چین بھی بڑا ''جُلمی‘‘ ہے۔ امریکا اور یورپ نے طے کرلیا تھا کہ اب دو‘ تین صدیوں تک کسی کو ابھرنے نہیں دینا۔ دونوں نے کم و بیش تین صدیوں کی محنت شاقہ کے بعد عالمی سیاست و معیشت پر غلبہ پایا ہے۔ یہ غلبہ وہ آسانی سے ختم ہونے دیں گے‘ یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ سب کچھ اچھا چل رہا تھاکہ چین خم ٹھونک کر میدان میں آنکلا۔ اُس کا وجود امریکا اور یورپ‘ دونوں کے لیے انتہائی پریشان کن ہے کیونکہ چین محض ایک ملک نہیں بلکہ تیزی سے پنپتی ہوئی بڑی مارکیٹ ہے۔
چین نے کم و بیش چار عشروں کی بھرپور محنت کے نتیجے میں اب معاشی میدان میں اپنی برتری منوالی ہے۔ بڑے پیمانے کی پیداوار کے معاملے میں امریکا اور یورپ اب چین سے مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ امریکا کے پاس نصف صدی سے بھی زائد مدت سے باقی دنیا کو قابو میں رکھنے کا صرف ایک ہتھکنڈا رہ گیا ہے‘ کہ ممالک اور خطوں کو باہم متصادم رکھا جائے۔ کئی خطوں کو امریکا نے یورپ کی مدد سے پامال کیا۔ افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کی مثال سب سے نمایاں ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھی امریکا اور یورپ اپنی مرضی کا کھیل کھیلتے آئے ہیں اور ایک خاص حد تک اب بھی کھیل رہے ہیں۔ چین اس خطے میں ہے بھی اور نہیں بھی۔ روس وسطی ایشیا کو اپنے حلقۂ اثر میں لیتے ہوئے پاکستان تک آسان رسائی چاہتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ افغانستان میں بدلے ہوئے حالات کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے اُس نے وہاں طالبان کو قبول بھی کیا اور بعض معاملات میں اُن کی مدد بھی کر رہا ہے۔ یہی حال چین کا ہے۔ چین اور روس کی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ امریکا اور یورپ افغانستان کو کسی بھی حال میں یونہی نہیں چھوڑ دیں گے بلکہ اُس کے حالات بگاڑ کر پورے خطے کو شدید عدم استحکام سے دوچار رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے رہیں گے۔ امریکا اور یورپ نے افغانستان کی معاشی حالت کے انتہائی کمزور ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی بات منوانے کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے۔ پاکستان معاشی طور پر کمزور ہونے کے باعث امریکا اور یورپ کے سامنے بند باندھنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ چین اور روس مل کر خطے کو اپنے زیرِ اثر رکھنے کی کوشش میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔
عالمی سیاسی، سفارتی اور مالیاتی اداروں پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کی خاطر امریکا اور یورپ بعض معاملات میں اشتراکِ عمل کے ذریعے اپنے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ اُنہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ چین کی طاقت بڑھتی رہی تو اُس کے گرد جمع ہونے والے ممالک کی تعداد بڑھتی جائے گی۔ چین کے حوالے سے امریکا اور یورپ کی تشویش کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ دونوں کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ اگر چین کے آگے بند باندھنے میں دیر کی گئی تو بہت دیر ہوجائے گی۔ چین نے معاشی معاملات میں مضبوط ہونے کے بعد اب مالیاتی، سرمایہ کارانہ اور سفارتی و عسکری امور میں بھی اپنی بات منوانے پر متوجہ ہونا شروع کردیا ہے۔ یورپ جانتا ہے کہ چین کی طرف سے سب سے بڑا خطرہ اُس کے لیے ہے۔ امریکا نے اپنے لیے بہت سے انتظامات کر رکھے ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں میں اُس کی پوزیشن مستحکم ہے۔ بہت سے معاملات میں یورپ کو سمجھوتے کے مرحلے سے گزرنا پڑ رہا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ نے اپنے دفاع کی ذمہ داری امریکا کو سونپ دی تھی۔ یہ معاملہ کچھ دو اور کچھ لو کے اصول کی بنیاد پر تھا۔ امریکا جانتا تھا کہ یورپ اپنے دفاع کی ذمہ داری بخوبی نبھا نہیں سکتا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ دو عالمگیر جنگوں کے نتائج بھگتنے کی صورت میں یورپ کمزور تو ہوا ہے مگر دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتا ہے کیونکہ جدید فطری علوم و فنون میں اُس کی بنیاد بہت مضبوط تھی۔ جاپان کا بھی یہی معاملہ تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اُس نے اپنے دفاع کی ذمہ داری امریکا کو سونپ دی تھی اور پھر دونوں ممالک کے درمیان وہ اشتراکِ عمل شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔
یورپ جانتا ہے کہ وہ باقی دنیا سے مقابلہ کرنے کے معاملے میں امریکا کا دست نگر ہے۔ امریکا نے یورپ کی سلامتی یقینی بنانے کی بھرپور قیمت وصول کی ہے۔ یورپ کی نرم قوت یعنی جدید فطری علوم و فنون میں فقید المثال پیشرفت سے مستفید ہوتے ہوئے اُس نے اپنی پوزیشن اتنی مستحکم کی ہے کہ اُس کا اعتماد اب تک برقرار ہے اور وہ عالمی سیاست و معیشت میں اپنی بالا دستی برقرار رکھنے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ چین کے معاملے میں اُس نے ثابت کیا ہے کہ وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے؛ البتہ اتنی ہمت یورپ میں نہیں پائی جاتی۔ وہ بہت سے معاملات میں خود کو بے حد کمزور محسوس کر رہا ہے۔ یہ احساس بالکل فطری ہے۔ یورپ کو بہت سے معاملات میں انتہائی نوعیت کی پریشانیوں کا سامنا ہے۔ ایک طرف اُس کی آبادی میں معمر افراد بڑھ رہے ہیں اور دوسری طرف شرحِ پیدائش گرتی جارہی ہے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ یورپ کی ترقی کا اچھا خاصا مدار دنیا بھر سے آئے ہوئے انتہائی باصلاحیت افراد کی شبانہ روز محنت پر ہے۔ یورپی معاشروں میں ایشیائی باشندوں کی حیثیت مستحکم تر ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں یورپی قائدین کا پریشان ہونا لازم ہے۔ یہ بھی فطری امر ہے کہ یورپی قائدین چین کا ڈھنگ سے سامنا کرنے کے لیے کچھ کریں۔ یورپی یونین نے اب چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیٹو کے مقابلے پر گلوبل گیٹ وے کے نام سے منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس منصوبے کی باضابطہ سرکاری دستاویز بھی سامنے آچکی ہے۔ اس میں چین کا ذکر نہیں؛ تاہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ بے سبب نہیں۔ اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ پردہ وردہ کیسا‘ سب کچھ بے نقاب ہوکر سامنے آچکا ہے۔
گلوبل گیٹ وے پسماندہ اور ابھرتے ہوئے ممالک کو ذہن نشین رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ چین نے افریقہ، مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے ممالک کو ریڈار پر رکھتے ہوئے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ شروع کیا۔ اس عظیم الشان منصوبے کے تحت جو کچھ کیا جارہا ہے وہ پوری دنیا میں نقل و حمل اور تجارت کے حوالے سے انقلاب برپا کرہا ہے۔ چین کا یہ منصوبہ اب یورپ میں مونٹی نیگرو تک پہنچ گیا ہے۔ چین اپنی بڑی آبادی اور غیر معمولی معاشی قوت کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یورپ اپنے طور پر چین سے نمٹنے میں کامیاب ہوسکے گا یا نہیں۔ اس وقت عالمی معیشت میں چین کی پوزیشن قابلِ رشک نوعیت کی ہے۔ امریکا معیشت کے میدان میں مقابلہ کرنے کے بجائے عسکری محاذ پر خود کو زیادہ توانا رکھتے ہوئے چین کو دبوچنے کے درپے ہے۔ امریکی پالیسی میکرز اب بھی بہت سے خطوں کو عدم استحکام سے دوچار رکھنے پر کمربستہ ہیں۔ چین کسی بھی خطے کو کمزور کرنے کے حوالے سے عسکری محاذ پر کچھ نہیں کر رہا۔ ابھی کچھ مدت تک وہ ایسا کرنے کے موڈ میں بھی نہیں۔ ایسے میں چین کا سامنا کرنے کے لیے صرف معاشی میدان رہ جاتا ہے۔ چین نے پسماندہ خطوں کا بنیادی ڈھانچا مضبوط بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ محض سڑکیں اور پُل ہی نہیں‘ اُس نے بندر گاہیں اور ہوائی اڈے تک تعمیر کرکے دیے ہیں۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کو اُس نے قرضوں سے نوازا ہے۔ اِس روش پر امریکا اور یورپ شور مچارہے ہیں۔ اُنہوں نے چین پر قرضوں کا جال بچھانے کا الزام عائد کیا ہے۔ یہ الزام بہت حد تک بے بنیاد ہے کیونکہ یہی جال بچھاکر امریکا اور یورپ نے بھی کمزور ممالک اور خطوں کو دبوچ رکھا ہے۔
یورپ کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔ مرکزی قیادت ہے تو سہی مگر زیادہ فعال اور کارگر نہیں۔ چین سے نمٹنا اُس کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے کیونکہ اس مشن میں ناکامی پر امریکا اُس سے مزید فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہوگا۔