پاکستان کی ممکنہ آبادی کوئی بائیس تئیس کروڑ کے قریب ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ اس آبادی میں سے تقریباً 18 کروڑ افراد کا بہترین مشغلہ سیاست، سیاست اور سیاست ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ حکومت کوئی بھی ہو، نظام حکومت کوئی بھی ہو، ملک میں جمہوریت پنپ رہی ہو یا پھر آمریت کے سائے پھیلے ہوں، آپ کو ہم پاکستانیوں کی اکثریت سیاسی موضوعات پر ہی گفتگو کرتی نظر آئے گی۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے پانچ سال پورے کریں گے یا نہیں؟ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پاکستان واپس کب آئیں گے؟ سابق صدر آصف علی زرداری کی نئی سیاسی چال کیا ہو گی؟ صرف یہی نہیں اسٹیبلشمنٹ نے کوئی نیا گھوڑا ڈھونڈ لیا ہے یا پھر ایک پیج کی کہانی ابھی باقی ہے؟ یہ اور ان جیسے کئی سوال آپ کو اپنے ارد گرد، ہر طرف سے سننے کو ملیں گے۔ 'وزیر اعظم عمران خان اگلے پانچ سال بھی وزارت عظمی کے منصب پر فائز رہیں گے یا اس بار اقتدار کا ہما میاں شہباز شریف کے سر پر بیٹھے گا؟‘ جیسے موضوعات آپ کو ہر محفل میں موضوعِ بحث ملیں گے۔ یوں کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ ہمارے عوام سیاسی ہلچل کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ ہر روز کسی نہ کسی نئی خبر اور نئے ایجنڈے کے منتظر رہتے ہیں۔ شاید اسی لیے سیاسی جماعتیں نہ صرف عوام کے جذبات سے کھیلتی ہیں بلکہ ان کو نت نئے دعووں اور نعروں سے بہلانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے اکٹھ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم کی جانب سے بالآخر اسلام آباد کی طرف مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ یہ مارچ دسمبر میں ہو گا نہ جنوری میں اور نہ ہی فروری میں، بلکہ اس مارچ کے لیے پی ڈی ایم نے 23 مارچ کا انتخاب کیا ہے۔ اپوزیشن کی اس 'دوررس پالیسی‘ پر البتہ سیاسی تجزیہ کار بھونچا ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے سٹاک مارکیٹ میں مستقبل کے سودے ہوتے ہیں، یہاں اگرچہ سودا تو کوئی نہیں لیکن لگتا یہی ہے کہ اپوزیشن شاید اپنے موقف کے کسی درست گاہک کی تلاش میں ہے۔ تحریک انصاف کے موجودہ دور میں اپوزیشن کے اس اتحاد یعنی پی ڈی ایم سے اگر کسی نے اب تک کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہیں کیا یا یوں کہہ لیں کہ کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہیں کر پائے تو وہ ہیں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت۔ ان کے ہاتھ ابھی تک کچھ نہیں لگا۔ اسلام آباد کی طرف اپوزیشن کے آئندہ مارچ کیلئے آنے والے سال کے تیسرے مہینے کا انتخاب شاید اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ اس عرصے میں تیل‘ اور تیل کی دھار دیکھ لی جائے۔ یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ مقتدر حلقوں کے موڈ میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں۔ اپوزیشن، بالخصوص مسلم لیگ (ن) شاید یہ چاہتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے مابین جو مبینہ خلیج پیدا ہو گئی ہے ذرا اس کے نتائج بھی دیکھ لیے جائیں۔ دوسری طرف کچھ اہم تقرریوں کے بعد شاید ہوا کا رخ متعین کرنے کے لیے بھی تھوڑا وقت درکار ہوگا۔ شاید اپوزیشن اس انتظار میں بھی ہے کہ الیکشن کمیشن میں زیرغور تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کیس، جو اب اپنے اختتامی مراحل میں داخل ہورہا ہے، کا نتیجہ بھی دیکھ لیا جائے۔
اپوزیشن کی سٹریٹیجی کچھ بھی ہو، سیاسی تجزیہ کار اور جغادری اپنی اپنی کہانیاں بناتے اور سناتے ہوئے اس کے کچھ بھی نتائج اخذ کریں‘ بادی النظر میں سیاسی بساط پر اپوزیشن کی گرفت مضبوط نظر نہیں آتی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید اپوزیشن کسی کے انتظار میں ہے، اس کی نظریں کسی مسیحا کی راہ تک رہی ہیں۔ پی ڈی ایم میں سے پیپلز پارٹی کے انخلا کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں مین پلیئر کا کردار تو ضرور ادا کیا ہے لیکن عملی طور پر وہ بھی کوئی واضح موقف اپنانے میں ناکام نظر آئی۔ پی ڈی ایم کے قیام کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اسمبلیوں سے استعفا دینے اور اسمبلیوں سے باہر ملک گیر احتجاج کرنے کے حق میں تھے۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد محترم آصف علی زرداری نہ صرف خود اسمبلیوں سے استعفا دینے کے خلاف تھے بلکہ انہوں نے پی ڈی ایم میں شامل دوسری جماعتوں کو بھی اپنے اس موقف پر قائل کیا اور پھر پی ڈی ایم کی جانب سے یہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے اپوزیشن نہ صرف اسمبلیوں میں بلکہ اسمبلیوں سے باہر بھی اپنا احتجاج جاری رکھے گی، ملک کے تمام بڑے شہروں میں جلسے منعقد کیے جائیں گے اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں مختلف شہروں میں ان جلسوں کی میزبانی کے فرائض انجام دیں گی۔
حکومتی کیمپوں کی طرف سے پی ڈی ایم کے آئندہ مارچ میں مارچ کرنے کے اعلان کو اپوزیشن کی ایک بڑھک قرار دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ''مولانا جب آئے تھے تحریک کا وقت اس وقت تھا‘ اب نئے الیکشن کا دور آ گیا ہے، لانگ مارچ پر تین مہینے بعد بات کروں گا، یہ پہلی سیاسی پارٹیاں ہیں جو چار مہینے پہلے کمپنی کی مشہوری کررہی ہیں۔23 مارچ کو ویسے ہی سارے راستے بند ہوں گے‘ پھر اپوزیشن بہانہ کرے گی کہ حکومت نے راستے بند کر دیے ہیں۔23 مارچ کے بجائے 30 مارچ کو آئیں، قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کریں، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں‘‘۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہبازگل کا کہنا ہے کہ 'چوں چوں کے مربے پی ڈی ایم کا کوئی مستقبل نہیں تاریخ پر تاریخ دیتے درباریوں کا لانگ مارچ محض ایک لطیفہ ہے، چار ماہ کے بعد کی تاریخ حکومت کے لیے الٹی میٹم نہیں بلکہ کرپٹ الائنس نے اپنے لیے مزید چار ماہ کا وقت مانگا ہے، لانگ مارچ اور دھرنے کے لیے عمران خان جیسا جگر اور ٹائیگرز جیسی ہمت ہونی چاہیے‘‘۔
دوسری طرف حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے، ملک کی بد ترین معاشی صورت حال اور روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ ایسے میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کی طرف سے آئندہ مارچ میں اسلام آباد میں مارچ کرنا دراصل ان کی ایک سیاسی حکمت عملی ہے۔ اپوزیشن کے قائدین یہ سوچتے ہیں کہ آنے والے تین سے چار مہینوں میں مہنگائی میں پسے عوام حکومت سے مزید نالاں ہو چکے ہوں گے، اور عالمی اداروں خصوصاً آئی ایم ایف کے مطالبات ماننے کے چکر میں حکومت کو مزید سخت اقدامات کرنا پڑیں گے۔ ایسے میں جب لوہا پوری طرح سے گرم ہو چکا ہو گا تو اپوزیشن کے لیے اپنے اہداف حاصل کرنا آسان ہو جائے گا۔ اپوزیشن قائدین کے خیال میں موجودہ حالات میں ''امپائر‘‘ کے لیے بھی زیادہ دیر تک خاموش تماشائی بنے رہنا شاہد ممکن نہ ہو۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر اپوزیشن کے لیے کئی مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس لانگ مارچ کے لیے اتنی لمبی تاریخ سے یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ اپوزیشن پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کا ماحول بنا کر حکومت کو ہر دم دبائو میں رکھنے کا عزم رکھتی ہے، لیکن مارچ تک کا وقت ملنے کے بعد حکومت یقیناً زیادہ پُراعتماد محسوس کر رہی ہو گی۔