تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     09-12-2021

بڑی بڑی باتیں

کہاں چلے جائیں‘ کس سے منصفی چاہیں‘ کس کے ہاتھو ں پر قوم کے بے گناہوں کا لہو تلاش کریں‘ کس کو موردِ الزام ٹھہرائیں کہ آج ہمارے ملک کا تصور کیا سے کیا بن چکا ہے۔ نعرے ہیں‘ بیانات ہیں‘ جھوٹ ہے‘ منافقت ہے‘ ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں ہیں‘ کرپشن ہے‘ بے ایمانی ہے اور ایسی انتہا پسندی کہ جس کے ہاتھوں سبھی یرغمال بنے دکھائی دیتے ہیں۔ ہربرائی کے لیے دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرائے جانے کا لامتناہی سلسلہ ہے۔ ہرمعاملے کواغیار کی سازش قرار دینے کی روایت نے ایسی جڑیں مضبوط کی ہیں کہ کوئی بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار نہیں۔ خوف اور گھٹن کا یہ عالم ہے کہ کوئی بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتا کہ جانے کب کون کہاں کیا کرڈالے۔ کون جانتا ہے کہ ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے خود ہمارے محافظ ہی ہمیں ساہیوال کے نزدیک خاک و خون میں لوٹا دیں۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ ایسا ہونے کی صورت میں انصاف کی فراہمی جیسے بیانات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا‘ ایسے کسی بھی واقعے کو ٹیسٹ کیس قرار دیا جائے گا اور کچھ ہی عرصہ بعد سب چین کی بانسری بجا رہے ہوں گے۔ کون جانتا ہے کہ کوئی اہلکار اسلام آباد کے اسامہ ستی کی طرح ہمیں ذاتی رنجش کا نشانہ نہیں بنائے گا؟ کیا خبر کراچی کے کسی پارک میں سیر کے دوران ہی کوئی اہلکار ہمارا قصہ ایسے ختم کرڈالے کہ پھر کوئی نام ونشان ہی نہ ملے اورہمارے لواحقین دوسروں کے ہاتھوں پر ہمارا لہو ہی تلاش کرتے رہ جائیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نقیب اللہ محسود کی طرح ہم بے گناہ ہی مار دیے جائیں اور دہشت گردی کا الزام بھی ہمارے سر پر تھوپ دیا جائے۔ کسے خبر کب ہمارے حکمران روشنیوں کے شہر کراچی سے سیاسی قوتوں کا خاتمہ کرنے کے لیے لسانی سیاست کو بڑھاوا دینا شروع کردیں اور پھر روشنیوں کا شہر اگلے تیس سال کے لیے ماتم کدہ بن کر رہ جائے۔ کون جانتا ہے کہ کب کس بوتل سے کون سا ایسا جن نکل آئے کہ بعد میں اُسے بوتل میں واپس بھیجنا ہی محال ہوجائے۔ ہے اِس بات کی کوئی ضمانت کہ ہم راہ چلتے کسی ''ہجومی انصاف‘‘ کا شکار نہیں ہوں گے؟کوئی نہیں جانتا‘ کوئی ایک بھی نہیں جانتا۔
اب کے شور ایسے مچایا جارہا ہے جیسے سب کچھ ٹھیک کرکے ہی دم لیا جائے گا۔ اُٹھک بیٹھک تو ایسے ہورہی ہے جیسے نیشنل ایکشن پلان کے اُن 9نکات پر بھی عمل درآمد ہوجائے گاجو گزشتہ سات برسوں سے نظرِ التفات کے منتظر ہیں۔ جی ہاں! سات سال گزر چکے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کے بیس میں سے نو نکات پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ اب سیالکوٹ کا واقعہ پیش آیا ہے تو محترمہ شیریں مزاری صاحبہ نے نوید سنائی ہے کہ اِن نکات پر عمل نہ ہونے کی وجوہات کا جائزہ لیا جا ئے گا۔ اِسے افسوس ناک صورت حال قرار نہیں دیا جائے گا کہ حالیہ برسوں کے دوران پارلیمنٹ میں ایسی کوئی رپورٹ پیش نہیں کی گئی جس میں بتایا گیا ہو کہ نیشنل ایکشن پلان کے نکات پر کس حد تک عمل درآمد ہوسکا۔ ہم دوسرے ممالک میں انتہا پسندی بڑھنے کا رونا روتے رہتے ہیں اور خود اپنا جائزہ لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اگر ہم سچ میں زندہ قوم ہوتے اور کچھ کر گزرنے کے جذبے سے سرشار ہوتے تو ہمارے کان تبھی کھڑے ہوجانا چاہئیں تھے جب 1980ء سے 1986ء کے دوران حساس نوعیت کے کیسز کی تعداد چودہ سے بڑھ کر 15سو تک جا پہنچی تھی۔ ایسے مبینہ واقعات کے ذمہ دار قرار دیے جانے والوں میں سے درجنوں افراد کو تو عدالتوں تک جانے کا موقع بھی نہیں ملا تھا۔ اِن افراد کے ساتھ سڑکوں پر ہی ''انصاف‘‘ کردیا گیا تھا۔ اگر کسی کو علم ہے ان ''منصفوں‘‘ میں سے کتنے افراد قانون کی گرفت میں آئے تھے تو براہِ کرم ہمیں بھی آگاہ کر دیجئے۔ عرصہ ہوا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں شدت پسندانہ رویوں کو ہمارے ملک کے لیے انتہائی خطرناک قرار دے رہی ہیں لیکن ہم ایسی باتوں کو ہمیشہ اغیار کی سازش قرار دے کر خود بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ یہ جو اب سیالکوٹ میں پیش آنے والے واقعے کی مذمت میں مصروف ہیں‘ یہ جو ایک مرتبہ پھر ریاست کی رِٹ کو قائم رکھنے کی باتیں کررہے ہیں‘ کیا اِنہیں یاد نہیں کہ ماضی قریب میں کیا ہوتا رہا ہے؟ سیالکوٹ واقعے کے بعد ہرحکومتی عہدیدار‘ اپوزیشن کا ہر اہم رہنمااور علمائے کرام کے ساتھ ساتھ ہرمکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے اِس واقعے کی پُرزور مذمت کی ہے۔ ہمارے وزیراعظم صاحب نے اپنے سری لنکن ہم منصب کو ذاتی طور پر انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ‘ لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ اِس بات کا کتنے فیصد یقین ہے کہ جو کچھ کہا جارہا ہے‘ اُس پر من وعن عمل بھی کیا جائے گا۔
سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ اِن حالات کے لیے کس کس کو ذمہ دار قرار دیا جائے۔ اُن کوجنہوں نے شعوری طور پر شدت پسندی کو فروغ دیا‘ جنہوں نے سیاسی قوتوں کو تہِ تیغ کرنے کے لیے لسانی سیاست کو فروغ دیا یا اُنہیں جنہوں نے اِس حوالے سے حکمرانوں کے ہاتھ مضبوط کیے ۔حد تو یہ ہے کہ ہمارے جذبوں کا عملی زندگیوں میں کوئی نام ونشان تک نہیں ملتا۔ رواداری کا درس دینے والے منافرت پھیلا رہے ہیں‘ ایمانداری کی باتیں کرنے والے خود سب سے بڑے بے ایمان ثابت ہوتے ہیں۔ دو رخی کی ایسی انتہا کہ خدا کی پناہ! اور باتیں ہم کررہے ہیں ملک سے کرپشن اور رشوت ختم کرنے کی۔ دعوے ہم کر رہے ہیں مذہبی رواداری اور برداشت کو فروغ دینے کی۔ ایسی باتوں کا نہ پہلے کوئی فائدہ ہوا تھا اور نہ اب کوئی فائدہ ہوگا۔ 1980ء میں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے گرائے جانے والے شدت پسندی کے بیج اب تن آور درخت بن کر پورے معاشرے کو جنگل بنا چکے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ سیالکوٹ واقعے پر ایسے ہی خواہ مخواہ بڑی بڑی باتیں اور دعوے مت کریں مبادا بعد میں اپنی ہی باتوں پر شرمندہ ہونا پڑ جائے‘ بالکل ویسے ہی جیسے ہم ماضی میں درجنوں بار ہوچکے ہیں لہٰذابہتر یہی ہے کہ اِسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیں اور معاملات کو اسی رخ پر چلنے دیں جس پر یہ چل رہے ہیں۔یہ وہ بھاری پتھر ہے‘ جسے سب چوم کر آگے بڑھ جاتے ہیں کیونکہ سب کو علم ہے کہ یہ پتھر اٹھانا ان کے بس میں نہیں ہے۔ لہٰذا کمزور حکومتی رِٹ‘ کم ہمتی اور پست حوصلوں کے ساتھ وہاں تک ہی بیانات دیجیے جہاں تک آپ اپنے قول کو نبھا سکتے ہوں۔ یہ سب بڑی بڑی باتیں ہیں کہ یہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے گا، یہ کر دیا جائے گا، وہ کر دیا جائے گا۔ ایسے ہی بیانات چند ہفتے قبل ایک دھرنے کے دوران بھی سننے کو ملے تھے، آج ان بیانات کے بعد کی صورتحال ہم سب اپنی آنکھوں سے بخوبی دیکھ رہے ہیں کہ کیسے راتوں رات نہ صرف جیلوں سے افراد رہا ہو گئے بلکہ دیگر تمام معاملات بھی طے پا گئے لہٰذا ایسی بڑی بڑی باتیں کر کے اپنے الفاظ اور قوم کا وقت ضائع نہ کریں۔ ہمارے عوام بہت بھولے ہیں‘ یہ ہمیشہ لفظوں کے دام میں پھنس جاتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved