تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     08-12-2021

انسانیت کا جنازہ

جس طرح تیز ہوا میں دیے کی لو لرزنے لگتی ہے اسی طرح پورے جسم پر کپکپی سی طاری ہے۔ پانچ دن بیت چکے‘ ندامت ہے کہ گٹھنے کا نام نہیں لے رہی۔ اضطراب ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ دل قفس کی میخیں توڑ چکا اور دماغ اتھاہ اداسی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔ ایک طرف آنسوؤں کی جھڑی لگی ہے اور دوسری جانب سسکیوں نے سانسوں کی ترتیب الٹ دی ہے۔ کہنے کو بہت کچھ ہے مگر قلم اور کاغذ کا تعلق بار بار ٹوٹ رہا ہے۔سیالکوٹ میں صرف سری لنکا کے شہری کی موت نہیں ہوئی‘ انسانیت کا جنازہ نکلا ہے۔ کاش! قرآن پاک میں مذکور تعلیمات کسی کے پیشِ نظر ہوتیں۔ بشیر بدر یاد آتے ہیں ؎
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
جیسے ایم بی بی ایس کرنا آسان ہے مگر دل میں ہر پَل مسیحائی کا درد رکھنا مشکل امر ہے‘ ایل ایل بی کرنا سہل ہے مگر قانون کی حکمرانی کے لیے ہمیشہ کھڑے رہنا نہایت کٹھن ہے‘ اسی طرح انسان ہونے کا ٹھپہ تو پیدائش کے ساتھ ہی ثبت ہو جاتا ہے مگر انسانیت کب ہر کسی کے حصے میں آتی ہے۔ آپ ساری دنیا پر نگاہ ڈالیں‘ انسانی شعور آسمانوں تک بلند اور پورے کرۂ ارض پر محیط ملے گا۔ مجھے نہیں معلوم ہم اتنے تنگ نظر کیوں ہو گئے ہیں؟ ہماری سوچ اتنی محدود اور ہمارے رویوں میں ایسی شدت کہاں سے آ گئی ہے؟ ہم خود ہی مدعی‘ خود ہی منصب اور خود ہی جلاد کیسے بن گئے؟ قانون اور ریاست کا احترام ہمارے دل سے کیونکر غائب ہوگیا؟ رسول پاکﷺ کی تعلیمات ہماری عملی زندگی کا حصہ کیوں نہیں بن رہیں؟ اسلام میں انسانی جان کو جو مرتبہ حاصل ہے اس کا سبق ہمیں کیوں بھول گیا ہے؟ رسول کریمﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا: لوگو! تمہارے خون، مال اور عزتیں ایک دوسرے پر قطعاً حرام کر دی گئی ہیں، ہمیشہ کے لیے ان چیزوں کی حرمت ایسی ہے جیسے آج تمہارے اس دن (یومِ عرفہ) کی اور اس مہینے (ذوالحج) کی اور اس شہر (مکہ مکرمہ) کی۔ (صحیح بخاری)۔ اس ضمن میں قرآن پاک کی آیت کا حکم ملاحظہ کریں کہ دو ہی صورتیں ہیں جن میں کسی شخص کی جان لی جا سکتی ہے۔ ''جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے (قصاص) یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی وجہ سے قتل کیا، اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا‘‘۔ (سورۃ المائدہ: 32) سب سے اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں بھی قرآن پاک نے یہ اختیار ریاست کو دیا ہے‘ فردِ واحد کو نہیں۔ کوئی شخص بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کا استحقاق نہیں رکھتا۔ اگر کوئی فرد یہ طرزِ عمل اپناتا ہے تو مدعی اور ملزم کا فرق ختم کر دیتا ہے۔ پھر قانون کی چھری دونوں پر برابر چلتی ہے۔
سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ وہ اتنا دردناک ہے کہ اُسے الفاظ میں بیان نہیں کیا سکتا۔ اس واقعے نے بطور قوم ہمارا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ انسانیت کی اتنی تذلیل کرتے ہوئے خدا کا خوف بھی نہیں آیا۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ شخص ہمارے ملک میں مہمان تھا اور مہمان کے کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ مہذب معاشروں میں مہمانو ں پر الزام لگا کر انہیں قتل نہیں کیا جاتا۔ پولیس رپورٹ میں یہ حقائق سامنے آ چکے ہیں کہ سری لنکن شہری کو ذاتی عناد اور رنجش کے باعث نشانہ بنایا گیا۔ وہ محنتی اور دیانت دار شخص تھا۔ سیالکوٹ کے شہری اس کے حق میں گواہیاں دے رہے ہیں۔ ویسے بھی جو الزام لگایا گیا‘ وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ کوئی بھی ذی شعور انسان کسی دوسرے ملک میں بیٹھ کر ایسی حرکت نہیں کر سکتا۔ نوے لاکھ سے زائد پاکستانی دوسرے ممالک میں بستے ہیں‘ کیا ان میں سے ایک بھی ایسا شخص ہے جو وہاں بیٹھ کر وہاں کے عقائد کے خلاف بات کرے؟ کیا کوئی لندن میں رہ کر عیسائیت کے خلاف بات کر سکتا ہے؟ کوئی جرمنی میں رہتا ہو اور ہو لو کاسٹ کے خلاف بیان دے؟ ہندوستان میں رہ کر بتوں کی پوجا کو تنقید کا نشانہ بنائے؟ یقینا یہ ناممکن سی بات ہے۔ پاکستانی تو دبئی جا کر ٹریفک سگنل بھی نہیں توڑتے کجا کہ وہاں کے لوگوں یا ریاست کی خلاف کوئی بات کریں۔ آپ تمام مذاہب کا مطالعہ کر لیں‘ دنیا کا کوئی مذہب کسی دوسرے مذہب کی تضحیک کی اجازت دیتا ہے نہ مقدس ہستیوں کے بارے میں غلط کلمات کہنے کی۔ ہم نے کیسے سوچ لیا کہ ایک سری لنکن شہری‘ جو مزاجاً قدرے دھیمے ہوتے ہیں‘ جانتے بوجھتے اتنی بڑی غلطی کا ارتکاب کر سکتا ہے؟ ایک لمحے کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ ایسا کچھ ہوا تھا‘ تو بھی کیا گارنٹی ہے کہ یہ سب لاعلمی کا نتیجہ نہیں تھا؟ عین ممکن ہے کہ اسے عربی آتی ہی نہ ہو؟ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے ہمارے مذہب کے بارے میں زیادہ جانکاری نہ ہو؟ عقل یہ الزام ماننے کو تیار نہیں کہ کوئی غیر ملکی اتنے حساس اور نازک معاملے پر ایسی بداحتیاطی کرے گا۔
گزرے پندرہ سالوں سے دہشت گرد ہماری جانوں سے کھیل رہے تھے اور قانون کی دھجیاں اڑا رہے تھے، اب ہم خود اسی ڈگر پر چل پڑے ہیں۔ کیوں؟ کیا ہمیں ادراک نہیں کہ جب کوئی ناحق جان سے جاتا ہے تو اس کا درد کیا ہوتا ہے؟ اس کے بیوی‘ بچوں اور خاندان پر کیا گزرتی ہے؟ کیا ہمارے اسّی ہزار سے زائد معصوم شہری دہشت گردی کا نشانہ نہیں بنے؟ نجانے ہم کیوں بھول گئے کہ جب کوئی اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے گھر سے نکلتا ہے اور واپسی پر ا س کی لاش آتی ہے تو کیا کہرام برپا ہوتا ہے؟ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمیں ادراک ہی نہیں کہ ایسے گھنائونے واقعات کا ملکی وقار پر کیا اثر پڑتا ہے، دوسرے ممالک کے لوگ ہمیں کس نظر سے دیکھتے ہیں اور اوور سیز پاکستانیوں کے ساتھ بدلے میں کیا برتاؤ کیا جاتا ہے؟ یہ واقعہ جتنا افسوس ناک ہے‘ اس کے اثرات بھی اتنے ہی خوفناک ہو سکتے ہیں۔ خاکم بدہن! پاکستان میں سیاحت کی انڈسٹری کو نقصان پہنچ سکتا ہے، برآمدات پر منفی اثر پڑ سکتا ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہو سکتی ہے اور سب سے بڑھ ہمارا امیج متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ کیا معاشی طور پر کمزور ملک اتنے بڑے نقصان کا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا گزری دو دہائیوں کا سبق یہ ہے کہ ہم خود قانون شکنی شروع کر دیں؟ اگر خدانخواستہ سری لنکن شہری نے ایسی کوئی حرکت کی بھی تھی تو ہمارے ملک میں کوئی قانون نہیں؟ اس کے خلاف مقدمہ درج کروایا جا سکتا تھا، اسے ملک بدر کیا جا سکتا تھا اور اس سے بھی پہلے‘ اسے اسلام کا پیغام دیا جا سکتا تھا، رسالت مآبﷺ کی تعلیمات کے حوالے سے آگاہی دی جا سکتی تھی۔ درجنوں ایسے راستے تھے جن پر چل کر اس کی اصلاح ممکن تھی‘ مگر ہم نے وہ کام کیا جس کی اجازت نہ تو ہمارا دین دیتا ہے اور نہ ہی پاکستانی قانون۔
ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ غصے پر قابو نہ ہونا بھی بیماری کی ایک قسم ہے۔ یہ بیماری دہائیوں سے ہمارے اندر کو کھوکھلا کر رہی ہے اور ہم اس کے علاج پر توجہ بھی نہیں دے رہے، کیوں؟ ہمارے سیاسی، غیر سیاسی اور مذہبی اکابرین کو مل کر اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا کہ ہم بطور قوم اس نہج پر کیسے پہنچے؟ ہم سے کس موڑ پر کون سی غلطیاں ہوئیں اور ہم ان غلطیوں کا تدارک کیسے کر سکتے ہیں؟ اب دنیا بھرکا مزاج بدل چکا ہے‘ ہمیں دنیا کے مطابق خود کو ڈھالنا ہے، ورنہ دنیا ہم سے بہت آگے نکل جائے گی اور ہم رینگتے رہ جائیں گے۔ ہمیں مل کر نازک معاملات پر مکالمے کو فروغ دینا ہو گا اور نئے سرے سے معاشرے کی تربیت کرنا ہو گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved