صدیوں میں نشاۃ ثانیہ یا اصلاح کی تحریکوں نے جنم لے کر مغربی معاشروں کے ارتقا کو آگے بڑھایا۔ شیکسپیئر کے ڈرامے ہوں‘ والٹیئر کی فلسفیانہ نظمیں اور افسانے ہوں‘ بیتھون اور وانگنر کے پُرسوزنغمات ہوں‘ سرفلپ سڈنی کی مسجع تحریریں ہوں یا جان کیٹس کی حزن و ملال سے آراستہ شاعری‘ سب کے موضوعات سماجی مسائل اور انسانی دکھوں کے گرد گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔
تاریخی اور معاشرتی تنازعات سے لبریز برصغیر میں بھی ادبی شعور نے ہی ہمیں باہم جوڑا ہوا تھا لیکن عالمی سیاست کے تقاضے، انتہا پسندی اور نچلی سطح تک اترے ہوئے تشدد کے رجحانات ہمارے ادب کو فنی خصوصیات سے جداکرکے ادنیٰ خواہشات کے محور تک لے آئے، جو ہمارے عہد کی سماجی، سیاسی اور ثقافتی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ کئی ممتاز سکالر اب بھی تہذیب وثقافت اور سیاست کے مابین فطری تعلق کی توضیح میں ادب کو باہمی ابلاغ کا حقیقی آلہ اوراصلاح کا ایجنٹ تسلیم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کہتے ہیں: ادب معاشرے کی روح کا ترجمان ہوتا ہے، اگر کسی معاشرے میں ادب پیدا نہیں ہو رہا یا عام آدمی ادب کو بے معنی سرگرمی سمجھتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ معاشرہ اندر سے بیمارہے۔ اگرچہ اس سب کے باوجود‘ اب بھی ادیبوں نے کسی نہ کسی طور معاشرے میں پیدا ہونے والے تنازعات اور بحرانوں کی عکاسی جاری رکھی ہوئی ہے۔ بلاشبہ ہمارا مقصد بھی سماجی مسائل اور سیاسی ارتقا کی طرف عصری ادیبوں کی توجہ دوبارہ مبذول کرانے کے سوا کچھ نہیں تاکہ تیزی سے دم توڑتے سماجی عدل اور فطری صداقتوں کے احساسات کو بچانے کیلئے فاضل ناقدین، ذہنی بددیانتی، مالی بدعنوانی، جبر، نسلی و لسانی تعصبات اور دیگر سماجی برائیوں کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔ بہرحال اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سیاسی و سماجی ارتقا کی منزل حاصل کرنے کے لیے متحرک ادب کو ناگزیر عنصر مانا گیا جو نہ صرف مسائل کے مآخذ کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ قارئین کو سماجی ترقی کے دھارے کو مثبت انداز میں بدلنے کا احساس بھی دلاتا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق‘ ادب کا مطالعہ بھی دراصل اُس معاشرے کا مطالعہ ہے جو اسے تخلیق کرتا ہے، اسی لئے ہر عہد میں ادب اور سماج کے مابین فطری رشتہ موجود رہے گا۔
شاعری کے فلسفیانہ استرداد سے قطع نظر ''جمہوریہ‘‘ میںافلاطون کا مشاہدہ یہی تھا کہ ادب معاشرے کو متاثر کرتا ہے، افلاطون نے خود ہومر کے پروازِتخیل اورحسنِ بیاں سے استفادہ کیا۔ اگرچہ ادب کا موضوع وسیع بلکہ لامحدود ہے لیکن ادیب اکثر مثالی زندگی اور فنکار حقیقی دنیا کے حالات کی عکاسی کرتے ہیں، جیسے حکایات، افسانے، ڈرامے، نظم میں تاریخی واقعات اور وہ تمام معاشرتی وظائف‘ جو زیادہ خشک تھے‘ شاعری کی بدولت دلچسپ بنے۔ سرفلپ سڈنی نے کہا تھا ''شاعری وہ پہلی دایہ تھی جس کے دودھ نے انسان کو رفتہ رفتہ دقیق چیزوں کو ہضم کرنے کا اہل بنایا، اگر فلسفی اور مؤرخ شاعری سے پروانۂ راہداری نہ لیتے تو وہ قبولیتِ عام کے دروازے میں داخل نہیں ہو سکتے تھے‘‘۔ بلاشبہ حقیقی دنیا میں ادب اور سماج کے قریبی رشتے نے ہمیں بہت کچھ دیا۔ انیسویں صدی کی ادبی روایات کے سائے میں پروان چڑھنے والا ہندوستانی معاشرہ ہمارے لیے شاید اسی لیے پُرکشش تھا کہ اس میں میرتقی میرؔ کی مغموم شاعری، امیرؔ مینائی کی زندہ دلی، غالبؔ کی دشوار پسندی، خواجہ میردردؔ، استاد ذوقؔ اور داغؔ دہلوی کی غنائی غزلیں اور اقبالؒ کے الہامی کلام کی سحرانگیز فکر نے ہمارے روحانی تزکیے کے علاوہ ہمیں بلند تخیلات اورحسن و عشق کے مبہوت کن ابلاغ کی گداز صورتیں دکھائیں۔ علامہ اقبالؒ نے بھی شیلر کی طرح شاعری کو انسان کی مدد کیلئے پکارا۔ جس زمانے میں انسان غلامی اور حد سے زیادہ انتشار میں گرفتار تھا‘ اقبالؒ نے شاعری کی زبردست قوت سے متضاد اصولوں کے مابین جھگڑے طے کرائے۔ شاعری میں ہمیں روزمرہ زندگی کی سطح پر ابھرنے والے قابلِ فہم کرداروں کے خیالات اور احساسات کی تدوین ملی۔
انسان کے حقیقی تجربات کی تفہیم اور زندگی کی جزئیات کا ادراک ہمیں ان نقادوں کی تحریروں میں ملا جنہوں نے تاریخ کی تعریف ''انسانیت کی ترقی کے عمل‘‘ کے طور پر کی‘ یعنی جب انسان اپنے ماحول پہ غلبہ پا لیتا ہے؛ تاہم دوسرے الفاظ میں یہ ماضی میں رونما ہونے والے اُن واقعات کا مطالعہ بھی ہے جنہیں حال یا ماضی میں‘ کسی نہ کسی لحاظ سے اہم سمجھا گیا۔ ایک شاعر ہی اس قدر فصیح و بلیغ پیرائے میں معاشرے کے اہم عناصر کی توضیح کرتا ہے تاکہ لوگ مشترکہ ثقافتی، تاریخی اورسماجی و سیاسی تجربات سے استفادہ کر سکیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ادب معاشرے کی نمائندگی کرتا ہے جب کہ کچھ اس نظریے کے حامی ہیں کہ ادب انسان کو جمالیاتی فضیلت کے حصول پر توجہ مرتکز رکھنے کی ترغیب دیتا ہے؛ تاہم سچ یہی ہے کہ ادب کی کوئی صورت بھی سماجیات اور تاریخی شعور کے بغیر وجود نہیں رکھتی۔ اس لیے ہر ادبی مواد کی جمالیاتی حساسیت کا ایک تاریخی پس منظر ہوتا ہے‘ جیسے وہ ماحول جس میں شاعر جنم لیتا ہے‘ اُسے ہم شاعر کی زندگی کے تجربے سے جدا نہیں کر سکتے۔ ادب تاریخ سے ایک پائیدار رشتہ رکھتا ہے لیکن معاشرہ کوئی ایسا نقاد نہیں جو ادیب کو اپنا رخ موڑ نے پہ مائل کر سکے۔ اس لیے ہر سماجی سائنسدان ادب اور معاشرے کے مابین ہموار تعلق پر زور دیتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved