گزشتہ ایک آرٹیکل میں چین کے لداخ میں بھارت کے ساتھ تنازع اور تائیوان کے حوالے سے اس کے موقف کا سرسری سا ذکر ہوا تھا چونکہ اس کالم میں چین کی فضائی قوت کی بات ہورہی تھی‘ تنازعات پر لکھنے کی جگہ نہیں تھی‘ اس لیے آج کے کالم میں ہم اس پر تفصیل سے بات کریں گے۔ جس وقت بھارت نے کشمیرکی جداگانہ ریاستی حیثیت تبدیل کی تھی‘ اس وقت لداخ کے حوالے سے بھی اس نے تقسیم کی منظوری دی تھی جس پر چین نے سخت تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ لداخ دنیا کے بلند ترین سطح مرتفع مقامات میں سے ایک ہے اور یہ سطح سمندر سے 3000میٹر بلند ہے۔ اس خطے کی بہت اہمیت ہے کیونکہ یہاں بہت سے اہم پہاڑی سلسلے ہیں، اہم روٹس کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے‘ اس کے علاوہ یہ سرزمین کئی دریائوں کی مآخذ بھی ہے۔ اس علاقے پر تین ممالک کے درمیان تنازع ہے جن میں پاکستان‘ بھارت اور چین شامل ہیں۔ جس وقت بھارت نے لداخ کی سیاسی حیثیت تبدیل کرتے ہوئے اسے بھارت کی یونین ٹیریٹری قرار دیا‘ اس وقت سے ہی خطے میں چین اور بھارت کی فوجیں آمنے سامنے آ گئیں۔ گزشتہ سال وادیٔ گلوان میں جھڑپیں ہوئیں اور ان میں 20 بھارتی فوجی مارے گئے۔ معتدد کو چین نے حراست میں لے لیا۔ اس حوالے سے کئی وڈیوز بھی جاری کی گئیں۔ چین کا حملہ اتنا شدید تھا کہ بھارتی فوجی دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ واضح رہے کہ ایک معاہدے کے تحت اس سرحد پر دونوں اطراف کے فوجیوں کے پاس بندوق سمیت کوئی ہتھیار نہیں ہوتے۔ بعد ازاں وادیٔ گلوان کے حوالے سے جتنے بھی مذاکرات ہوئے‘ سبھی ناکام ہوئے اور چین نے پوری قوت کے ساتھ بھارتی فورسز کو پیچھے دھکیل دیا۔ لداخ میں زیادہ آبادی بدھ مت کے پیروکاروں اور مسلمانوں کی ہے۔ آر ایس ایس کا یہ مطالبہ تھا کہ جموں و کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے تاکہ کشمیری ہندو پنڈتوں کو الگ طور پر آباد کیا جا سکے۔ یہ علاقہ چونکہ عالمی سطح پر بھی متنازع گردانا جاتا ہے‘ اس لیے بھارت کو ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں تھا؛ تاہم بھارت اپنی من مانی کر کے رہا جس کے بعد چین اور بھارت کے فوجیوں کی جھڑپیں شروع ہوگئیں۔
وادیٔ گلوان ایک مقامی شخص غلام رسول گلوان کے نام سے منسوب ہے جس نے1899ء میں چند یورپی سیاحوں کے ہمراہ یہ جگہ دریافت کی تھی۔ یہ علاقہ بہت بار جنگ و جدل کا نشانہ بنا کیونکہ اس کی جغرافیائی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ گزشتہ سال چین اور بھارت‘ دونوں نے ایک دوسرے پر ایل اے سی (لائن آف ایکچوئل کنٹرول) پر دراندازی کا الزام لگایا تھا۔ ابھی تک 44 کلومیٹر طویل سرحد کی حد بندی نہیں کی گئی اور دونوں ممالک اس علاقے پر اپنا حق جتاتے ہیں؛ تاہم گلوان وادی کی جھڑپوں میں چینی فوج نے جم کر بھارتی فوج کی پٹائی کی۔ اگر 1959ء کے مطابق سرحدی حد بندی ہوئی تو اس علاقے کا بڑا حصہ چین کے پاس چلا جائے گا۔
چین کیلئے یہ علاقہ اہم کیوں ہے؟ اس لیے کہ لداخ چین کے صوبہ سنکیانگ کو مغربی تبت اور گلگت بلتستان کے ساتھ جوڑتا ہے اس لیے وہ لداخ میں کوئی سیاسی یا جغرافیائی تبدیلی برداشت نہیں کر سکتا۔ چین مکمل سرحد بندی کے حق میں ہے اور بھارت ایل اے سی جیسی عارضی حد بندی کا حامی ہے۔ چین کے جارحانہ رویے کی وجہ سے کچھ علاقوں سے بھارتی فوج کو پیچھے ہٹنا پڑا اور اب وہاں پر چینی فوج کا پہرا ہے۔ اس سارے تنازع میں مقامی لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد نکولا کے علاقے میں بھی بھارتی اور چینی فوجیوں کے مابین جھڑپیں ہوئی‘ یہ علاقہ گلوان وادی سے لگ بھگ دو ہزار کلومیٹر دور‘ بھوٹان اور نیپال کی سرحد کے قریب ہے۔ اس کے ساتھ ڈیموچک، دولت بیگ اولڈی اور پینگونگ کے علاقوں میں بھی دونوں ممالک کی فوجوں میں کشیدگی بڑھ گئی۔ چین کا دعویٰ ہے کہ اس نے مشرقی لداخ کے کئی کلومیٹر علاقے پر قبضہ کرلیا ہے اور پوری وادیٔ گلوان اس کے پاس ہے۔ یہاں چین نے نیا انفراسٹرکچر بھی تعمیر کیا ہے۔ چین بھارتی سرحد کے قریب بہت سی نئی تعمیرات کررہا ہے۔ دربک اور دولت بیگ کے علاقوں میں سڑک تعمیر کرنے پر بھارت سخت ناخوش ہے کیونکہ چین یہاں سڑک تعمیر کرکے اس کو گلگت‘ بلتستان سے ملا دے گا ‘ یوں یہ راہداری گوادر کے ساتھ منسلک کردی جائے گی۔ چین اس علاقے کو کبھی نہیں چھوڑے گا کیونکہ اس طرح بھارت درہ قراقرم اور اقصائے چن پر پیش قدمی نہیں کرسکے گا۔ اب چین دریائے سندھ اور شیوک کی طرف بڑھے گا۔ بھارت نے جب اس جگہ پر سڑک کی تعمیر شروع کی تھی اسی وقت چین نے خطرہ بھانپ لیا تھا‘ پھر جب اس نے لداخ‘ اقصائے چن اور گلگت بلتستان کو اپنا حصہ قرار دیا تو چین نے فوجی کارروائی شروع کردی۔ پاکستان اب تک اس سارے معاملے پر خاموش رہا ہے حالانکہ یہ علاقے اس کیلئے بھی متنازع ہیں، شاید پاکستان چین کے ذریعے بھارت کو سبق سکھانا چاہتا ہے کہ اٹوٹ انگ کہہ کہہ کر وہ متنازع علاقوں پر اپنا حق نہیں جماسکتا۔
اب اگر بات کریں چین اور تائیوان کے تنازع کی‘ تو یہ کافی پرانا تنازع ہے۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو سولہویں صدی عیسوی میں تائیوان چینی قوم کے زیرِ تسلط تھا۔ اٹھارہویں صدی میں یہ جاپان کے زیرِ قبضہ چلاگیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد چین کا دوبارہ تائیوان پر تسلط قائم ہوگیا۔ جب چین میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو کچھ باغی تائیوان کی طرف چلے گئے اور وہاں کی مقامی حکومت کا حصہ بن گئے لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی۔ چین نے ایک ملک‘ دو نظام کے نام سے تائیوان کو مذاکرات کی پیشکش کی‘ جیسے ہانگ کانگ میں ہوا؛ تاہم تائیوان اس پر راضی نہیں ہوا۔ تائیوان خود کو آزاد ملک کہتا ہے جبکہ چین اسے اپنا ایک صوبہ قراردیتا ہے۔ اب تائیوان کے میڈیا نے خبر دی ہے کہ چین کے 27 طیارے اس کی حدود میں داخل ہوئے۔28 نومبر کو پی ایل اے کے 27جہاز تائیوان کی فضائی حدود میں داخل ہوئے‘ جن میں جے 10، جے 11، جے 16 سمیت وائے 20 ری فیولنگ جہاز بھی تھے۔ اس وقت چین اورتائیوان کے مابین سخت کشیدگی پائی جاتی ہے اور چینی صدر شی جن پنگ نے واضح کیا ہے کہ تائیوان چین کا حصہ بن کررہے گا۔ اسی لیے اب دونوں ملکوں کی سرحدوں پر حالات کشیدہ ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے چین کے جہاز مسلسل تائیوان کی حدود میں پرواز کر رہے ہیں جس سے تائیوان کے عوام بھی خوفزدہ نظر آتے ہیں۔
تائیوان کا رقبہ 36 ہزار مربع کلومیٹر ہے اس کی آبادی 2 کروڑ 26لاکھ کے قریب ہے‘ یہ ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتا ہے‘ اس کی تین لاکھ کی فوج ہے؛ تاہم اس کو تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد بہت کم ہے۔ اب جب چین جنگ کی تیاری کررہا ہے تو تائیوان بھی اپنے دفاع کیلئے تیار ہے؛ تاہم چین کے مقابلے میں وہ زیادہ دیر تک کھڑا نہیں ہو سکتا۔ یہ بات عیاں ہے کہ تائیوان چین کے مقابلے میں بہت چھوٹا ملک ہے اور چین آسانی سے اس کو ضم کرجائے گا۔ پورے خطے میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور دنیا اس معاملے کو لے کر تشویش میں مبتلا ہے۔ چینی حکومت کی یہ خواہش ہے کہ چین کی آزادی کے سو سال مکمل ہونے سے قبل وہ ان تمام علاقوں کو واپس حاصل کرلے جو اس کے علیحدہ ہو گئے تھے۔ اسی لیے دفاعی ماہرین یہ پیش گوئی کررہے ہیں کہ چین مستقبل قریب میں تائیوان پر حملہ کرسکتا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق پیپلز لبریشن آرمی اور ایئرفورس نے جنگ کی منصوبہ بندی بھی شروع کردی ہے۔
چینی صدر نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ چین علیحدگی پسندوں سے مذاکرات نہیں کرتا؛ تاہم چین کو سفارتی دبائو کا سامنا کرنا پڑے گا اور دنیا کا جھکائو تائیوان کی طرف ہوگا۔ امریکا کے مالی مفادات تائیوان کے ساتھ وابستہ ہیں اس لیے وہ کھلم کھلا تائیوان کی حمایت کررہا ہے؛ تاہم یہ واضح ہے کہ اگر جنگ شروع ہوئی تو تائیوان چند ہی دنوں میں جنگ ہار جائے گا اور چین فضائی یا زمینی حملے ہی نہیں کرے گا بلکہ مالیاتی‘ معاشی اور سائبر سپیس میں بھی تائیوان کو ٹف ٹائم دے گا۔