تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     09-12-2021

قرضوں میں تاریخی اضافہ اور مہنگائی کم کرنے کا جدید طریقہ

پاکستانی عوام آج کل جس تذبذب کا شکار ہیں‘ اس کا تعلق معیشت سے ہے۔ وہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ معاملات پیچیدہ ہو چکے ہیں یا وہ کج فہم ہو گئے ہیں کہ حالات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ سعودی عرب نے تین ارب ڈالر سٹیٹ بینک میں جمع کرا دیے ہیں۔ مشیرِ خزانہ شوکت ترین صاحب نے فرمایا تھا کہ سعودی قرض ملنے سے روپیہ مضبوط ہو گا اور ڈالر کی قیمت نیچے آ جائے گی لیکن اب تک حالات جوں کے توں ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ کمزور ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ چند پیسے ڈالر نیچے آیا لیکن پھر شاہین کی سی پرواز لے کر پہاڑوں کی چوٹی پر بسیرا کرنے لگا۔ ویسے ڈالر کی شان تو یہی رہی ہے کہ اس کی نظر ہمیشہ ستاروں پر رہتی ہے لیکن روپے کا کیا کریں‘ جو ہمیشہ سہاروں کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس مرتبہ سہارے نے بھی اسے گرنے سے نہیں بچایا۔ تین ارب ڈالر پاکستانی معیشت کے لیے خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ ان حقائق سے لگا لیں کہ آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر لینے کے لیے پاکستان نے روپے کی قدر پچاس فیصد سے زیادہ تک گرا دی ہے اور سعودی عرب سے تین ارب ڈالر ملنے کے بعد نہ روپیہ مضبوط ہوا ہے، نہ ڈالر نیچے گرا ہے اور نہ ہی مارکیٹ اوپر گئی ہے۔ بس معمول کی ہلچل ہوئی حالانکہ ماضی میں حالات ایسے نہیں تھے۔ 2013ء میں جب سعودی عرب سے تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر امداد ملی تھی تو یہاں ڈالر کی قیمت میں دس روپے تک کمی واقع ہوئی تھی۔ ڈالر 109 روپے سے کم ہو کر 99 روپے تک آ گیا تھا لیکن آج دو گنا ڈالر موصول ہونے سے بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے جس سے اس رائے کو تقویت مل رہی ہے کہ مبینہ طور پر حکومت پاکستان ڈالر کی قیمت بڑھانے کے حوالے سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں ہے۔ ڈالر کنٹرول کیا جا رہا ہے اور ممکنہ طور پر اس کی قیمت 200 روپے تک لے جانے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ شوکت ترین صاحب کا یہ دعویٰ بھی کمزور محسوس ہونے لگا ہے کہ مافیا اور سٹے کی وجہ سے ڈالر کی قیمت اپنی اصل قیمت سے دس روپے زیادہ ہے۔ عمومی طور پر سٹے کی مارکیٹ ڈالروں کی آمد کے ساتھ ہی گرنے لگتی ہے‘ عالمی طاقتوں کے پاکستانی معیشت پر اعتماد سے روپے کے مضبوط ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں‘ رسد میں اضافے کے خوف سے مافیا ڈالر بیچنے لگتا ہے جس کا اثر مارکیٹ پر پڑتا دکھائی دیتا ہے لیکن اس مرتبہ حالات مختلف ہیں۔
2019ء میں سعودی عرب نے پاکستان کو تین ارب ڈالر ڈیپازٹ میں رکھنے کے لیے دیے تھے تو ڈالر کی قیمت میں تقریباً چار روپے کمی واقع ہوئی تھی۔فی الحال سٹاک ایکسچینج سمیت دیگر سرمایہ کاروں کے حساب کتاب الٹے پڑ گئے ہیں۔ وہ معاملات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی بلکہ مایوسی بڑھ گئی ہے۔ سعودی عرب کے بعد اگلا قرض آئی ایم ایف سے موصول ہونا ہے۔ تقریباً ایک ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے جس کے بعد‘ آئی ایم ایف کے کل پیکیج میں سے نصف کے قریب یعنی تین ارب ڈالر پاکستان کو مل جائیں گے اور تین ارب بقایا رہ جائیں گے۔ یہ امید کی جا رہی تھی کہ قرض کی نئی قسط ملنے سے ڈالر کی قدر میں واضح کمی واقع ہوگی جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر ایسا دکھائی نہیں دے رہا۔ ممکنہ طور پر آئی ایم ایف کے قرض کی قسط موصول ہونے کے بعد بھی ڈالر کی قیمت میں واضح کمی نہیں آ سکے گی۔ یہ صورتحال یقینا مایوس کن ہے۔ حکومت سارا بوجھ درآمدات پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔
آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں اور ملکوں کی جانب سے ملنے والے قرض کی شرائط کے حوالے سے حکومت کو بخوبی آگاہ کیا جاتا ہے اور وزیراعظم ہائوس کی منظوری کے بغیر کوئی بھی معاشی پروگرام شروع نہیں کیا جاتا لہٰذا ڈالر کی قیمت بڑھانے کے مبینہ معاہدے کے حوالے سے بھی وزیراعظم صاحب ممکنہ طور پر آگاہ ہوں گے۔ ان سے گزارش ہے کہ عوام کے سامنے تمام حقائق کھول کر بیان کریں تا کہ ابہام ختم ہو سکے اور کاروباری حضرات زمینی حقائق کے مطابق منصوبہ بندی کر سکیں۔
ایک طرف توقعات کے مطابق نتائج نہیں مل رہے اور دوسری طرف قرضوں میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف کے 40 مہینوں میں بیرونی قرضوں کا گراف 127 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکا ہے۔ ان میں بینکوں سے لیے گئے اندرونی قرض شامل نہیں ہیں۔تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے ادوار سے زیادہ قرض لیا ہے۔ وزارتِ خزانہ سے حاصل اعدادوشمار کے مطابق 2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی نے یومیہ پانچ ارب روپے قرض لیا تھا۔ مسلم لیگ نواز نے 2013ء سے 2018ء تک یومیہ آٹھ ارب روپے قرض لیا تھا اور تحریک انصاف 40 مہینوں میں یومیہ سترہ ارب روپے قرض لے چکی ہے۔ اس حساب سے پیپلز پارٹی نے 16ارب، مسلم لیگ نوا زنے 34 ارب اور تحریک انصاف نے اب تک 32 ارب ڈالرز قرض لیا ہے۔ سرکار کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ قرض پچھلے قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کر رہی ہے لیکن یہ ادھورا سچ ہے۔ اگر اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ تحریک انصاف نے اب تک تقریباً سترہ ارب ڈالر قرض واپس کیا ہے‘ بقیہ پندرہ ارب ڈالرز یقینا حکومتی اخراجات پورے کرنے کے لیے استعمال کیے گئے ہوں گے جس کی ممکنہ وجہ کمزور حکومتی معاشی پالیسیاں ہیں۔
اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وزیراعظم کس بنیاد پر یہ فرما دیتے ہیں کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے‘ معاشی حالات ایسے ہیں کہ گھبرائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ شوکت ترین صاحب کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی اور قرضوں کے بڑھنے کے باوجود ہم درست سمت میں گامزن ہیں وزارتِ خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم بھی نجانے کونسی جنت میں رہتے ہیں کہ انہیں ہر منفی گراف مثبت دکھائی دیتا ہے۔ حکومت کے پاس اپنے بیانیے کے لیے کوئی منطق اور کوئی شواہد نہیں ہیں خیر یہاں بات ثبوتوں اور دلائل سے آگے نکلتی دکھائی دے رہی ہے۔ان کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب عام آدمی حالات کا درجہ حرارت محسوس نہ کررہا ہو اور معاملات سمجھنے کے لیے دلائل کا سہارا لینا مجبوری بن جائے لیکن جب آپ کے بینک اکائونٹ میں پڑے دس لاکھ روپے کی قیمت پانچ لاکھ کے برابر رہ جائے تو پانچ لاکھ کا نقصان بغیر کسی دلیل کے سمجھ آ جاتا ہے۔ درحقیقت پاکستانی اسی نقصان سے دو چار ہیں۔ پاکستان میں ڈالر کی قیمت بڑھنے سے روپے کی قدر پچاس فیصد سے زیادہ گر چکی ہے جس کے باعث عام آدمی کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور وسائل بڑھنے کا نام نہیں لے رہے۔ انسانی فطرت ہے کہ جب دولت کم ہونے لگتی ہے تو خود اعتمادی ہاتھ سے سرکنے لگتی ہے۔ چاہے آپ ارب پتی ہوں لیکن ایک کروڑ روپے کا نقصان بھی آپ کی شخصیت پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے جسے آپ چاہتے ہوئے بھی چھپا نہیں سکتے۔ روپے کی قدر گرنے سے اکثر پاکستانی اپنی آدھی دولت سے محروم ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں نہ گھبرانا یقینا غیر فطری عمل ہے۔حالات کا وقتی طور پر کمزور ہونا یا پٹری سے اتر جانا زیادہ نقصان دہ نہیں ہوتا‘ اصل فکر اس وقت ہوتی ہے جب ہر تین ماہ بعد اگلے تین ماہ کا وقت دے دیا جائے۔ اب حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ اسد عمر صاحب پندرہ دن کے اندر مہنگائی کم کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں جس سے متعلق رپورٹس یہ ہیں کہ سرکار مہنگائی کا حساب لگانے والا سسٹم تبدیل کرنے جا رہی ہے یعنی مہنگائی اتنی ہی رہے گی لیکن بتائی کم جائے گی۔سرکار کے پاس مہنگائی کم کرنے کا شاید یہی جدید طریقہ رہ گیاہے۔ جس انداز میں سرکار نظام چلا رہی ہے‘ اس کے بارے میں کسی عوامی شاعر نے کہا ہے کہ
نہ انجن کی خوبی نہ کمالِ ڈرائیور
بس چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved